یاسرعرفات کو کیسے قتل کیا گیا؟

عبدالقیوم فہمید  اتوار 24 نومبر 2013
 سوئٹزرلینڈ کے سائنس دان نوماہ کی تحقیقات کے نتیجے میں فلسطینی لیڈر کی ہلاکت کا معمہ حل کرنے میں کامیاب۔ فوٹو: فائل

سوئٹزرلینڈ کے سائنس دان نوماہ کی تحقیقات کے نتیجے میں فلسطینی لیڈر کی ہلاکت کا معمہ حل کرنے میں کامیاب۔ فوٹو: فائل

فلسطینی لیڈر یاسرعرفات المعروف ابوعمار اپنی زندگی میں مسئلہ فلسطین کے ایک فریق کی حیثیت سے عالمی سیاست کا موضوع رہے لیکن ان کی پراسرارموت نے بعد ازوفات بھی ابلاغ کی دنیا میں انہیں زندہ رکھا ہوا ہے۔

اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے بعض ایسے فیصلے اوراقدامات بھی کیے جن سے بہت سے فلسطینی اورعرب حلقے ناخوش ہیں لیکن جس انداز میں ان کی موت واقع ہوئی اس کے باعث ہرایک کوان سے یکساں ہمدردی ہونے لگی ہے۔ 1993ء سے قبل ابوعمار اسرائیل کے گلے کا کانٹا سمجھے جاتے تھے لیکن اوسلو معاہدے کے بعد انہیں اسرائیل بھی ایک لبرل اور اعتدال پسند لیڈرسمجھنے لگا تھا۔ستمبر2001ء میں فلسطین میں اسرائیل مخالف تحریک انتفاضہ شروع ہوئی توصہیونی ریاست نے انہیں اس تحریک کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کی سزا کے طور پر 2002ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون نے انہیں رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈکواٹرمیں بندکردیا۔

یہاں سے یاسرعرفات کی زندگی کے پراسرار دن شرو ع ہوئے اور آخرکار اسی پراسراریت کے تہہ درتہہ پردوں میں ان کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔75سالہ ابوعمار پیرانہ سالی کے باوجود فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ بڑی جرأت سے لڑتے رہے لیکن نظربندی کے باعث ان کے قوا جواب دینے لگے۔ 2004ء کے شروع میں بیمار یوں نے آگھیرا۔ پہلے ان کے علاج کے لیے مقامی فلسطینی ڈاکٹروں کی خدمات لی گئیں۔معمولی بہتری کے بعد ان کی طبی حالت باربار بگڑنے لگ جاتی۔بیگم سہاعرفات اکلوتی بیٹی زہواعرفات کولے کر پیرس چلی گئیں اور بوڑھا مرد بیمار فلسطینی اتھارٹی کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا گیا۔ علالت کے ایام میں موجودہ صدرمحمود عباس، فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کار اعلیٰ احمد قریع اور فتح کے منحرف لیڈر محمد دحلان ان کے مقربین میں شامل تھے، جن کا بیشتر وقت ابوعمار کے پاس ہی گذرتا تھا۔جب فلسطینی معالج ناکام ہوئے تو مصری ڈاکٹروں کی خدمات لی گئیں ۔معاملہ زیادہ بگڑا تو تیونس سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھی رام اللہ بھیجی گئی۔

فلسطینی ، مصری اور تیونسی ڈاکٹرجب ناکام ہوگئے اوریاسر عرفات نقاہت کے باعث باربار بے ہوش ہونے لگے تو انہیں 12اکتوبر 2004کو فرانس کے صدرمقام پیریس کے ایک ملٹری اسپتال میں لے جایا گیا۔عرفات ابھی پیرس کے فوجی اسپتال میں زیرعلاج ہی تھے کہ فلسطین میں اطلاعات رسانی کے ایک مستند ادارے ’’مرکزاطلاعات فلسطین‘‘ نے رام اللہ اتھارٹی کے ایک ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا کہ یاسرعرفات ایک ناقابل علاج مرض کا شکار ہیں۔ فرانسیسی ڈاکٹربھی اس مرض کا علاج کرنے میں ناکا م ہوچکے ہیں۔ملٹری اسپتال نے عرفات کے جتنے بھی میڈیکل ٹیسٹ کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کے خون میں مہلک بیکٹیریا داخل ہوچکے ہیں۔ مسٹر عرفات علالت کے دوران جوخوراک استعمال کرتے رہے ہیں وہی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے، یہ مشکوک خوراک زہربھی ہوسکتی ہے‘‘۔ یہ خبراس وقت سامنے آئی تھی جب یاسر عرفات حیات تھے ،جس کے چند ایام بعد 11نومبرکو اسی پراسرار بیماری کے ہاتھوں جان کی بازی ہار بیٹھے۔

یاسرعرفات کے بعد ان کی موت کے بارے میں فلسطینی سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔ابلاغی حلقوں میں یہ رپورٹس آنے لگیں کہ یاسرعرفا ت کو زہردے کرقتل کیا گیا ہے۔ زہر دیے جانے کا معمہ اس وقت کئی پردوں میں چھپا تھا اور کوئی یہ بتانے سے قاصر تھا کہ انہیں کس نوعیت کا زہردیا گیا ہے اور آیا ایسا ہوا بھی ہے یا نہیں؟ 2005ء میں فلسطینی اتھارٹی کے زیراہتمام ایک تحقیق کرائی گئی ۔تحقیق مکمل کرنے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار توفیق طیراوی نے پہلی بار باضابطہ طورپر تصدیق کی یاسرعرفات کی موت زہرخورانی کے باعث واقع ہوئی ہے۔

2007ء یاسرعرفات کی بیوہ سہا عرفات نے ایک مرتبہ پھر اس معاملے پر تحقیقات کرانے کا بیڑااٹھایا۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں ، فرانسیسی حکومت اور پیرس کے ملٹری اسپتال کے ان ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جو یاسرعرفات کے عرصہ علالت میں ان کے معالج رہ چکے تھے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں کی جانب سے سہا عرفات کو کوئی فوری اور مثبت جواب نہیں دیا گیا، جس نے عرفات کی موت کے حوالے سے شکوک میں مزید اضافہ کر دیا۔ آخرکار سہا عرفات کی درخواست پر فرانسیسی ماہرین نے یاسرعرفات کی وفات کے اسباب پرتحقیقات شروع کردیں۔ تحقیقات میں بتایا گیا کہ یاسرعرفات کے میڈیکل ٹیسٹوںاور دیگر نمونوں کی مدد سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا۔ فرانسیسی اسپتال کی یہ رپورٹ ادھوری تھی جسے مزید آگے بڑھانے کے لیے روسی ماہرین کے حوالے کردیا گیا۔ ایک سال کی مغزماری کے بعد روس کی نجی اور سرکاری ٹیموں نے اپنے الگ الگ نتائج جاری کئے۔ ماسکو وزارت خارجہ نے تحقیقات کے نتائج کے بارے میں ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ عرفات کی باقیات سے ان کے جسم میں زہرکی موجودگی کا پتہ چلتا ہے تاہم نجی سطح پرکی جانے والی تحقیق میں اس کی نفی کی گئی۔

مالٹا سے تعلق رکھنے والی سہاعرفات نے 31جولائی 2012ء کو سوئٹزرلینڈ کے ماہرین کودرخواست دی جس میں کہا گیا کہ فرانسیسی، فلسطینی اور روسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے شوہر کی موت’’پلونیم‘‘ نامی ایک زہرسے ہوئی ہے۔ وہ اس حوالے سے مزید تحقیقات کرانا چاہتی ہیں۔ماہرین کو معاملے کی تحقیقات کے لیے کہا گیا۔ سوئس سائنسدانوں نے نومبر2012ء میں رام اللہ میں یاسرعرفات کی قبرکشائی کرکے مرحوم کی باقیات کے 60نمونے حاصل کیے۔ انہوںنے یاسرعرفات کے زیراستعمال کپڑوں اور فرانسیسی ڈاکٹروں کی رپورٹس بھی طلب کیں۔

العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سوئس حکومت نے نسبتاً زیادہ ذمہ داری اور توجہ کے ساتھ سہا عرفات کی درخواست پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا اور تحقیقات کی ذمہ داری سوئٹرزلینڈ کی لاسین یونیورسٹی کے اسپتال کی ریڈیالوجی لیبارٹری کے ماہرین کو سونپی۔  50 ماہرین نے نہایت جانفشانی اور باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کے بعد رواں نومبر کے اوائل میں 108صفحات پرمشتمل ایک مفصل رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحقیقات کے دوران اس امرکی تصدیق ہوئی ہے کہ یاسرعرفات کی موت ایک خوفناک تابکاری زہر’’پلونیم210ـ‘‘ کے استعمال سے واقع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ پرواڈیوس یونیورسٹی کے ہاسپیٹل سینٹر کے10 ماہرین کے دستخط ثبت ہیں۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ یاسرعرفات کی باقیات کے نمونوں پرٹاکسیکا لوجیکل اور ریڈیو ٹاکسیکا لوجیکل کی نئی تحقیقات کی گئیں جن میںغیرمتوقع طورپر یہ ثابت ہوا ہے کہ مرحوم کے جسمانی ڈھانچے سے لیے گئے نمونوں میں تابکاری زہرپلونیم210 اور جست نہایت مہلک اثرات پائے گئے ہیں۔تحقیقات میں میڈیا کے اس دعوے کی بھی تردید ہوگئی ہے کہ مرحوم کی وفات سیگریٹ نوشی کے باعث ہوئی کیونکہ یاسرعرفات کی ہڈیوں اور جسم کے نرم ریشوں میںپلونیم کی سطح18سے 20 فیصد کے درمیان تھی جس کے بعد ماہرین نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ ان کی موت میں 83 فی صد ہاتھ اسی پلونیم210 کا ہے۔

عرب دنیا کے مقبول ترین دو ٹیلی ویژن چینلز الجزیرہ اور العربیہ نے یاسرعرفات کی زہرخورانی سے موت سے متعلق رپورٹ کو غیرمعمولی کوریج دی اور سانحے کے قریباً تمام گوشوں کو سامنے لانے کی قابل قدرساعی کی ہے۔ان دنوں نشریاتی اداروں کی رپورٹس میں برطانیہ کے ایک مستند معالج ڈاکٹرڈیوڈ بارکلے کے رپورٹ پر تجزیے کا بکثرت حوالہ دیا ہے۔ڈاکٹر ڈیوڈ 30سال سے ایسے ہی کم و بیش 230کیسزکی تحقیقات کرچکے ہیں۔ انہوںنے گوانتا نامو میں دوران حراست انتقال کرنے والے یمنی القاعدہ کمانڈر صلاح الدین الیمنی کی موت پربھی تحقیقات کی تھیں اور اس کی موت کو بھی پلونیم زہر کو وجہ قراردیا تھا۔ معاملہ چونکہ القاعدہ سے متعلق تھا اس لیے اسے داخل دفتر کردیا گیا۔ یاسرعرفات کے کیس کے بارے میںبھی ان کی ماہرانہ رائے کو مستند قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوئس سائنسدانوں کی تیار کردہ رپورٹ کے بعدمیں نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ یاسرعرفات کو یہ زہران کی موت سے محض چند دن یا ایک ہفتہ قبل دیا گیا ہے، کیونکہ ایک ہفتے میں زہر کا اثر سرکے بالوں میں کم سے کم ایک سینٹی میٹر تک ان کی نشوونما کے مطابق ہونا چاہیے، لیکن زہرکا اثرسرکے بالوں میں ایک سینٹی میٹر کے چھٹے یا ساتویں حصے میں عین بالوں کی جڑوں کے قریب تک ہی پہنچ پایا تھا۔تاہم خود رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کے تجزیے کے مطابق یاسرعرفات کے جسم میں پلونیم کے اثرات ایک ماہ سے زیادہ دن پہلے ثابت ہو رہے ہیں۔ جسمانی ڈھانچے کی باقیات سے اس کا اندازہ کم ہوتا ہے تاہم مرحوم کے استعمال میں رہنے والی بعض اشیاء اور ان کے بعض کپڑوں سے بھی اس کے شواہد ملے ہیں۔ ان کے وہ کپڑے جو انہوں نے رام اللہ میں دوران علاج زیب تن کر رکھے تھے وہ بعد ازاں پیرس منتقلی کے دوران ساتھ نہیں لائے گئے۔ اس سے مرکزاطلاعات فلسطین کے انکشاف کو بھی تقویت ملتی ہے جوان کے عرصہ علالت کے دوران سامنے آیا تھا۔

ڈاکٹرڈیوڈ بارکلے کا کہنا ہے کہ پلونیم ایک ایسا زہر ہے جسے خوراک میں شامل کرنے ہی سے نہیں دیا جاسکتا بلکہ عین ممکن ہے کہ بیمار پرسی کے دوران کسی نے ان کے چہرے پربوسہ دینے کے بہانے مَل دیا ہو، یا ان کے کپڑوں میں چپکا دیا ہو۔ موخرالذکردونوں صورتوں میں اس زہرکااثر چونکہ براہ راست انسانی نظام انہضام اور خون تک نہیں پہنچتا اس لیے اس کے اثرات بھی رفتہ رفتہ جسم میں داخل ہوئے ہوں گے۔

قاتل کون؟

یاسرعرفات کو زہردیے جانے کامعمہ حل ہوا مگر یہ سوال شائد اب تاابد موجود رہے کہ اس مجرمانہ اور گھناؤنی حرکت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس وقت تین فریقوں فلسطینی اتھارٹی، فرانسیسی ڈاکٹر اور اسرائیل کے نام ایک ساتھ لیے جا رہے ہیں۔یہاں بھی ہم سیاسی کے بجائے طبی ماہرین کی رائے لیں توبہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پلونیم ایک ایسا زہرہے جو ہرکس و ناکس کے پاس نہیں ہوسکتا۔ یہ انتہائی حساس شے ہے جو صرف جوہری ہتھیار رکھنے والے ملکوں کے پاس نہایت محدود مقدار میں ہوسکتا ہے۔ اس رائے کو دیکھیں توجس فلسطینی اتھارٹی کے پاس اس کی موجودگی محال دکھائی دیتی ہے۔ فرانسیسی ڈاکٹروں کے پاس ہونا بھی قرین قیاس نہیں۔ صرف اسرائیل کی طرف انگلیاں زیادہ اٹھتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘والی ضرب المثل اسرائیل پرزیادہ صادق آتی ہے کیونکہ خود اسرائیل کے ذمہ دار ادارے اور اہم شخصیات باربار یہ کہہ چکی ہیں کہ یاسرعرفات کی موت جس طریقے سے بھی ہوئی اس کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کی ایک سرکردہ سماجی ادارے “Now Peace”کے چیئرمین ’’اوری آونیری‘‘ نے ایک سے زائد مرتبہ یاسرعرفات کی موت کا براہ راست ذمہ دار سابق وزیراعظم ارئیل شیرون کو قرار دے رکھا ہے۔

مسٹر اوری کا کہناہے کہ ارئیل شیرون نے یاسرعرفات کو قتل کرنے کی قسم اٹھا رکھی تھی۔ اس نے کئی سال قبل لبنان کے صبرا شاتیلا کیمپوں میں دہشت گردی کے دوران بھی یاسرعرفات کو مارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بچ نکلے تھے۔ 2002ء میں جب عرفات رام اللہ ہیڈکوارٹر میں محصور تھے شیرون اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان ٹیلیفون پر رابطہ ہوا۔ مسٹر بش نے شیرون سے کہا کہ عرفات کی جان کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، جواب میں شیرون نے کہا کہ گوکہ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن بعض اوقات انسان موت بانٹنے میں خدا کی مدد کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوںکہ یاسرعرفات کی موت کے لیے خدا کی مدد کروں۔ اس پرصدر بش خاموش رہے۔ شیرون نے استفسارکے انداز میں کہا کہ آپ کی خاموشی میرے فیصلے سے اتفاق کی علامت ہے۔ میں عرفات کو اس طرح ٹھکانے لگاؤں گا کہ کسی کو یقین بھی نہیں آئے گا‘‘۔قارئین جگہ کی قلت نہ ہوتی تو یاسرعرفات کی موت میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے ان گنت ثبوت دیے جاسکتے تھے۔

پلونیم 210 کیا ہے؟

پلونیم 210 ایک نہایت خطرناک تابکاری زہریلا مادہ ہے جو بیشتر توایٹم اور یورنیم بم کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ سب سے پہلے 1898پولینڈ کی خاتون سائنسدان ماری اسکوڈو فسکا اور اس کے فرانسیسی شوہر بیر کوری نے مشترکہ طورپر دریافت کی تھی۔ پلونیم کا نام بھی اسے پولینڈ ہی کی نسبت سے دیا گیا۔ یہ زہرپانی،ہوا اور مٹی تینوں میں پایا جاتا ہے لیکن نہایت ہی نایاب ہے۔اس کی کم یابی کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں سے 10 ہزارٹن یورنیم خام حالت میں پایاجائے وہاں سے صرف ایک گرام پلونیم مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بے پناہ انرجی کی حامل ایک نایاب چیز ہے۔ فزکس کے ماہرین کے مطابق اگرپلونیم گیس کی ایک گرام مقدار کو جلایا جائے تو یہ پانچ مربع میٹر کی جگہ پر500 درجے سینٹی گریڈ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایک زندہ روح کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے اگر پلونیم استعمال کرنا ہوتو اس کے لیے ایک گرام کا ایک ملین واںحصہ کافی ہوگا جو مائیکرو سیکنڈ میںزندگی ختم کردے گا۔ماہرین اسے ایک دوسری مثال سے یوں سمجھاتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اس زہرسے ہلاک کرنا ہوتو اسپرین کی 50 ملی گرام کی گولی کے پانچ لاکھ حصے کرکے ان میں سے ایک کھلا دیا جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس مہلک مادے کو انٹیلی جنس ادارے اپنے مخالفین کوہلاک کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔2006ء ایک روسی جاسوس الیکزینڈر لیٹو ینکو کو یہ زہر چائے میں ملا کردیا گیا،جس سے اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔