شیلندر۔۔۔۔بولی وڈ کا معروف نغمہ نگار

مرزا ظفر بیگ  اتوار 24 نومبر 2013
ایک ویلڈر کی حیثیت سے کیریئر شروع کرنے والے نے بولی وڈ کو لازوال گیت دیے۔ فوٹو: فائل

ایک ویلڈر کی حیثیت سے کیریئر شروع کرنے والے نے بولی وڈ کو لازوال گیت دیے۔ فوٹو: فائل

شیلندر بلاشبہہ بولی وڈ کے وہ معروف نغمہ نگار ہیں جنہوں نے اس فلم انڈسٹری کو بے شمار لازوال گیت دیے جو آج بھی دنیا بھر میں شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان کے گیتوں میں ایک خاص قسم کی کشش، ایک دھیما پن اور ایک ایسا لوچ تھا جس کی کیفیت کو سننے والے ہی بیان کرسکتے ہیں۔

شیلندر کا پورا نام شیلندر کیسری لال  تھا اور شیلندر ان کا تخلص تھا، مگر انہیں اصل شہرت ان کے اسی نام سے ملی تھی۔ وہ 30اگست 1916کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے اور صرف 52 سال کی عمر میں 14 دسمبر 1968 کو انتقال کرگئے۔

نغمہ نگار شیلندر، موسیقار شنکر جے کشن اور فلم ساز اور اداکار راج کپور کی ٹیم نے بہت کام ایک ساتھ کیا اور اس ٹیم نے اس دور کے بولی وڈ میں دھوم مچادی تھی۔ شیلندر نے 1950اور1960کے عشروں میں متعدد معروف ہندی فلموں کے گیت لکھے جنہیں لازوال شہرت ملی۔

اس دور میں شیلندر ریاست بہار کے ضلع آرا میں رہتے تھے اور وہاں سے وہ ایک دم ابھرے۔ اس زمانے میں اسی ریاست میں فلم ’’تیسری قسم‘‘ کی شوٹنگ بھی ہوئی تھی۔

کیریئر:

شیلندر نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک عام محنت کش کی حیثیت سے کیا۔ وہ انڈین ریلویز میں بطور ویلڈر کام کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی ملازمت محکمۂ ریلوے میں تھی، اس لیے ملازمت کے سلسلے میں وہ اکثر سفر میں بھی رہتے تھے۔ اسی دوران 1947ء میں وہ ممبئی پہنچ گئے۔ انہی دنوں انہوں نے شاعری بھی شروع کردی تھی۔

سب سے پہلے فلم ساز راج کپور نے شیلندر میں چھپے ہوئے جوہر کو بھانپا، یہ اس وقت کی بات ہے جب شیلندر ایک مشاعرے میں اپنی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ پڑھ رہے تھے۔ راج کپور کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی معمولی شاعر نہیں، آگے چل کر یہ بہت نام کمائے گا۔ چناں چہ انہوں نے شیلندر کو ان کے لکھے ہوئے گیت خریدنے کی پیشکش کی۔ وہ ان گیتوں کو اپنی فلم ’’آگ‘‘ (1948) میں استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر اس موقع پر نہ جانے شیلندر کو کیا ہوا کہ انہوں نے راج کپور کی یہ پیشکش مسترد کردی۔ اس کی بظاہر کوئی معقول وجہ بھی نہیں تھی، مگر بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے راج کپور سے خود رابطہ کیا اور ان کی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔

اس کی اصل وجہ یہ بھی ہوئی کہ اسی دوران شیلندر کی بیوی بیمار ہوگئیں جن کے علاج کے لیے پیسے کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت راج کپور پوری کرسکتے تھے۔ اس وقت راج کپور اپنی فلم ’’برسات‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے اور اس فلم کے دو گیت ابھی تک لکھے بھی نہیں گئے تھے۔ یہ بات 1949کی ہے۔ چناں چہ شیلندر نے وہ دونوں گیت ’’پتلی کمر‘‘ اور ’’برسات میں ہم سے ملے تم سجن تم سے ملے ہم‘‘ لکھ دیے اور اس دور میں ان کا معاوضہ 500 روپے وصول کیا۔ فلم ’’برسات‘‘ کے میوزک ڈائریکٹر شنکر جے کشن تھے۔ پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا اور راج کپور، شیلندر اور شنکر جے کشن کی ٹیم نے ایسے ایسے ہٹ گیت دیے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔ پھر 1951ء میں فلم ’’آوارہ‘‘ بنی جس کا گیت ’’آوارہ ہوں، کیا گردش میں ہوں آسمان کا تارا ہوں‘‘ اس قدر مشہور ہوا کہ اس نے ہندوستان سے باہر ہندوستانی فلم کے سب سے مقبول گیت کا درجہ حاصل کیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب میوزک ڈائریکٹرز کو فلمی دنیا میں بڑا مقام حاصل تھا اور وہی فلم سازوں سے نغمہ نگاروں کو متعارف کراتے تھے۔ یعنی گیت نگاروں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی، انہیں موسیقاروں کی سفارش پر کام ملتا تھا۔ ایک بار شنکر جے کشن نے شیلندر سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں بولی وڈ کے دیگر فلم سازوں اور فلم ساز اداروں سے متعارف کرائیں گے تاکہ انہیں مزید کام مل سکے، مگر انہوں نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا۔ اس پر شیلندر کا دل تو ٹوٹا مگر انہوں نے اپنی زبان سے کوئی شکوہ نہ کیا بلکہ شنکر جے کشن کو ایک رقعہ بھیجا جس میں صرف یہ لائنیں لکھی تھیں:

’’چھوٹی سی یہ دنیا، پہچانے راستے ہیں، کہیں تو ملو گے، پھر پوچھیں گے حال‘‘

یہ رقعہ جب شنکر جے کشن کو ملا تو وہ اس میں چھپے ہوئے پوشیدہ پیغام کو سمجھ گئے۔ انہوں نے شیلندر سے معذرت کی اور مذکورہ بالا چند سطروں کو موسیقی کی دھن میں کچھ اس انداز سے ڈھالا کہ وہ اپنے دور کا ایک بہت مقبول گیت ثابت ہوا۔ یہ گیت فلم ’’رنگولی‘‘ میں شامل کرلیا گیا تھا جو 1962میں بنی تھی۔ اس فلم میں نغمہ نگار کے لیے فلم ساز راجندر سنگھ بیدی کے ذہن میں مجروح سلطان پوری کا نام تھا۔ تاہم شنکر جے کشن نے کے پرزور اصرار پر فلم ساز راجندر سنگھ بیدی نے شیلندر کو سائن کرلیا۔

شنکر جے کشن کے علاوہ نغمہ نگار شیلندر نے بولی وڈ کے دیگر معروف اور مقبول موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا جن میں سلل چوہدری (مدھومتی) سچن دیو برمن (گائیڈ، بندنی اور کالا بازار) اور روی شنکر (انورادھا)

اسی طرح شیلندر نے راج کپور کے علاوہ دیگر معروف فلم سازوں کے ساتھ بھی کام کیا جن میں بمل رائے (دو بیگھے زمین، مدھومتی، بندنی) اور دیوآنند (گائیڈ اور کالا بازار) شامل ہیں۔

٭زندگی کے آخری ایام:

1960کے عشرے کے وسط میں شیلندر نے فلم ’’تیسری قسم‘‘ (1966) کی تیاری میں بھاری سرمایہ کاری کرڈالی جس نے بیسٹ فیچر فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ جیت لیا۔ تاہم تجارتی بنیادوں پر یہ فلم ناکام ثابت ہوئی۔ یہ کوئی معمولی خسارہ نہیں تھا۔ شیلندر نے اس فلم پر اپنی ساری جمع پونجی لگادی تھی اور فلم چل نہیں سکی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا ٹینشن تھا جس کی وجہ سے شیلندر بیمار ہوگئے۔ پھر انہوں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے کثرت سے شراب نوشی شروع کردی۔ بیماری، شراب اور ذہنی دبائو ان سب نے مل کر شیلندر کو موت کے منہ میں پہنچادیا اور دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

شیلندر کا بیٹا شیلے شیلندر بھی نغمہ نگار بنا۔ شیلندر کے ہم عصر حسرت جے پوری نے ایک بار ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا تھا:

’’شیلندر انڈین فلم انڈسٹری کے بہترین نغمہ نگار تھے۔ انڈسٹری کو ان جیسا نغمہ نگار اب کبھی نہیں ملے گا۔‘‘

شیلندر کے کچھ مقبول گیتوں کے مکھڑے:

٭ ’’آوارہوں، یا گردش میں ہوں آسمان کا تارا ہوں‘‘ فلم آوارہ

٭ ’’رمیا وستا ویا، میں نے دل تجھ کو دیا‘‘ فلم شری 420

٭ ’’مڑ مڑ کے نہ دیکھ‘‘ فلم شری 420

٭ ’’میرا جوتا ہے جاپانی‘‘ فلم شری 420

٭ ’’آج پھر جینے کی تمنا ہے‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’گاتا رہے میرا دل‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’پیا تو سے نیناں لاگے رے‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’کیا سے کیا ہوگیا‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’ہر دل جو پیار کرے گا‘‘ فلم سنگم

٭ ’’دوست دوست نہ رہا‘‘ فلم سنگم

٭ ’’سب کچھ سیکھا ہم نے‘‘ فلم اناڑی

٭ ’’کسی کی مسکراہٹوں پہ ہو نثار‘‘ فلم اناڑی

٭ ’’دل کی نظر سے‘‘ فلم اناڑی

٭ ’’کھویا کھویا چاند‘‘ فلم کالا بازار

٭ ’’پیار ہوا اقرار ہوا‘‘ شری 420

٭ ’’عجیب داستاں ہے یہ‘‘ فلم دل اپنا اور پریت پرائی

شیلندر نے 1949سے 1966کے دوران اپنے عروج کا زمانہ گزارا اور اس مدت میں انہوں نے شہرت بھی حاصل کی اور دولت بھی، مگر بعد میں فلم ’’تیسری قسم‘‘ کی ناکامی نے انہیں دوسرے جہان میں پہنچادیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔