کورونا وائرس نے بہت کچھ بے نقاب کیا

ایڈیٹوریل  پير 6 اپريل 2020

کورونا وائرس نے کب ختم ہونا ہے کسی کو پتہ نہیں، یہ جنگ اتنی جلد ختم نہیں ہوگی، اگلے روز ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے ریلیف فنڈز اور انصاف ٹائیگرز فورس کے حوالے سے منعقدہ تقر یب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کی باتوں سے یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیںکہ ہم ایک وائرس کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اورآنے والے دن ہمارے لیے مزیدکٹھن ثابت ہوںگے،جس میں نہ صرف ملک میں اموات کی شرح بڑھے گی بلکہ متاثرہ مریضوں کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ جائے گی اور ملکی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، یہ صورتحال انتہائی الارمنگ ہے۔

وزیراعظم عمران خان درست کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں پہلے ہی پانچ سے چھ کروڑ لوگ ایسے ہیں، جوغربت کی لکیر سے نیچے ہیں،آج ہمارا دیہاڑی دار، رکشہ ڈرائیور، چھابڑی والا سب گھروں میں بیٹھے ہیں، ہم نے ان کا خیال رکھنا ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم ایک دردمند دل رکھتے ہیں اور وہ اس مشکل گھڑی میں قوم کے ہر فرد کے لیے بہت زیادہ فکرمند نظرآرہے ہیں۔ ان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے،انھوں نے لوگوںکے روزگارکے لیے کنسٹرکشن اور دیہات میں زراعت کے شعبے کھولنے کا عندیہ دیا ہے، وہ عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی مشکلات مزید نہ بڑھیں۔

ادھرمعاشی بحران کے باوجود حکومت میں کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو وزیراعظم کی مخلصانہ کاوشوں کو سبوتاژکرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ایسے ہی بااثر لوگوں نے کورونا وائرس کی وباء سے پہلے ملک میں چینی اور گندم کا بحران پیدا کیا اور کروڑوں روپے کما لیے ۔اگلے روز ملک میں چینی اور گندم کے بحران پر تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی گئی۔ بحران پر تحقیقات ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی نے کی جس کے مطابق وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے پلاننگ اور پالیسی کی عدم موجودگی کے باعث ملک میں گندم کا بحران پیدا ہوا اور اس کی ذمے داری پنجاب کے وزیر خوراک ، خیبرپختوخوا کے وزیر خوراک ، سابق فوڈ سیکریٹری پر عائد ہوتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما نے اٹھایا اور انھوںنے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے جبکہ ایک وفاقی وزیر کے ایک رشتے دار نے آٹے چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے، اپوزیشن کے لوگ بھی کمائی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے چینی بحران کے ذمے داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہرکرتے ہوئے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارش پر انکوائری کمیشن قائم کردیا ہے۔ کمیشن اپنا کام 40 دنوں میں مکمل کرے گا۔ اب گیند حکومت اور وزیراعظم کے کورٹ میں ہے، وہ چینی اور گندم کے بحران کے اہم کرداروں کے خلا ف کیا ایکشن لیتے ہیں، قوم یقینا منتظر ہے۔

پنجاب حکومت نے صوبے میں جاری جزوی لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے کم عملے اورحفاظتی انتظامات کے ساتھ آٹھ بڑی صنعتوں کوکھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ ابتدائی طور پرجن صنعتوں کو لاک ڈاؤن سے استثنیٰ دیا گیا ہے،ان میں ٹیکسٹائل، اسپورٹس گڈز، فارما انڈسٹری، لیدر، سرجیکل اورطبی آلات بنانے والی صنعتیں، آٹو پارٹس ، فروٹس اینڈ ویجی ٹیبلزکی اشیا بنانے والی انڈسٹری اورمیٹ پراڈکٹس تیارکرنے والی صنعتیں شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ملک کے ممتاز صنعتکار اور برآمدکنندگان سے کہا ہے کہ وہ کابینہ اراکین اور دیگر سینئر ٹیم سے مشاورت کے بعد برآمدی صنعتوں کو ان کے آرڈرز کے پیش نظر سہولت دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کریں گے، صنعت کاروں نے بتایا کہ انھیں برآمدات کے آرڈر موصول ہوچکے ہیں اور اگر ان کا تیار شدہ سامان برآمد نہ کیا گیا تو یہ صرف ہمارے لیے نہیں ملکی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا، انھوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ جن فیکٹریوں میں مزدورکالونیاں ہیں انہیں پہلے مرحلے میں کام شروع کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر دیگر صنعتوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے، انھوں نے یقین دلایا کہ وہ مزدورکالونیوں میں مناسب معاشرتی دوری کو یقینی بنائیں گے۔ اس بات سے قطعا انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگیاں بسرکررہے ہیں اور لاک ڈاؤن نے ان کی مشکلات میں کہیںگنا اضافہ کردیا ہے۔

اس صورتحال کا تدارک بھی اس صورت ممکن ہے کہ صنعتوں کا پہیہ دوبارہ رواں کیاجائے لیکن اس بات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ احتیاط کا دامن چھوڑنے سے انسانی جانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ انتہائی سوچ وبچارکے بعدکیا جائے۔

گندم کی بین الصوبائی ترسیل کے معاملے پر سندھ اور پنجاب میں تنازعہ پیدا ہوگیا ہے ، تاجروں نے الزام عائدکیا ہے کہ بغیر پرمٹ والی گاڑیوں کو سندھ فوڈ کی جانب سے پنجاب کی سرحد کنارے بنائی گئی چارچیک پوسٹوں پر مبینہ طور پرگندم لے جانے دی جا رہی ہے۔ ایسی نازک ترین صورتحال کا ادراک تمام سرکاری محکموں کو ہونا چاہیے اور انھیں ایسے اقدامات سے پرہیزکرنا چاہیے جس سے اختلافات جنم لیں اور مسائل مزید بڑھیں۔ پیپلزپارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 41 ویں برسی کے موقع پر کورونا وائرس کی وجہ سے پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی کی جانب سے ان کی مزار گڑھی خدا بخش بھٹو میں کوئی بھی اجتماع منعقد نہیں کیا گیا اور ان کی برسی سادگی سے منائی گئی، پاکستان کی دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کو اس مستحسن عمل کی پیروی کرنی چاہیے۔

حکومت پاکستان نے افغانستان کی خصوصی درخواست اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو ان کی خواہش پر واپس جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں کو 6 اپریل سے 9 اپریل 2020 تک افغان شہریوں کی سہولت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ اس فیصلے کے تناظر میں ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت جو بھی قدم اٹھائے انتہائی سوچ سمجھ کر اٹھائے۔

اب جو رائے مرتب ہو رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ہم نے اس وبا سے لڑنا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہم نے غربت اور بھوک سے بھی لڑنا ہے، ہم ایک ترقی پذیرملک ہیں، امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اس نے اپنے عوام کوبڑا پیکیج دیا ہے،کینیڈا، اٹلی ، برطانیہ ، فرانس یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ ایک مکمل لاک ڈاؤن کرفیوبرداشت کر سکتے ہیں لیکن ہم جیسا ملک جہاں پچیس فیصد لوگ غریب ہوں وہاں آپ22کروڑ عوام کوگھر بٹھاکرکھانا نہیں کھلا سکتے۔ ایک جانب تو عوام تک امدادی رقوم اور راشن حکومتی اعلانات کے باوجود نہیں پہنچ رہا ہے تو دوسر ی جانب ایسے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں جن میں غیر مستحق افراد ایک سے زائد بار راشن لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

تاجر اوردکاندار اشیائے خورونوش کی قلت پیدا کرنے اور انھیں مہنگوں داموں فروخت کرنے میں مصروف ہیں اور اس مشکل کی گھڑی میں بھی انھیں منافع اور ذخیرہ اندوزی سے فرصت نہیں۔ایسے ضمیر اور ایمان فروش افراد کے خلاف حکومتی سطح پر سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے۔

یہ بات سو فی صد درست ہے کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خوا، آزادکشمیر اورگلگت بلتستان کے عوام معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن ہے، لیکن پاکستانی عوام کو اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سب کچھ ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے کیا جا رہاہے۔ لہٰذا عوام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حکومتی ہدایات کوکسی صورت نظر انداز نہ کریں، جو چھٹیاں دی گئی ہیں انھیں تفریح یا پکنک کا ذریعہ نہ بنائیں، اپنے گھروں پر رہیں، عوامی اجتماعات سے گریزکریں۔

تجزیاتی ماہرین کی رائے کے مطابق بڑی بڑی طاقتیں سوچ رہی ہیں کہ انھوں نے دفاع پر جو اتنے بڑی بڑی رقومات خرچ کی ہیں لیکن صحت کے نظام پر کم پیسے خرچ کرنے کی وجہ سے ہیلتھ کیئرسسٹم کمزور ہوتا رہا ہے۔ ہمارے پاکستانی ہیلتھ سسٹم کا یہ حال ہے کہ چیئرمین این ڈی ایم اے نے جب پریس کانفرنس کی تو انہیں کہنا پڑا کہ ہمارے ملک میںصرف پچیس سو وینٹی لیٹر ہیں جن میں سے پندرہ سوخراب ہیں۔ تعلیم اورصحت کے شعبے پر توجہ نہیں دی جاتی،2017-18کے سال میں ہم نے تعلیم پرصرف829 ارب روپے خرچ کیے ہیں، یہ ڈی جی پی کا2.4فیصد بنتا ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہرکرتے ہیں کہ ہماری تمام جمہوری اور فوجی حکومتوںنے صحت کے شعبے کو مکمل نظراندازکیا ہے۔ لہذا ہمیں قومی صحت پالیسی ازسرنومرتب کرکے صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی تاکہ آنے والے دنوں میں وبائی امراض سے نپٹا جاسکے۔

عالمی ماہرین کہتے آ رہے ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی عالمی وبا دنیاکو اپنی لپیٹ میںلے سکتی ہے، بل گیٹس نے2015میں یہی بات کی تھی کہ کوئی بڑی وبا دنیاکولپیٹ میں لے سکتی ہے۔ بل گیٹس کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے ایسی باتیں کی ہیں۔ صد حیف عالمی طاقتوں نے اپنے بجٹ کا کثیر ترین حصہ اسلحہ سازی کی صنعت پر خرچ کیا ، میزائل اور ایٹم بم بنائے اور برسائے، اسی لیے آج کورونا وباء کی وجہ سے انسانیت دکھی ہے اور سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ روزانہ ہزاروں جانیں جا رہی ہیں، لیکن مقام افسوس ہے کہ تاحال طبی دنیا میں اس کا کوئی علاج نہیں ہے، انسان کو انسانیت کی طرف لوٹنا پڑے گا، ورنہ یہ دنیا تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔