سندھ میں اتحاد؛ وقت کی ضرورت

زاہدہ حنا  اتوار 23 فروری 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

سندھ آج سے نہیں صدیوں سے بے آرام ہے۔ راجا داہرکا دورحکومت تھا جب حجاج بن یوسف کی فوجوں نے سندھ پر حملہ کیا۔ اس کے بعد جوکچھ اس خطے پرگزری، وہ تاریخ کے صفحوں پر درج ہے۔ تاریخ کئی زاویوں سے دیکھی اور لکھی جاتی ہے۔ مفتوحہ سندھ کی ایک داستان وہ ہے جو فاتحوں نے لکھوائی اور دوسری وہ جو مفتوحین کے اجتماعی حافظے کا حصہ بن گئی۔

سندھ اس وقت سے آج تک مضطرب ہے۔ 1930کی دہائی میں جب مسلم لیگ کی سیاست نے ہندوستان پر اپنے پر پھیلائے تو یہ سائیں جی ایم سید، سر عبداللہ ہارون اور سندھ کے دوسرے سیاستدانوں نے بھی انگریزکے چنگل سے آزادی اور ایک جمہوری فضا میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھے، خواب عموماً تشنۂ تعبیر رہتے ہیں۔ سندھ کے لیے دیکھے جانے والے خوابوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سائیں سید ابتدا میں ہی مسلم لیگ سے الگ ہوگئے جس کے بعد انھوں نے اور سندھ کے دوسرے قوم پرست رہنماؤں نے قید و بند کی صعوبتیں سہیں۔

سندھ کے مسائل بہت پیچیدہ اور توجہ طلب ہیں۔ ان معاملات نے آزادی کے بعد سے اس صوبے کے دانشوروں ، ادیبوں، صحافیوں، استادوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور مختلف پیشہ ور تنظیموں کو مضطرب رکھا ہے۔ آج روزنامہ ’’ہلچل ‘‘ کے مدیر یونس مہر اور انٹیلکچوئل فورم کے صدر مسعود نورانی کی دعوت پر ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور سندھ کے تمام طبقات کے درمیان اتحاد کی بات کر رہے ہیں۔

آج سے 28 سال پہلے بھی سندھ کے سندھی اور اردو بولنے والے دانشوروں ، ادیبوں اور پیشہ ور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہ طے کیا تھاکہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں مختلف نوعیت کے شکوک و شبہات رکھنے، الزامات و جوابی الزامات لگانے اور صوبے کی صورتحال کو خراب سے خراب تر کرنے والے عناصرکی زہر افشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں مل کر بیٹھیں گے اورکوشش کریں گے کہ آپس کی شکایتوں اور دلوں کی کدورتوں کو دور کرنے کے لیے کوئی نقطہ آغاز تلاش کریں تاکہ سندھ میں آباد سندھیوںکا ایک دوسرے پر باہم اعتماد و اعتبار بحال ہوسکے۔

اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کراچی اور حیدرآباد کے متعدد افراد نے مسلسل کوششیںکیں جس کے نتیجے میں ستمبر 1992میں یہ ممکن ہوسکا کہ دونوں طرف کے متعدد دانشور ایک میز پر بیٹھے، مکالمے کا آغازکراچی اور پھر حیدرآباد میں ہوا۔ اس کے بعد اس کمیٹی کے تقریباً تمام جلسے ہر پندھرواڑے کراچی میں ہوئے جس میں شرکت کے لیے حیدرآباد سے ممتاز دانشوروں کے وفد کراچی آتے رہے۔ یوں تو اس کمیٹی میں شامل ہر فرد کا نام نہایت اہمیت کا حامل تھا لیکن اس میں سب سے اہم کردار جناب ابراہیم جویو، جناب ایم بی نقوی، ڈاکٹر رحمان ہاشمی، ابرار قاضی اور بصیر نوید نے ادا کیا تھا۔

اس کمیٹی کے بیشتر جلسوں میں ایک رکن کی حیثیت سے میں نے بھی شرکت کی تھی اسی لیے ابتدائی دنوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بد اعتمادی ، تلخی اور ترشروئی کی فضا مجھے اچھی طرح یاد ہے اور پھر میں نے ان جلسوں میں آہستہ آہستہ دلوں کے غبارکوکم ہوتے، ایک دوسرے کی جائز شکایات کوخندہ پیشانی سے سنتے اور ایک دوسرے کے لیے فراخ دلی اور وسعت قلبی کے جذبات کو ابھرتے ہوئے دیکھا تھا۔

معاشی بد حالی، بیروزگاری، صوبے کے وسائل اور ذرایع کی نامنصفانہ تقسیم ، انصاف کے بروقت نہ ملنے اور مختلف حکمرانوں کے اپنے دور اقتدارکو طول دینے کے لیے ’’ لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے فلسفے نے اس صوبے میں آباد لسانی گروہوں کے درمیان خطرناک دوری اور نفرتیں پیدا کر دیں، شکوک اور شبہات کا ایک ایسا طوفان اٹھایا گیا کہ اس طوفان کو تھمتے ہوئے اور نفرتوں کے چڑھے ہوئے دریا کو اترتے ہوئے یقینا کچھ وقت لگے گا۔

اس مدت میں کمی بس اسی طرح ممکن ہے کہ غیر جانبدار، روادار اور کسی مخصوص نوعیت کے سیاسی اغراض ومقاصد نہ رکھنے والے افراد مل کر ایسی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو صوبے کے تمام لوگوں کو یہ یقین دلا سکے کہ ان کی حق تلفی نہیں ہوگی اور صوبے میں آباد تمام لوگوں کے ساتھ معاشی، سماجی اور سیاسی انصاف ہوگا۔ اس پس منظر میں 28 سال قبل چھ ماہ کی سوچ بچار اور بحث مباحثے کے بعد ’’سندھ امن و آشتی کمیٹی‘‘ نے ایک مشترکہ اعلان نامہ تیار کیا تھا اُس پر نہ صرف اردو اور سندھی کے 100 سے زیادہ نامور دانشوروں ، ادیبوں، صحافیوں ، وکیلوں، ڈاکٹروں، استادوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ اس پر سندھ کی متعدد پیشہ ور تنظیموں کے نمایندوں نے بھی دستخط کیے تھے اور اسے سندھ میں آباد گروہوں کے درمیان اعتماد اور اعتبار کی بحالی کا پہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس اعلان نامے کی صوبائی خود مختاری سے متعلق چند اہم تجاویز اختصار کے ساتھ درج ذیل تھیں:

-1 مرکز کو صوبائی حکومتیں تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہے۔ اگر ایساکرنا ناگزیر ہوتو یہ سینیٹ کی دو تہائی اکثریت کی منظور شدہ قراردادوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔

-2 صوبائی معاملات میں خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی معاملات کی دیکھ بھال کرنے والی تمام مرکزی وزارتیں ختم کردی جائیں۔ مختلف صوبوں، صوبے اور مرکزی حکام کے درمیان رابطے کے لیے رابطے کی صرف ایک وزارت ہونی چاہیے۔

-3 صوبائی انتظامیہ ہر سطح پر صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے ذریعے چلائی جائے اور مرکز سے صوبائی انتظامیہ میں بھرتی کا طریقہ کار ختم کیا جائے۔

-4 ہائیکورٹ، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور گورنر کا تقرر سینیٹ کی منظوری سے کیا جائے ۔ اس اعلان نامے میں دیگر بہت سی باتیں تھیں۔ اس پر دونوں طرف کے مقتدرین اور اکابرین کے دستخط اس بات کاثبوت ہیں کہ آج سے 28 سال پہلے بھی دونوں طرف اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ ایک ہی زمین پر رہ کر، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے بغیر، ایک دوسرے کی شکایات دور کیے بغیر نہ یہ سرزمین امن کا گہوارہ بن سکتی ہے، نہ یہاں رہنے والے سکون کا سانس لے سکتے ہیں اور نہ یہاں معاشی اور سماجی انصاف کا چلن ہوسکتا ہے۔

دونوں طرف کے دانشوروں نے آخرکار زخموں سے نڈھال اور بے حال اس صوبے کے زخموں کا اندمال کا عمل قلم کی نوک سے شروع کیا تھا وہ بعد ازاں رک گیا اور سندھ میں بدترین خون ریزی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آج برسوں بعد صورتحال ماضی سے کسی حد تک بہتر ہے، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا زور ٹوٹ چکا ہے، 18 ویں آئینی ترمیم آچکی ہے اور سندھ کے لوگوں نے اپنے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔

تاہم ملک کو جس طرح ایک سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر چلانے پر اصرار کیا جارہا ہے اس کے باعث ملک کے اندر معاشی، سیاسی اور سماجی بحران تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے اس لیے خدشہ ہے کہ کہیں کسی بحرا ن کی صورت میں سندھ ایک بار پھر کسی سنگین عدم استحکام کا شکار نہ ہو جائے۔

یوں لگتا ہے کہ ہم سب کو 28 سال پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، اسے ایک عارضی نہیں بلکہ ایک مستقل ، پائیدار اور نتیجہ خیز عمل ہونا چاہیے کیونکہ بدترین معاشی بحران سے پیدا ہونے والا عدم استحکام ماضی سے کہیں زیادہ ہولناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن زخموں کے رفو کا یہ کام بہت محنت، محبت، توجہ اور تحمل کا طالب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار دوبارہ مل کر بیٹھیں اور سندھ کی ترقی، استحکام اور یکجہتی کے لیے ایک منشور اور اعلان نامہ تیار کریں جس کی بنیاد پر سندھ میں مستقل آباد سندھیوں کو اپنی دھرتی کی ترقی اور خوشحالی کے لیے متحد کیا جائے اور یہ امر یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں کوئی قوت سندھ اور عوام کو تقسیم کرنے کا تصور بھی نہ کرسکے۔ آج جناب (ر) جسٹس وجیہہ الدین کی صدارت میں قیصر بنگالی، پروفیسر اعجاز قریشی، ڈاکٹر ایوب شیخ، راحت سعید، امان اللہ شیخ، یونس مہر اور مسعود نورانی اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ دانشور سندھیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے، مجھے یقین ہے کہ سندھ کے مفادات سے محبت اور اس کی حفاظت کرنے والے تمام افراد مل کر سندھ میں ساز گار فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

( دی انٹیلیکچوئل فورم کے سیمینارمیں پڑھا گیا۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔