کشمیر سا حسن رکھنے والی حسین وادی سون سکیسر

رانا فیصل جاوید  اتوار 23 فروری 2020
اس وادی کا حسن انوکھا اور مبہوت کردینے والا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس وادی کا حسن انوکھا اور مبہوت کردینے والا ہے۔ (فوٹو: فائل)

بسا اوقات من میں خواہش جاگتی ہے کہ دنیا کے جھمیلوں سے کنارہ کرتے ہوئے کسی حسین وادی کا رخ کیا جائے۔ مگر ہم پنجاب کے رہائشی یہ سوچ کر اپنی خواہش کو دبا دیتے ہیں کہ ارے یار ایسی وادیاں تو شمالی علاقہ جات میں ہی ہوں گی۔ طویل مسافت اور کئی دنوں پر مشتمل چھٹیوں کا جوکھم کیسے اٹھائیں اور بے بہا اخراجات لگ اٹھیں گے۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ سیاحت کے چکر میں نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ہائے رے یہ بندشیں دنیا داری کی، بوجھ ذمے داریوں کا کہ جو ہمیشہ ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور خوابوں کے آڑے آتا ہے۔ لیکن کچھ ہوتے ہیں مجھ جیسے جھلے جو محدود وسائل اور بے انتہا مسائل کے باوجود کوئی نہ کوئی تفریح کی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔

شمالی علاقہ جات یا وادی کشمیر کا رخ کرنے سے تو رہے، سوچا کہ پنجاب میں ہی کوئی خوبصورت وادی تلاش کی جائے۔ چنانچہ گوگل میپ پر تلاش بسیار کا آغاز کیا اور دم بخود رہ گیا کہ پنجاب بھی قدرتی خوبصورتی اور لینڈ اسکیپ میں شمالی علاقہ جات سے کم نہیں۔ یہاں فورٹ منرو کا خوبصورت پہاڑی وادی کا لینڈ اسکیپ بھی ہے جو بلوچستان تک جاتا ہے اور وسطی پنجاب میں جنت نظیر وادی سون سکیسر کیسے آنکھوں سے پوشیدہ رہ گئی؟ ہم اپنے آس پاس کی خوبصورتی سے اس قدر بے خبر کیسے ہوسکتے ہیں؟ شکریہ گوگل کا جو ہمیں باخبر رکھتا ہے اپنے گرد بکھرے فطرت کے حسین رنگوں سے۔ وادی سون سکیسر کی خوابناک خوبصورتی کا جو عکس گوگل امیجز کے ذریعے موصول ہوا اس نے ایک پل چین نہ لینے دیا۔

میں گزشتہ چند سال سے سرگودھا میں رہ رہا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ سرگودھا سے اس وادی کا فاصلہ 120کلومیٹر ہے، جو بہت کم ہے۔ میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، جو میدانی اور زرعی علاقہ ہے۔ ہمیں پہاڑوں میں گھری وادیوں میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔ سرگودھا کی کرانہ پہاڑیاں ہی مجھے مبہوت کرنے کو کافی ثابت ہوتی رہیں مگر جیسے ہی وادی سون سکیسر کے بارے میں جانا اور اس وادی کا رخ کیا تو پہلے منظر سے لے کر آخر تک ایسا ہی محسوس ہوا جیسے کسی اور ہی خوبصورت سیارے پر پہنچ گیا ہوں۔ بذریعہ گوگل دماغ میں جو ایک خاکہ تیار ہوا وادی سون تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت نکلی۔ یہاں قدرتی مناظر کی دلفریب مصوری کو من مچلتا ہے، جبکہ من کی اس معصومانہ خواہش کو کیمرے کی آنکھ میں مقید کرکے دلکش لینڈ اسکیپ کی عکاسی سے شوق پورا کیا جاسکتا ہے۔ یہاں حسن کے شاہکار دیکھ کر خود کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ جو مناظر ہم دیکھ رہے ہیں وہ حقیقی ہیں، ہم کسی خواب نگری میں نہیں۔

سکیسر کے پہاڑی سلسلے میں واقع اس جنت نظیر وادی کا نام سنسکرت کے لفظ سوہن سے اخذ کیا گیا اور یوں خوبصورت نظاروں، جھیلوں، چشموں اور تالابوں کی بدولت یہ وادی سون سکیسر کہلائی۔ سون سکیسر دس ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل ہے۔ سائنسی تحقیق کے بعد لگائے گئے محتاط اندازوں کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ وادی 5 سے 6 کروڑ سال قبل معرض وجود میں آئی۔ ظہیر الدین بابر جب اپنے لشکر کے ساتھ اس وادی سے گزرا تو قدرتی حسن سے بہت متاثر ہوا اور اس حسن کو دوچند کرنے کےلیے باغات لگانے کا حکم دیا۔ ظہیر الدین بابر نے ان الفاظ میں اس وادی کو چھوٹا کشمیر قرار دیا ’’ایں وادی بچہ کشمیر است‘‘۔

وادی سون سکیسر کے انوکھے نظارے سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ یہاں کی پرشکوہ جھیلیں، باغات، سبزہ زار، آبشاریں، چشمے، جھرنے، غاریں الگ ہی نظاروں کے حامل ہیں اور قدیم طرز تعمیر کے حامل مندر، سرائے، عمارات اپنے اندر قدیم تہذیب و ثقافت کے آثار کو سموئے ہوئے ہیں۔ یہ جنت نظیر وادی انسانی تخیل سے بھی خوبصورت ہے کہ انسان یہاں قدرت کی کرشمہ کاری پر اش اش کر اٹھتا ہے۔ یہاں آپ کو قدرتی ماحول میں نت نئے اور انتہائی خوبصورت پنچھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جبکہ موسمی پرندے جب ہجرت کرکے یہاں پڑاؤ کرتے ہیں تو وادی کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ جھیل کنارے خوبصورت پنچھیوں کی اڑان اور اٹکھیلیاں دل موہ لیتی ہیں۔

یہاں کی خاص بات جو میں نے محسوس کی، وہ سکون ہے۔ یہاں آلودگی نہیں، گندگی و غلاظت کے ڈھیر نہیں، تعفن نہیں، ٹریفک کا شور نہیں۔ ہر طرف سکون ہی سکون ہے، سادگی ہے، فطرت کی رعنائیاں ہیں، نت نئی خوشبوئیں ہیں، رنگ ہیں۔ یہاں فطرت کا دلکش رقص ہے۔ جھیلوں، چشموں اور جھرنوں کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈبو کر بیٹھنے سے جو سکون ملتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وادی سون سکیسر میں سفر کرتے ہوئے آپ کو جگہ جگہ چراگاہیں اور ان میں گھومتے بھیڑ بکریوں، گائے بھینسوں کے ریوڑ دکھائی دیں گے۔ بھیڑ بکریوں کی منمناہٹ، گائے بھینسوں کے گلے کی گھنٹیاں چار سو سریلی بازگشت کا باعث ہیں۔ یہ جانور بہت ہی سلیقے سے سڑک کنارے چلتے ہوئے مناظر میں رنگ بھرتے ہیں۔ اس وادی میں بہت سے خوبصورت گاؤں ہیں۔ پہاڑیوں کے اوپر، اور کہیں پہاڑیوں کے دامن میں بنے یہ گاؤں مثالی ہیں۔ گھروں کو بڑی ترتیب سے بنایا گیا ہے۔ یہاں شہروں کی طرح سہولیات تو نہیں لیکن قدرتی حسن کی رعنائیاں بکثرت ہیں۔

خوشاب سے سون سکیسر روڈ کی بل کھاتی سڑکوں سے ہوتے ہوئے جائیں تو دور سے ہی بلند ترین پہاڑی پر دادا گولڑہ کا مقام دکھائی دیتا ہے جہاں ایک افغان بزرگ محمد عبداللہ گولڑہ بن عون قطب شاہ شہید کا جسد بطور امانت تدفین کیا گیا تھا، بعد ازاں ان کے پوتے میت ساتھ لے گئے تھے۔ اب اس جگہ ان سے منسوب مزار ہے اور ساتھ ہی قدیم مسجد ہے جس کے گنبد بہت دور سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ موسم صاف ہو تو خوشاب سے بھی بلند پہاڑیوں پر واقع اس مسجد کے مینار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وادی تاریخ و ثقافت اور قدرتی حسن کا خوبصورت سنگم ہے۔ یہاں امب شریف ٹیمپل، تلاجہ قلعہ، اکراند قلعہ، شیر شاہ سوری کے دور کی چیک پوسٹ، مائی والی ڈھیری، مقام بابا کچھی والا فقیر سمیت دیگر قدیم تاریخی مقامات، مندر، گردوارے بھی موجود ہیں اور اچھالی جھیل، کھبیکی جھیل، جاہلر جھیل، گھڑومی جھیل، کنہٹی باغ کے چشمے اور جھیلوں، چانبل روڈ پر چشمہ سلطان مہدی، نرسنگھ پھوار، چشمہ ڈیپ شریف سمیت سکھوں کے تعمیر کردہ تالابوں کے علاوہ قدرتی تالاب، جھیلیں، چشمے، جھرنے بھی بکثرت ہیں۔

اب تک 40 سے زائد چشمے علم میں آئے ہیں، مزید کتنے ہیں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ مقامی لوگوں سے جب بھی بات ہوئی وہ یہ کہتے ہیں کہ جناب! اس دلکش سنہری وادی میں سیکڑوں قدرتی چشمے ہیں، بہت سے تو ایسے ہیں کہ مشکل راستوں، چڑھائیوں کی وجہ سے جن تک انسان رسائی بھی حاصل نہیں کرسکا۔ سمندر میں جیسے موتیوں کی بہتات ہوتی ہے، ایسے ہی یہ وادی چشموں، جھیلوں اور آبشاروں کا گڑھ ہے۔ بات ساری جستجو کی ہے، کھوج کی ہے۔ جو فطرت کے نئے رنگ دیکھنے کے شائق ہوتے ہیں وہ اس وادی کے گمنام راستوں پر چل پڑتے ہیں اور نایاب نظاروں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

جب پہلی مرتبہ وادی سون سکیسر جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت ہم چشمہ سلطان مہدی بھی گئے۔ چشمہ سلطان مہدی ایک نیک بزرگ سے منسوب ہے، جن کا مزار بھی قریب ہی واقع ہے۔ چشمہ پہاڑوں کے بیچ واقع ہے اور وہاں تک پہنچنے کےلیے پہلے پہاڑ کے اوپر سے ہوکر نیچے جانا پڑتا ہے، جو کافی مشقت بھرا کام تھا۔ انسان تھکاوٹ سے چور ہو جاتا ہے۔ مگر جیسے ہی چشمے کے بہتے پانی پر نظر پڑتی ہے تو ساری تھکاوٹ جاتی رہتی ہے۔ اس چشمے کا ٹھنڈا میٹھا پانی پینے سے انسان ہشاش پشاش ہوجاتا ہے اور جسم میں توانائی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ چشمہ سلطان مہدی کا پانی بہت ہی شفاف اور میٹھا ہے، جبکہ چشمہ میں انتہائی خوبصورت مچھلیاں تیرتی دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک سی اتر جاتی ہے۔ چشمہ مختلف اقسام کے درختوں میں گھرا ہے۔ اسی طرح چاروں اطراف بلند و بالا پہاڑیاں سبزے سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ گرمیوں میں یہاں دور دراز سے لوگ ٹولیوں کی صورت میں آتے ہیں اور چشمہ کے پانی میں نہا کر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کنہٹی باغ میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ کنہٹی باغ فیملی کی سیاحت کےلیے موزوں ہے جبکہ چشمہ سلطان مہدی کے پرخطر راستوں پر خواتین اور بچوں کےلیے چلنا قدرے خطرناک ہے، تاہم یہاں بھی بچوں اور خواتین کی ٹولیاں دیکھ کر ان کی ہمت کو داد دینے کا جی چاہتا ہے۔

جب پہلی مرتبہ اس وادی کا رخ کیا تو نوشہرہ سے کھبیکی جھیل کی طرف جاتے ہوئے راستے میں مردوال کے مقام پر دور عمر رسیدہ درخت دیکھے۔ ایک درخت سڑک کے ایک کنارے جبکہ دوسرا درخت دوسرے کنارے پر تھا اور کافی اونچائی پر دونوں بغل گیر سے دکھائی دیے۔ وہ نظارہ قابل دید تھا۔ ایسے کہ جیسے دو دیوانوں کا دائمی ملن ہوا ہو اور وہ دھیمی سروں میں اقبال کے شعر کا یہ مصرعہ گنگنا رہے ہوں ’’اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا‘‘۔ جب دوبارہ یہاں سے گزرنا ہوا تو دل کو ایک دھچکا سا لگا، کیونکہ دونوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر حسن کو گہنا دیا گیا تھا۔ یہ درخت تو رونق کا باعث تھے اب ہر طرف ویرانی کا آسیب تھا۔ مقامی دوست سے جب اسے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ’’محکمہ ہائی وے نے سڑک کنارے موجود بہت سے درخت کاٹ دیے ہیں، یہ دونوں درخت بھی ان کی سفاکیت کا شکار ہوئے ہیں‘‘۔ بدقسمتی سے سرکاری اہلکار ہی درختوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے خوبصورت، قدیم اور نایاب درخت محکمانہ بے وقوفیوں کی بدولت اپنا وجود کھو بیٹھے ہیں۔ ہم درختوں کے قاتل کیوں ہیں، ہم اتنے بے حس کیوں ہیں؟ یہ سوال میرے دل و دماغ پر بار بار دستک دیتے رہے۔

اس وادی کا حسن انوکھا اور مبہوت کردینے والا ہے۔ عمر بھر اس حسین خطے میں گزرے خوبصورت لمحات، دلکش مناظر زندہ رہیں گے۔ میں حیران ہوں کہ انتہائی خوبصورت وادی سون سکیسر عالمی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے۔ وادی سون کے دلکش نظارے سیاحوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ قدرتی حسن کے پرستاروں کی عدم موجودگی کسی المیہ سے کم تو نہیں۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی بدولت پاکستان سیاحت کےلیے ایک مرتبہ پھر فہرست میں اوپر آچکا ہے اور سیاح جوق در جوق پاکستان کے مختلف خوبصورت علاقوں کی سیاحت کو آرہے ہیں، جبکہ وادی سون سکیسر ابھی تک عالمی سیاحوں کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کرسکی۔ کیونکہ جب بھی قدرتی نظاروں کی بات ہو تو شمالی علاقہ جات کا تذکرہ کیا جاتا ہے، حالانکہ پنجاب کی یہ جنت نظیر وادی کسی بھی طرح شمالی علاقہ جات سے کم نہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ سیاحت کی دولت پر توجہ دیتے ہوئے وادی سون سکیسر کو عالمی سطح پر نمایاں کرے تاکہ عالمی سیاح اس خوبصورت وادی کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ خوبصورت قدرتی لینڈ اسکیپ سے مالا مال وادی سون سکیسر ہر ایک کو نظارے کی دعوت دے رہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔