نادرسیاہ گینڈا: معدومیت سے دوچار

مرزا ظفر بیگ  اتوار 1 دسمبر 2013
گینڈے کو الٹا لے کر جانا بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے منتظمین کی مجبوری تھی۔۔ فوٹو : فائل

گینڈے کو الٹا لے کر جانا بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے منتظمین کی مجبوری تھی۔۔ فوٹو : فائل

ایک سیاہ اور بھاری بھرکم نادر گینڈے کو الٹا کرکے اس کے ٹخنوں سے مضبوط رسیاں باندھی گئیں۔

اس کے بعد اسے سیکڑوں فیٹ فضا میں ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے بلند کیا گیا اور اسی لٹکی ہوئی حالت میں محفوظ مقام پر پہنچادیا گیا۔ یہ پڑھ کر شاید آپ کو ایسا لگے جیسے یہ کسی طلسماتی کہانی کا منظر ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ آپ نے اوپر پڑھا، وہ بالکل سچ ہے۔ یہ منظر جنوبی افریقا کے ایک خطے KwaZulu-Natal کا ہے اور وہاں بلیک رہینو رینج ایکسپینشن نامی پراجیکٹ بڑی مستعدی کے ساتھ سیاہ گینڈے کی نسل کو بچانے اور کرۂ ارض پر اس کا وجود برقرار رکھنے کے لیے کام کررہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سیاہ نادر گینڈے کی نسل دنیا سے تیزی سے مٹ رہی ہے۔ ویسے بھی اس کا شوقیہ شکار کرنے والے اور اس کے سینگ کی خاطر اس کی جان لینے والے پوچرز نے اس جانور کو معدومیت تک پہنچادیا ہے اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اس کی نسل کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ مگر آج بھی دنیا میں گینڈے سے محبت کرنے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے لوگ اور ادارے موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ یہ حسین، خوب صورت اور نادر جانور صفحۂ ہستی سے نہ مٹے جسے کسی زمانے میں زمین کا زیور کہا جاتا تھا اور یہ کرۂ ارض پر بڑی شان اور فخر کے ساتھ مٹرگشت کیا کرتا تھا۔ یہ کام بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کررہا ہے اور اس نے دنیا میں موجود سیاہ گینڈے کو بچانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ نادر سیاہ گینڈے کو اس طرح ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضا میں لٹکا کر لے جانے پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہو مگر گینڈے کو اس طرح لے جانا بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے منتظمین کی مجبوری تھی۔ انہوں نے زمینی راستے سے اسے لے جانا مناسب نہ سمجھا، انہیں اندیشہ تھا کہ اس طرح لے جانے سے سیاہ گینڈے کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے کیوں کہ سیاہ گینڈے کو لے جانے سے پہلے بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا تھا اور اس کا اثر جلد ختم ہوسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گینڈا اپنی منتقلی کے عمل کے دوران راستے میںکہیں بھی ہوش میں آسکتا تھا، جس سے متعدد مسائل کھڑے ہوسکتے تھے۔ دوسری جانب ہیلی کاپٹر سیاہ نادر گینڈے کو تیزی سے مطلوبہ مقام تک منتقل کرسکتا تھا۔ اس لیے اس ذریعے کو زیادہ بہتر اور محفوظ سمجھا گیا۔

نادر سیاہ گینڈے کی نسل تو ویسے بھی ختم ہونے جارہی ہے، مگر ماہرین اسے بچانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بھی بیان کیا کہ اس ضمن میں بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ دل و جان سے اس کے تحفظ کے لیے کام کررہا ہے۔ بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ جنوبی افریقا کا ایک ایسا ادارہ ہے، جو اس ملک میں قدرتی وسائل کے ساتھ جانوروں بالخصوص ایسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کررہا ہے، جن کے دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ منڈلارہا ہے اور اس وقت ان کا سب سے بڑی توجہ سیاہ گینڈے پر ہے جو کسی بھی وقت دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹنے کو ہے۔

یہ ادارہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے طور پر ہنگامی اقدامات کررہا ہے۔ اس نے اب تک 139نادر سیاہ گینڈے اسی انداز سے محفوظ مقامات تک منتقل کیے ہیں اور یہ 140واں سیاہ گینڈا تھا، جسے پوچرز اور دشمنوں سے بچاکر محفوظ کرلیا گیا۔ یہ مہم اس وقت شروع ہوئی جب مغربی سیاہ گینڈے کو معدوم قرار دے دیا گیا۔ واضح رہے کہ مغربی سیاہ گینڈا، عام سیاہ گینڈے کی ایک ذیلی نسل ہے۔ اس مغربی سیاہ گینڈے کو آخری بار 2006میں دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کو معدوم قرار دینے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ منتقلی کا یہ عمل مشرقی جنوبی افریقا کے KwaZulu-Natal ریجن میں ہوا۔

اس حوالے سے پراجیکٹ لیڈر ڈاکٹر جیکوئس فلیمنڈ نے کہا:’’اس سے پہلے ہم نے نہایت مشکل اور ناہموار راستوں پر لاری کے ذریعے گینڈوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا تھا۔ کئی بار ہم نے نیٹ یا جال کے ذریعے انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے منتقل کیا۔ لیکن بعد میں ہم نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ سب سے بہتر اور محفوظ ثابت ہوا۔ میں جانوروں کا ماہر ہوں اور مجھے اختیار ہے کہ جو طریقہ زیادہ بہتر سمجھوں، وہی اختیار کروں۔

اس طریقے میں ایک تو گینڈے کی منتقلی کا عمل زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ انجام پاسکتا تھا اور دوسرے یہ اس جانور کے لیے بے ضرر بھی تھا۔ اور ان تمام آپریشنز کے دوران ہم ہمیشہ اس کی سلامتی اور تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہم نے ان تمام گینڈوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا، انہوں نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ آزاد ہونے کے فوراً بعد اطمینان سے کھانا شروع کردیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان گینڈوں کو اس طریقے نے نہ پریشان کیا اور نہ وہ مشتعل ہوئے۔‘‘

ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھاری جانوروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا یہ سلسلہ نمیبیا میں شروع ہوا تھا۔ اس طریقے میں عام طور سے گینڈوں کی منتقلی میں دس منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے اور ناقابل رسائی مقامات سے ان کی محفوظ مقامات تک منتقلی نہایت آسانی سے ہوجاتی ہے۔

بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے تحت ایک کام اور بھی سرگرمی سے کیا جارہا ہے۔ وہ یہ کہ اس پراجیکٹ کے ورکر سیاہ گینڈے کو تحفظ دینے کے لیے اس کے سینگ کو ایک برقی آری سے کاٹ دیتے ہیں۔
اس کے بعد بغیر سینگ کے گینڈے میں پوچرز یعنی اس کا غیر قانونی شکار کرنے والوں کو کوئی دل چسپی نہیں رہتی، کیوں کہ انہیں صرف اس کے سینگ سے مطلب ہوتا ہے جسے وہ منہگے داموں فروخت کردیتے ہیں۔ یہ سینگ مردانہ طاقت کی مختلف دواؤں کی تیاری میں کام آتا ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں اس سینگ کے خریدار موجود ہیں، لیکن ویت نام، چین، تمام افریقی ملکوں کے علاوہ دیگر براعظموں کے ملکوں میں اس کی غیرقانونی تجارت عروج پر ہے۔ اس لیے بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ اس جانور کو مکمل تحفظ دینے اور خاص طور سے اس کا غیرقانونی شکار کرنے والوں (پوچرز) سے بچانے کے لیے اسے سینگ سے محروم کردیتا ہے۔
جنوبی افریقا کے KwaZulu-Natal نامی مقام پر واقع جنگل سیاہ گینڈے کا گھر ہیں جہاں مذکورہ پراجیکٹ کے عہدے داروں نے اس سیاہ گینڈے کے تحفظ کے لیے اس کے جسم میں ریڈیو ٹرانسمیٹر بھی نصب کردیے ہیں، تاکہ کسی خطرے کی صورت میں اس کی مدد کو پہنچا جاسکے اور اسے شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔

بلیک رہینو رینج ایکسپینشن نامی اس پراجیکٹ کو شروع ہوئے دس سال ہوچکے ہیں، جس کا مقصد گینڈے کی نسل کو تحفظ دے کر اسے زیادہ وسیع جگہ اور بڑے بڑے میدان فراہم کرنا ہے، جہاں اس کی افزائش نسل ممکن ہو۔ افزائش نسل کے لیے ایسے متعدد مقامات منتخب کیے گئے ہیں، جن میں سے سات مقاماتKwaZulu-Natal میں اور دو مزید شمال میں Limpopo کے مقام پر واقع ہیں۔

1960کے عشرے میں پورے افریقا میں ایک تخمینے کے مطابق 65,000 سیاہ گینڈے موجود تھے، مگر ان کے غیرقانونی شکار کی وجہ سے 1990کے عشرے میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 2000 تک رہ گئی۔ باقی تمام سیاہ گینڈے اپنے قیمتی سینگ کی خاطر وحشی انسانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ مذکورہ ادارے کے علاوہ جانوروں کے تحفظ کے دیگر اداروں کی کوششوں کے بعد اب یہ تعداد دگنی ہوکر لگ بھگ 4000تک جاپہنچی ہے، لیکن پوچنگ اب بھی ان کی سلامتی اور بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کی صورت میں ان کے سروں پر مسلسل موجود ہے۔

اب تک سیاہ نادر گینڈے کے 40کے لگ بھگ بچے ان مقامات پر پیدا ہوچکے ہیں، جو بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے زیراہتمام چل رہے ہیں۔ یہ لوگ بڑی تیزی اور مستعدی کے ساتھ سیاہ گینڈے کی پہرے داری کرتے ہیں اور اس پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک160,000 ہیکٹیئر محفوظ مقامات پر صرف تین سیاہ گینڈوں کا غیر قانونی شکار ہوسکا ہے۔

اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد سیاہ گینڈے کی نسل کو تحفظ دیتے ہوئے آنے والے وقت میں اس کی نسل کو بڑھانا ہے۔ اس قیمتی اور شان دار جانور کو غیرقانونی شکار اور مفاد پرست عناصر کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات اور آلات کی ضرورت ہوگی جن کی مدد سے پوچرز یعنی اس کا غیرقانونی شکار کرنے والوں سے نمٹا جاسکے۔ گینڈے کو تحفظ دینے والا یہ ادارہ ہیلی کاپٹر کا کرایہ گھنٹوں کے حساب سے ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جب جانوروں کے ڈاکٹر بیمار اور مشتعل گینڈے کو چیک کرنے اور اس کا علاج کرنے کے لیے جنگل میں اس کی مخصوص آبادی تک جاتے ہیں تو انہیں لانے اور لے جانے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر منگوانا پڑتا ہے اور اس کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گینڈوں کی فضائی نگرانی کے لیے بھی رقم خرچ کرنی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر Flamand نے مزید کہا:’’ہم تو اپنے جنگلوں اور میدانوں سے تو ان گینڈوں کو رخصت کرکے محفوظ مقامات تک بھیج دیتے ہیں، مگر پھر ان مقامات کے نگرانوں پر سارا دباؤ آجاتا ہے کہ وہ ان کی افزائش نسل کے لیے فوری اقدامات کریں تاکہ ساری دنیا یہ دیکھ سکے کہ اب نہ صرف سیاہ گینڈا محفوظ ہے بلکہ اس کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے جس کے باعث اس کو معدومیت کا کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا:’’گینڈے کو تحفظ فراہم کرنے کے دو طریقے ہیں: پہلا یہ ہے کہ گینڈوں کو محفوظ رکھا جائے جو موجودہ حالات میں ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس جانور کی زیادہ سے زیادہ افزائش نسل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کیے جائیں۔ اپنے اس پراجیکٹ کے ذریعے ہم دونوں طریقے اختیار کررہے ہیں اور کام یابی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔