اقوام متحدہ کا چارٹر اور ماتحت ادارے

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 23 فروری 2020
عالمی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کے معاملات میں اس ادارے کو دباؤ کا شکار رکھتی ہیں

عالمی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کے معاملات میں اس ادارے کو دباؤ کا شکار رکھتی ہیں

( قسط نمبر 2)

اگست 1945ء میں جب دوسری جنگ ِ عظیم ختم ہوئی تو ایک بات یقینی طور پر بڑی عالمی قوتوں نے تسلیم کر لی تھی کہ اس جنگ کا خاتمہ ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار کے استعمال سے ہوا تھا اور اب اگر کوئی تیسری عالمی جنگ ہوئی تو اس کا آغاز ایٹمی ہتھیاروں سے ہو گا، اور اس جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ دنیا انسانی تہذیب سمیت ہی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

اِن بڑی قوتوں کے سامنے 1919 میں پہلی عالمی جنگ کے بعد قائم ہو نے والی تنظیم لیگ آف نیشنز’ اقوام عالم‘ کی تنظیم کا حشر بھی تھا، یوں اقوام متحدہ کے چارٹر آف دی یونائٹڈ نیشنز 1945 اور ساتھ ہی یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس اب تک اس اعتبار سے دنیا بھر میں اہمیت رکھتے ہیں کہ اِن کی وجہ سے پوری دنیا میں واقعی مثبت انسانی تبدیلی رونما ہوئی، چارٹر کے دیباچے کے ساتھ دو حصے ہیں، جن میںعالمی امن اور سیکیورٹی کے فرائض بھی ہیں اور ساتھ ہی انسانی حقوق سے متعلق تفصیل ہے، یوں یہ انسانی حقوق ملکوں اور قوموں کی آزادیوں کے احترام کے لحاظ سے ایک عالمی دستاویز ہے۔

اس کے111 آرٹیکل میں اس کی تفصیلا ت درج ہیں، اس کی 103 آرٹیکلز میں چارٹر یہ کہتا ہے اس کے فرائض  کے اعتبار سے یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو باقی تمام معاہدوں پر بھاری ہے اس چارٹر پرکام 1941 سے ہوا اور ڈرافٹ بنایا گیا، 26 جون 1945 کو اس پر دستخط ہوئے اور 24 اکتوبر 1945 سے یہ نافذالعمل ہو گیا،کورٹ آف جسٹس کو اس میں ضروری قراردیا گیا، اس چارٹر کے آرٹیکلز 23 ۔27 اور61 میں 17 دسمبر 1963 کو جنرل اسمبلی نے ترامیم کیں،31 اگست 1965 کو آرٹیکل 61 میں مزید ترمیم کی گئی، 20 دسمبر 1971 کو جنرل اسمبلی نے اس کو اپنایا، 24 ستمبر1973 سے یہ نافذالعمل ہوا، 20 دسمبر 1965 کو آرٹیکل 109 کو جنرل اسمبلی نے اپنایا اور یہ 1968 میں نافذالعمل ہوا، آرٹیکل 23 میں ترمیم کرکے سکیورٹی کونسل کے گیارہ ممبران کی تعدا د 15 کردی گئی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 10 دسمبر1948 ء کو ( A/RES/217  ) کے تحت ایک ہدایت نامہ کی حیثیت سے یونیورسل ڈیکلیریشن آفٖ ہیومن رائٹس (UNHCT ) سامنے آیا۔ اُس وقت بہت سے ممالک ابھی نو آبادیاتی نظام سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے لیکن پاکستان نے آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اس ڈیکلیریشن کی تشکیل میں حصہ لیا، اس میں چارٹر کی بنیاد پر انسانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنا نے کی کوشش کی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت بھی آتی گئی پاکستان بطور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ان آرٹیکلز کو اسلامی اور اپنی ثقافتی اقدار کے تحت اپنایا ہے، اس کے بنیادی حقوق یوں ہیں،

1 ۔ ہر نوجوان کو شادی اور خاندان بنانے کا حق ہو اگر وہ چاہے

2 ۔ فکر سوچ اور خیال کی آزادی

3 ۔ آزادیِ اظہار

4 ۔ لو گوں کے اجتماع کا حق

5 ۔ سماجی تحفظ

6 ۔ جمہوریت کاحق

7 ۔کارکنوں مزدوروں کے حقوق

ان کے علاوہ 23 نکات یا حقوق اور تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی انسانی اور بنیادی حقوق کے اعتبار سے قراردادیں اور ڈیکلیریشن منظور کرتی رہی اور پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک اور اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے اپنے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ان قراردادوں اور ڈیکلیر یشن پر بھی دستخط کرکے منظور کرتا رہا اور اِن میں سے بہت سوں کی توثیق بھی کرتا رہا ہے۔ جن کی تفصیلا ت یوں ہیں

1 ۔ تشدد اور دیگر ظالمانہ غیر انسانی انداز کے رویے اور سزا کے خلاف کنونشن، یہ قرار داد نمبر 10-39/46 دسمبر 1984 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی

2 ۔ ہر طرح کے نسلی امتیاز کے خاتمے پر عالمی کنونشن کی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ 21 دسمبر1965 (XXI )۔

3 ۔ عالمی کنونشن سول اور سیاسی حقوق پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر (XXI )16 2200A دسمبر1966 کو منظور ہوئی۔

4 ۔ عالمی کنوینشن اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ قرار داد نمبر ( XXI ) A 0022  16 دسمبر1996 کو منظور کی ،

5 ۔ حقوق اطفال پر اقوم متحد ہ کا کنونشن قرارداد نمبر 44/25، 20 دسمبر 1989 ء

اس طرح پاکستان دنیا کے 193 ملکوں میں سے اُن اہم ممالک میں شامل ہے جو نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹرڈ اور یو نیورسل ڈیکلیر یشن آف ہیومن رائٹس کو تسلیم کرتے ہیں اور اپنے آئین کی روح کے مطابق ( UDHR ) کو اپنا کر اس پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 ء میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور یو نیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس Charter of the United Nation and Declaration of Human Rights (UDHR) اور اقوام متحدہ کی وہ تمام قراردادیںجو بنیادی اور انسانی حقوق کے لئے

منظور کی گئیں ہیں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 ء کے آئین میں شامل ہیں یعنی ہمارا آئین اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی قراردادوں کی روح کے مطابق ہے۔

آئین 1973 کو دیکھیں تو اس کے پہلے باب میں آرٹیکل 8 سے28 تک تمام آرٹیکلز بنیادی اور انسانی حقوق کے لئے ہیں اور ہر آرٹیکل کی ذیلی وضاحتیں بہت تفصیل کے ساتھ ہیں جو اس بات کی مکمل ضمانت فراہم کرتی ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جہاں آزادی انصاف اور حقوق کا تحفظ آئینی طور پر ممکن بنایا گیا ہے، اس جمہوری ملک میں آئین کی حدود میں آزاد عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ اپنے فرائض آئین کے مطابق انجام دیتے ہیں اور اسی طرح اقوام متحدہ کے منشور اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن کے مطابق پاکستان کے عوام دنیا بھر میں بنیادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن کے مطابق 1973 کے آئین کے پہلے باب کے آرٹیکل نمبر8 سے 28 تک کے آرٹیکلز یوں ہیں

1 ۔ آرٹیکل 8 کوئی قانون یا رسم و رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ باب میں عطا کردہ حقوق نقیض ہو ۔

2 ۔آرٹیکل 9؛ فرد کی سلامتی،کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا، سوائے اس کے جب قانون ( آرٹیکل9 ) اس کی اجازت دے۔

3 ۔ آرٹیکل :10 بنیادی حق دیتا ہے اور تحٖظ فراہم کر تا ہے ہر اُس شخص کو جو گرفتار کیا جائے یا نظر بند کیا جائے۔ تمام ایسے افراد جو گرفتار یا نظر بند کئے جائیں قانوناً اُن کو پہلے اُن کی گرفتاری کی وجہ بتانا ہو گی اور اِن کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے دفاع اور مشاورت کے لیے اپنی مرضی کا وکیل کریں۔

4 ۔آرٹیکل 10-A : یہ آرٹیکل شفاف مقدمہ کی کاروائی کا حق دیتا ہے ۔

5 ۔آرٹیکل 11 : کے تحت غلامی جبری مشقت اور بیگار کی ممانعت ہے اور چودہ سال سے کم عمر کسی بچے کو فیکٹری یا دکان میں ملاز م نہیں رکھا جائے گا۔

6 ۔ 12 یہ آرٹیکل موثر بہ ماضی سزا سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

7 ۔آرٹیکل 13 : بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے ایسے افراد کو جو دوہری سزا اور خود اپنے آپ کو ملزم سمجھتے ہیں۔ یہ حق اُن کو تحفظ فراہم کر تا ہے۔

8 ۔آرٹیکل 14کے تحت آئین میں شرف ِ انسانی کو قابل حرمت قرار دیا گیا ہے۔

9 ۔آرٹیکل 15 کے تحت ہر شہری کو پاکستان کے اندر، مفادعامہ کے قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے آزادانہ ملک کے ہر حصے میں نقل وحرکت کی آزادی ہے۔

10۔ اجتماع کی آزادی ’’آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت ملک کے ہر پُر امن شہری کو امن عامہ کے قاعدے قوانین کے تابع رہ کر اجتماع کی آزادی حاصل ہے ،

11:آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت تمام شہریوں کو انجمن سازی کی آزادی حاصل ہے جو قواعد و ضوابط کے مطابق  ہے۔

12:آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت قانون کے مطابق ملک کے ہر شہری کو تجارت،کاروبار اور اپنا پیشہ اپنانے کی آزادی حاصل ہے۔

13۔ آئین کے آرٹیکل19 کے تحت قانون مفاد عامہ کومد نظر رکھتے ہوئے ہر شہری کو تقریر وغیرہ کی آزادی ہے۔

14۔ آئین کے آرٹیکل 19A کے تحت تمام شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مفاد عامہ کے حق میں تمام معلومات تک رسائی حاصل کریں اور اُن کو مفاد عامہ کے حق میں معلومات فراہم کی جائیں۔

15۔ پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل 20 کے مطابق ہر شہری کو مذہبی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کی آزادی حاصل ہے ۔

16۔ آئین کے آرٹیکل21 کے تحت کسی خاص مذہب کے اغراض و مقاصد کے لیے ٹیکس لگانے سے تحفظ حاصل ہے۔

17۔ آئین کے آرٹیکل 22 کے تحت مذہب وغیرہ کے بارے میںتعلیمی اداروں سے متعلق تحفظات حاصل ہیں۔

18۔ آئین کے آرٹیکل 23 کے تحت پاکستان کے تمام شہریوں کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں جہاں کہیں حق حاصل کر یں اپنے پاس رکھیں یا فروخت کریں ۔

19۔ آئین کے آرٹیکل 24 کے مطابق جائیداد کے مالک کو جائیدادکے تحفظ کا حق حاصل ہے ۔

20 ۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری برابر ہیں اور اِن میں صنفی بنیاد پر کو ئی امتیاز نہیں۔

21 ۔ پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل   25A کے تحت یہ حکومت کی ذمہ اری ہے کہ وہ 5 سال کی عمر سے16 سال کی عمر تک کے ہر بچے کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرے۔

22 ۔آئین کے آرٹیکل 26 کے مطابق عام مقامات میں داخلے کے لیے لوگوں میں فرق یا امتیاز نہیں برتا جائے گا ۔

23 ۔آئین کے آرٹیکل 27 کے مطابق ملازمتوں میں امتیاز کے خلا ف تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔

24 ۔آئین 1973 کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو زبان ، رسم الخط  اور ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔

یہاں پاکستان کے آئین کی مثال اس لیے پیش کی گئی ہے کہ قارئین کی سمجھ میں یہ بات آئے کہ اکتوبر 1945میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور 1948 کے ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے بعد اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے اپنے دستاویز میں اِ ن کے آرٹیکلز کو شامل کیا ہے۔

البتہ بعض ملکوں نے اپنی ثقافتی، مذہبی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ شعبوں میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے اعلامیے کی شقوں کو محدود کیا ہے مثلاً پاکستان میں شراب نوشی مسلمانوں کے لیے جائز نہیں، لیکن اقلیتو ں سے تعلق رکھنے والے اپنے گھروںمیںشراب پی سکتے ہیں، اور جوئے ،اور زناپر سب کے لیے پابندیاں یکساں ہیں جب کہ بیشتر مغربی ملکوں میں اِن پر کوئی آئینی پابندی نہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا وہ حصہ جو دنیا میں امن وامان سے متعلق ہے اس پر بھی کسی حد تک عملدر آمد کیا جاتا ہے مگر بڑی قوتیں اور وہ ممالک جن کو بڑی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے وہاںا قوام متحدہ  کے چارٹر اکثر دفعات اُس وقت بے اثر ہو جاتی ہیں جب سکیورٹی کونسل میں پانچ ویٹو پاور کی حامل قوتوں، ملکوں میں سے کوئی ایک اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے فیصلوں یا قراردادوں کے خلا ف ویٹو کا حق استعمال کر کے اُسے بے اثر کر دیتا ہے ۔

جہاں تک تعلق دنیا کے دوسرے مسائل کا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے دیگر ادارے اور ایجنسیاں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، مثلاً WHO ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی عالمی ادارہِ صحت، اس وقت اس کے ڈائریکٹر جنرل Tedros Adhanom ٹیڈروس ایڈ ہانوم ہیں۔ اقوام متحدہ کا صحت سے متعلق یہ عالمی ادارہ دنیا بھر میں انسانی صحت اور اس سے متعلق امور کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے، دنیا بھر میں ایلوپیتھی کی ادویات کے معیار کو اس کے اصولوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، ادویات کی ایجاد اس کی آزمائش اور اس کے استعمال  سے متعلق بھی اس کے قوانین اور ضوابط ہیں، اور جب ادویات انسانی استعما ل کے لیے منظور کر لی جاتی ہیں، ادویہ ساز کمپنیوں کیجانب سے ان ادویات کی تیاری، سپلائی اور مریضوں کے استعمال تک اس کے معیار کے کنٹرول کرنے کا نظام بھی ڈبلیو ایچ او کا طے کر دہ ہے ۔

22 جولائی 1946 کو اس کے پہلے اجلاس میں اقوام متحدہ کے پہلے 51 اراکین کے ساتھ بعد کے 10 اراکین نے اس کے قیام اور دائرہ کار سے متعلق دستاویز پر دستخط کئے اور جولائی 1948میں اس ادارے نے 50 لاکھ ڈالر کی رقم سے کام شروع کیا۔ عالمی ادارہ صحت نے دنیا میں وبائی بیماریوں کے خاتمے ان کی روک تھام کے لیے بہت محنت سے کام کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ طاعون کی وبا کے خاتمے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے ریسرچ کی بنیاد پر چیچک کے خاتمے کے لیے ویکسین بنائی اور 1967 تک 2.4 ملین ڈالر سالانہ خرچ کر کے Smallpox چیچک کے پوری دنیا سے خاتمے کی ایسی مہم چلائی کہ چیچک جیسی وبائی بیماری کا ہمیشہ ہمیشہ کے لے خاتمہ کر دیا، ورلڈ ہیلتھ آر گنائزیش نے1950 ء  میں تپ دق ، ٹی بی، جیسی بیماری کے لیے کام شروع کیا اور اندازہ تھا کہ یہ ادارہ 1981 تک دنیا سے ٹی بی کی بیمار ی کا خاتمہ کر دے گا لیکن اسی زمانے میں انسانوں میں ایڈز جیسی مہلک بیماری کے سامنے آنے کی و جہ سے ٹی بی کادنیا سے مکمل خاتمہ تو ممکن نہ ہو سکا البتہ یہ ضرور ہے کہ نہ صرف اس بیماری کے پھیلاو میں کمی واقع ہوئی بلکہ ایسی موثر ادویات ایجاد کی گئی کہ جن کی وجہ سے ٹی بی کا مکمل علاج اب صرف ایک ڈیڑھ ماہ میں ہو جاتا ہے۔

1990 سے 2010 تک ٹی بی کے مرض میں پوری دنیا میں 40% کمی واقع ہوئی اور2005 سے اب تک ٹی بی کے چار کروڑ ساٹھ لاکھ مریضوں کا کامیاب علاج کیا گیا گیا اور 70 لاکھ جانیں بچائی گئیں، 1955 ء سے ملیریا کے خلاف انتہائی موثر عالمی مہم چلا کر لاکھوں اموات سالانہ میں کمی کی، عالمی ادارہ صحت کی کو شش ہے کہ دنیا سے ملیریا کا بھی خاتمہ کر دیا جائے لیکن ابتک یہ ممکن نہیں ہو سکا، البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ملیریا کے علاج کی بھی نہا یت موثر ادویات ایجاد کر لی گئی ہیں اور دنیا بھر میں ملیر یا کے خلاف مہم کے بہت مثبت نتا ئج سامنے آئے ہیں۔ 1988 سے پوری دنیا میں پولیو کے خاتمے کے لیے Global Polio Eradiction intiative کے عنوان سے مہم شروع کی اور آج دنیا میں صرف پاکستان، افغا نستان اور نائجیریا تین ایسے ملک ہیں، جہاں اب بھی پولیو کے کیس ملتے ہیں اور اِن کیسوں کی تعداد بھی سالانہ دو تین درجن سے زیادہ نہیں ہوتی جب کہ باقی دنیا کی تمام آبادی اور ممالک پولیو سے پاک ہو چکے ہیں۔ 1988 ء سے اب تک عالمی ادارہ صحت کی پولیو کے خلاف زبردست مہم پوری دنیا میں  99% کامیاب رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی اسی ایجنسی کے ذریعے پہلے 2001 سے 2010  میلینیم ڈیویلپمنٹ گولز پھر 2011 تا 2020 سسٹین ایبل گولز اور اسی کا تسلسل ڈیکیٹ گولز کے 2021 سے 2030 ہیں۔ اِن گولز میں سے ایک گول یعنی ہدف صحت سے متعلق ہے، جن میں پوری دنیا خصوصاً ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں زچہ وبچہ کی اموات میں کمی دوران زچگی ماؤں کی اموات میں کمی نومولود بچوں اور دوسالہ  بچوں کی اموات میں 90% کمی کے گولز یا اہدف کے ساتھ ساتھ کم وزن بچوں اور خون میں کمی کی حامل ماؤں کے لیے نیوٹریشن پروگرام جاری ہیں، جدید زمانے کے اعتبار سے عالمی ادراہ ِ صحت کو 1980 میں ایک بڑے چیلنچ کا سامنا کرنا پڑا جب HIV/AIDS جیسی لاعلاج بیماری سامنے آئی جو ایک ایڈز زدہ انسان سے دوسرے انسان میں خون کی منتقلی اور جنسی ملاپ کے ذریعے لگتی یا منتقل ہوتی ہے، اس بیماری میں  چونکہ انسان کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے اس لیے پھر ایڈز کے مریض کو جو بیماری بھی لگتی ہے وہ بھی نا قابل ِ علاج ہو جاتی ہے،  شروع میں اس بیماری سے لاعلمی کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئی، لیکن اس کے فوراً بعد عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس کے علاج کی ادویات کے لیے زوروشور سے کام شروع ہوا جو ابھی جاری ہے۔

اگر چہ ایچ آئی وی،ایڈز کے مکمل علاج کی ادویات ابھی تک ایجاد یا دریافت نہیں ہو سکی ہیں مگر اس کی ریسرچ میں اس حد تک کامیابی ہوئی ہے کہ اب مریض کی تکلیف بہت کم ہوئی ہے اور ایڈز کی بیماری کے ساتھ قابلِ عمل زندگی کا دورانیہ ماضی قریب کے مقابلے میں کافی بڑھ گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اگر چہ اس بیماری کا مکمل علاج ابھی تک دریافت یا ایجاد نہیں کیا مگر اس کی روک تھام کے لیے شعور و آگہی کی دنیا بھر میں ایسی کامیاب مہم چلائی ہے کہ امید یہ کی جاتی ہے کہ اگر آئندہ پچاس برسوں میں ایڈز کے مکمل علاج کی کوئی دوا نہیں بھی بنائی گئی تو بھی اس کے مریض دنیا میں نہیں ہوں گے۔

ایچ آئی وی / ایڈز کی پہلی مہم عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 1986 سے1996 تک رہی، پھر 2006 تک مزید کامیابیاں حاصل ہوئیں اب صورتحال یہ ہے کہ 15 سال کی عمر سے24 سال کی عمر تک HIV انفیکشن میں 50% کمی اور مکمل ایڈز میں 90% کمی ہوئی ہے، اسی عرصے میں ایڈز کی بیماری کی وجہ سے اموات میں25% کمی واقع ہوئی ہے ، ایڈز کے خاتمے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اسٹرٹیجی یہ ہے کہ جن کو ایچ آئی وی انفیکشن ہے اِن کے انفیکشن کو مکمل ایڈز تک پہنچنے نہ دیا جائے اور علاج سے بیماری کو یہاں روک دیا جائے اور جو مکمل ایڈز کی حد تک پہنچ گئے ہیں اُن مریضوں کی تکلیف کو موثر ادویات کے ذریعے کم سے کم کیا جائے اور زندگی کے باعمل دورانیے کو موثر ادویات سے زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے، اور ساتھ ہی ایچ آئی وی/ ایڈز کے بارے میں احتیاط کے اعتبار سے شعور و آگہی کی مہم سے ایچ آئی وی/ایڈز کے نئے مریض بننے سے روک دیا جائے، سن دوہزار سے عالمی ادارہِ صحت نے جو پروگرام شروع کئے اُن کی وجہ سے بیماریوں سے سالانہ اموات میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔

یہاں اقوام متحدہ کی ایجنسی ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہِ صحت کا قدرے تفصیلی ذکر اس لیے کیا ، کہ 1945 ء میں جب جنگِ عظیم دوئم ختم ہوئی تو اِس کے خاتمے تک پوری دنیا میں زیادہ تر سائنسدان انسانی ہلاکت کے لیے زیادہ سے زیادہ مہلک اور تباہ کن ہتھیاروں کی ایجادکے لیے دن رات کام کر رہے تھے اورآخر کار اس جنگ کے اختتام تک اِن سائنسدانوں نے  ایٹم بم جیسا تباہ کن اور مہلک ہتھیار ایجاد کر لیا اور اگست 1945میں اس کا استعمال کر کے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، میرے خیال میں ا قوام متحدہ کی کامیابیوں میں سب سے اہم کامیابی اس کی ایجنسی عالمی ادارہ ِصحت کا قیام اور اس کی موثر ترین کا میابی ہے اور میڈیکل سائنس و دیگر تمام سائنسسز میں وہ شعبہ ہے جو صرف انسان اور انسانیت کی بقا کے لیے کام کرتا ہے۔

یوں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے میڈیکل سائنس کے شعبے میں کام کر نے والے ماہرین اور سائنسدانوں کو اطمینان سے کام کرنے کا موقع ملا اور سائنس کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنس کے شعبے پر بھی بھر پور توجہ دی گئی۔ یوں میڈیکل سائنس کے شعبے نے دنیا میں تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔

1945 میں جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو دنیا میں انسانی اوسط عمر 45 سال تھی،آج چین جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں انسانی اوسط عمر 84 سال اور پاکستان میں تقریباً 65 سال ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ صحت کے شعبے میں اس کے ساتھ نیوٹریشن، خوراک اور غربت میں کمی جیسے منسلک شعبوں پر بھی اپنی الگ الگ ایجنسیوں کے تحت کام کر رہا ہے، تو اس کی یہ کوشش بھی ہے کہ یو این او پاپولیشن فنڈز کے تحت دنیا کی آبادی کی بہبود کےلیے یہ ضروری سمجھا ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں کی آبادیاں اُن کے وسائل کے مطابق بہتر معیار زندگی کے ساتھ خوشحال ہوں اس لیے آبادی پر کنٹرول کیا جائے، جہاں تک تعلق ترقی یافتہ ممالک کا ہے تو اُن ملکوں کی آبادیاں آج بھی تقریباً 1945ء کی سطح پر ہیں جبکہ ہمارے جیسے ملکوں کی آبادیوں میں گذشتہ 75 برسوں میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

یوں یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحد ہ کی ایجنسی عالمی ادارہ ِصحت کی جانب سے دنیا بھر میں کی گئی کوششوں کی وجہ سے جہاں اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے وہاں ترقی پذیر ملکوں میں دوسری جانب تعلیم وشعورکی کمی کی وجہ سے آبادیوں میں تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ اضافے سے اقتصادی، سماجی اور خصوصاً صحت کے مسائل بھی بہت بڑھ گئے ہیں، یہاں سائنس کے شعبوں میں بعض ملکوں یا قوتوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے پابندی کے باوجود کیمیکلز اور جراثیمی ہتھیار میڈیکل سائنس سے منسلک بنیادوں پر بنائے ہیں جہاں تک کیمیکلز ہتھیاروں کا تعلق ہے تو یہ ہتھیار ماضی قریب یعنی اسی کی دہائی میں عراق نے ایران کے خلا ف استعمال بھی کئے، پھر جو جراثیمی ہتھیار ہیں اُن کا استعمال تو اعلانیہ طور پر نہیں ہوا مگر یہ جراثیمی بموں کے طور پر بھی موجود ہیں اور خفیہ طور پر بعض ملکوں نے بعض بیماریوں کے جرا ثیم دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال کئے ہیں۔

ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ دشمن ملک نے ڈینگی مچھروں کے لاروے کروڑوں اربوں کی تعداد میں چند سال پہلے لاہور شہر کی نہر کے کناروں پر افزائش کے موسم کے لحا ظ سے پلانٹ کئے تھے اور اب عرصہ ہو گیا مگر ڈینگی ملیریا پر قابو نہیں پا یا جا سکا۔ اسی طرح ٹڈی دل جس پر بہت موثر طور پر اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچر اور دیگر منسلک ایجنسیوں نے 1965 سے قابو پالیاتھا اس بار یعنی دسمبر 2019 ء اور جنوری 2020 ء کے موسم سرما میں جو اِن کی افزائش کا موسم نہیںہے اس دوران یہ ٹڈ ی دل پاکستا ن اور پاکستان کے مغربی اور شمالی ہمسایہ ملکوں میں ایک بڑی قدرتی آفت کی صورت میں رونما ہوئی۔

ٹڈی دل کے یہ ٹڈے حیرت انگیز طور پر11 جنوری2020 ء سے18 جنوری تک کی شدید برفباری میں کوئٹہ سمیت شمالی بلوچستان میں منفی 14 سینٹی گریڈ کی سردی میں بھی زندہ تھے اور اس ٹڈ ی دل کے بارے میں بھی یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ یہ ٹڈی دل بظاہر ایک قدرتی آفت کے سعودی عرب سے لیکر پاکستان تک بہت سے ملکوں میں نئی طرز کی جنگ میں ایک حربے یا ہتھیار کے طور پر خفیہ انداز میں استعمال کی گئی ہے مگر اِن تمام باتوں کے باوجود اقوام متحدہ کے تحت میڈیکل سائنسسز کے حوالے سے جو خدمات خصو صاً ریسرچ اور بیماریوں کی روک تھام کے لیے عالمی ادارہِ صحت نے انجام دی ہیں وہ مثالی بھی ہیں اور تاریخی بھی پھر اس ایجنسی نے پوری دنیا میں انسانی صحت کے شعبے میں بلا امتیاز اور بغیر سیاسی مفادات کے کام کیا ہے۔

اقوا م متحدہ کی دیگر ایجنسیاں بھی پوری دنیا میں مربوط انداز میں کام کرہی ہیں ،دنیا میں جہاں کہیں کوئی قدرتی آفت یعنی زلزلہ، طوفان ، سونامی، سیلاب، خشک سالی ،قحط وغیرہ آئے اقوام متحدہ کی جانب سے فوری امداد آتی ہے اور اگر تباہی زیادہ ہو تو اقوام متحدہ دنیا میں تمام رکن ملکوں سے اپیل کر تی اور رکن ممالک اس اپیل پر فوراً متاثرہ ملک کی مددکرتے ہیں۔

اقوام متحدہ سرد جنگ کے زمانے میں اِس اعتبار سے قدرے مشکل کا شکار رہا کہ بعض اوقات اقوام متحدہ کے دائرہ عمل میں آنے والے بہبود انسانیت کے کاموں میں بھی سرد جنگ کی سیاسی دشمنیاں اور دباؤ آجاتے تھے، لیکن 1990 ء کے بعد اس اعتبار سے معاملات میں بہتری آئی اور پھر نئے ہزاریے یعنی سن دوہزار ایک سے تو پہلے ملیمیم ڈیویلپمنٹ گولز، پھر 2011 سے 2019 تک سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز اور اب 2020 ء سے ڈیکیٹ یعنی دہائی کے اعتبار سے یہی پر وگرام آئندہ دس برسوں کے لیے ہے جس میں زچہ وبچہ سمیت صحت کے دیگر شعبے، بنیادی تعلیم، پرائمری تعلیم ناخواندگی کا خاتمہ، ماحولیات کے تمام مسائل پر قابو پانا، بہبود آبادی، صنفی عدم مساوات کا خاتمہ اور جمہوریت کے فروغ کے ساتھ سماج کو انصاف کی فراہمی، غربت میں کمی کرنا اور ایسے دیگر ا ہداف ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کو دئیے گئے ہیں اور اِن کوحاصل کرنے کے لیے منا سب تکنیکی اور مالی امداد دی جاتی ہے۔

پھر اقوام متحدہ کی جانب سے پوری دنیا میں اقتصادی مربوط نظام کو مضبوط اور برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف جیسی ایجنسی یا ادارہ بھی ہے، یہ ادارہ دراصل منصوبے کے طور پر کاغذی صورت میں 1942 ء ہی میں سامنے آنے لگا تھا جب جنگ میں جرمنی کی فوجوں کی تیز رفتار فتوحات امریکہ کی جنگ میں شمولیت سے روک دی گئی تھیں اور بعد میں جرمنی کی پسپائی شروع ہو گئی تھی تو برطانیہ، روس، فرانس، امریکہ سمیت بہت سے ملکوں نے یہ اعتراف کیا کہ جنگ ِ عظیم اوّل سے قبل ممکنہ معاشی اقتصادی بحران کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اس لیے1930 میں ورلڈگریٹیسٹ فنانشل ڈیپریشن ، یعنی عظیم عالمی کساد بازاری رونما ہوئی تھی جس سے پوری دنیا کی معیشت برباد ہو گئی تھی جس کو دوبارہ مستحکم کر نے میں کئی سال لگے تھے، یوں یہ عالمی سطح پر انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز کے نام سے اقوام متحدہ کے اہم بنیادی ممبران کی مرضی سے ایک ایسا ادارہ تشکیل پایا۔

اِن ملکوں نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام اور اقوام متحدہ کی تشکیل سے قبل ہی آئی ایم ایف کے ادارے اس کے قواعد اور دائرہ کار کے تعین کے بارے میں بنیادی خطوط طے کر لئے تھے، یوں اس ادارے میں نہ صرف رکن ممالک کی جانب سے رکنیت کے ساتھ ما لی شراکت ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کے قواعد وضوابط پر عمل کرنا اور کروانا شامل بھی ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سے عالمی معیشت میں برطانوی پونڈ کی جگہ بااعتماد کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر نے لے لی اوردوسری جنگ ِ عظیم کے بعد ڈالر کی عالمی حیثیت مزید مستحکم ہوئی، یوں امریکہ نے آئی ایم ایف اور ساتھ ہی ورلڈ بنک کے تعاون اور اپنی امداد سے جنگ کے فوراً مغربی یورپ میںتعمیر نو کے عمل کو اور جاپان میں ماسٹر پلان کو تیزی کے ساتھ مختصر مدت میں مکمل کیا اور یوں اِن ملکوں کو دنیا کے کسی ممکنہ معاشی اقتصادی بحران سے بچا لیا۔آئی ایم ایف اب بھی دنیا بھر کے رکن ملکوں کی معیشت کو بااعتماد انداز میں سہارا دیکر مستحکم کر نے کا بنیادی فریضہ انجام دیتا ہے۔

یہ ادارہ کسی ملک کے معاشی بحران میں اُس ملک کی درخواست پر اپنے ماہرین بھیج کر اُس ملک کی معیشت کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اُس کے ماہرین یہ بتاتے ہیںکہ یہاں معیشت کو بہتر اور مستحکم کرنے کے لیے کچھ شرائط پر اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ شرائط اس لیے عائد کی جاتی ہیں کہ آئی ایم ایف دنیا بھر کے کمرشل بنکوں اور مالیاتی اداروں کے مقابلے میں بہت کم شرح سود پر ایسی صورتحال میں درمیانی اور طویل مدت ادائیگی کی بنیادوں پر قرضے فراہم کرتا ہے اور اس لیے شرائط عائد کرتا ہے کہ یہ قرضے اداکئے جائیں۔

اِن شرائط میں متاثرہ ملک کی کرنسی کو عالمی منڈی میں بااعتماد بنانے کے لیے اُس کی اُس وقت کے مطابق حقیقی قدر پر لانا ، ممالک میں ٹیکسوں کی حجم میں اتنا اضافہ کرنا کہ آمدنی اور اخراجات میں ایسا پائیدار توازن قائم ہو جائے کہ قرضوںکی ادائیگی کے ساتھ معیشت بھی ترقی کرے۔

یوں آئی ایم ایف جب معاشی طور پر متاثرہ ملک کو مالیاتی اقتصادی منصوبہ بندی کے ساتھ خود قرضے دیتا ہے تو پھر اقوام متحدہ کی دوسری ایجنسی کی حیثیت سے ورلڈ بنک اس کا گروپ بھی قرضے فراہم کرتا ہے اور اگر قوعد و ضوابط کے مطابق حقیقی معنوں میں ایسا ہو تو متاثرہ ملک مالیاتی اقتصادی بحران سے نکل جاتا ہے، لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میںہمیشہ سے آئی ایم ایف پر عوامی سطح پر تنقیدکی جاتی ہے اور اس کی کچھ وجوہات حقیقی بھی ہیں کہ امریکہ سمیت چند بڑی قوتیںپوری دنیا میں اقتصادیات اور معاشیات کو مالیاتی طور پرکنٹرول کرتی ہیں اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی نوآبادیات میں بڑی حصہ دارقوتوں نے سیاسی، عسکری،دفاعی طور پر ایک نئی طرزکے اقتصادی نو آبادیاتی نظام سے پرانے سیاسی نوآبادیاتی نظام کو بدلا تھا اور یہ بالکل اسی طرح تھا کہ جیسے 1860 میں امریکہ کی 13 شمالی ریاستوں نے غلام داری کا نظام اس لیے ختم کر دیا تھا کہ یہ نظام صنعت و تجارت کے نئے نظام کے لیے مالی اعتبار سے فائدہ مند نہیں تھا۔

اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ طے تھا کہ اب برصغیر سمیت دنیا کے تما م ایسے ملک جو سیاسی طور پر مغربی قوتوں کے غلام تھے اِن کے ہاں چھوٹے ہتھیار یعنی بندوقیں، پستول، دستی بم اور ڈائینامیٹ کے ازخود بنانے کی تکنیک بھی ہاتھ آگئی تھی اور پھر1917ء میں سوویت یونین میں رونما ہونے والے اشتراکی انقلاب کے بعد اشتراکی نظریا ت کی حامل مسلح تحریکیں کئی ایک ملکوں میں شروع ہو گئیں تھیں جن کو ماضی کے سیاسی نوآبادیاتی نظام کے تحت روکنا اب ممکن نہیں تھا۔

اس لیے ایک جانب تو جب غلام ملکوں کو آزادی دی گئی تو اِن کے ہمسایہ ملکوں سے سر حدی تنازعات پیدا کر کے چھوردئیے گئے اور دوسری طرف اِن نو آزاد ملکوں کو آزادی سے پہلے یا فوراً بعد اپنے  بیرونی قرضوں میں جکڑ دیا گیا اور اِن نو آزاد ملکوں میں ان قرضوں یا مالیاتی امداد سے ایسا ترقیاتی عمل شروع نہیں ہوا جیسا کہ 1945 میں جنگِ عظیم دوئم کے فوراً بعد یورپ اور جاپان میں شروع ہوا تھا،اس نئے اقتصادی نظام میں پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں دنیا کی پانچ بڑی قوتوں کو ویٹو پاور دیا گیا تاکہ اِن کے درمیان کسی تنازعہ کی صورت میں اِن میں سے کسی ایک ویٹو قوت کے حامل ملک کو اگر اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو اپنے سیاسی اقتصادی مفادات کے خلاف سمجھے تو ایسے کسی بھی فیصلے یا قرار داد کو ویٹو کر دے۔

یوں پاکستان اور بھارت سمیت ایسے وہ تمام ممالک جو کسی مسلح انقلابی تحریک کے نتیجے میں آزاد نہیں ہوئے، وہاں آزادی کے رہنما لیڈروں کی پہلی کھیپ رخصت ہو جانے کے بعد محب ِوطن اور باکردار وسیع النظر دوراندیش لیڈر شپ یا تو رہی نہیں اور اگر جدوجہد سے تھوڑے عرصے کے لیے پیدا ہوئی تو اُسے ان عالمی قوتوں نے سازشوں کے ذریعے اُن ملکوں میں ایسی قیادتوں کو ہی راستے سے ہٹا دیا، اِن ملکوں میں کرپشن اور ایسے غیر حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کئے جو فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بنے اور یوں اِن ملکوںپر قرضوں کا بوجھ بڑھا، اس لیے عموماً اِن ملکوں میں آئی ایم ایف کے قرضوں اور ریلیف کی وجہ سے یہ تو ہوتا ہے کہ معیشت کو یہ سرٹیفکیٹ تو آئی ایم ایف کی طرف سے مل جاتا ہے کہ یہ ملک قرضوں کی واپسی کر سکے گا مگر ایسی معاشی اقتصادی خو شحالی نہیں آتی کہ ملک پر سے قرضے ختم ہو جائیں۔

ملک معاشی اقتصادی طور پر مکمل طور پر خود انحصار اور خودمختا ر ہو جا ئے، اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایسی صورتحال پید اکرنے میں ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی اپنی سیاسی قیادت کی اکثریت کرپٹ رہی ہے، لیکن اِن تمام باتوں کے باوجودیہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف جیسی ایجنسی نے نہ صرف دوسری جنگ ِعظیم کے بعد دنیا کی معیشت کو مستحکم کیا اور ترقی دی، بلکہ جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور خصوصاً سابق سوویت یونین کے بکھر نے پر اِس کی 15 ریاستوں کے آزاد ملکوں کی حیثیت سے سامنے آنے پر مشرقی یورپ کے اور خصوصاً وارسا پیکٹ کے کیمونسٹ ملکوں میں خانہ جنگیوں کے بعد اشتراکی نظام کے خاتمے اورآزاد معیشت کو اپنانے کے عمل میں جو 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے پر ایک عالمی اقتصادی تبدیلی کے طور پر سامنے آیا تھا اُس صورتحال کو بھی آئی ایم ایف نے پوری دنیا میں کنٹرول کیا اور بہتر انداز میں مالیاتی اقتصادی تبدیلی کے عمل کی نگرانی کی۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ہے جو دنیا بھر میں مزدورں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے، اور اس اعتبار سے اس کے بنیادی قواعدو ضوابط پر عملدر آمد کروانا اقوام ِ متحدہ کے ہر رکن ملک کی بنیادی ذمہ داری ہے، یوں اقوم متحدہ اور اس کے اداروںاور ایجنسیوں کے ذریعے پوری دنیا میں زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں ایک مربوط نظام قائم ہے جن میں بہت سے شعبوں میں تو بہت بہتر اور معیاری انداز میں واقعی بنیاد ی اور انسانی حقوق کے اعتبار سے دنیا کے ساڑھے سات ارب سے زیادہ انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفط بھی کیا جاتا ہے اور اِن کی بہبود کی بھی کو ششیں کی جاتی ہیں اور جہاں کہیں کسی ملک میں ان پر عملدر آمد نہیں ہوتا، اُن کے خلاف اقوام متحدہ کاروائیاں بھی کرتی ہے اور بعض پابندیاں بھی عائد کرتی رہتی ہے، اقوام متحدہ کا ایک منسلک اور اہم ادارہ انٹر نیشنل کو رٹ آف جسٹس بھی ہے جو رکن ملکوں کے  تنازعات کے مقدمات سنتا ہے اور فیصلے کرتا ہے ۔

( جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔