کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 26 اپريل 2020
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

غزل


دعائے مرگ ہے اور خواب زندگی کے ہیں
یہ دونوں رنگ فقط ایک بے بسی کے ہیں
اگر وہ شوخیاں کرنے لگے تو کیا ہو گا
ہم ایسے لوگ تو گھائل ہی سادگی کے ہیں
نہ زخم سہنے کی ہم میں سکت نہ دینے کی
نہ دوستی کے ہیں قابل نہ دشمنی کے ہیں
ہم انتظار میں ہیں کون پہلے جھپکے آنکھ
درونِ شہر مگر چرچے دوستی کے ہیں
مرید بن کے درِ اقتدار پر بیٹھے
یہ سارے لوگ بھی قائل برابری کے ہیں
عجیب ٹیس ہے جاذبؔ گھڑی کی ٹک ٹک میں
بتا رہی ہے کہ مہمان دو گھڑی کے ہیں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


دیکھی ہے اس کی فال جو پرچی نکال کر
سب خوبیاں ہیں عشق کی خامی نکال کر
اخلاق بر قرار تو سب ساتھ ہیں ترے
تالا کبھی نہ کھل سکے چابی نکال کر
اس دھند میں سفر بڑی مشکل سی بات ہے
آتا ہوں تیرے پاس میں سردی نکال کر
کھویا تھا فکرِ رزق میں بچوں کو دیکھ کے
اور اس نے رکھ دی سامنے روٹی نکال کر
برسات کا مزہ بھی ترے ساتھ ہی گیا
کچھ اس لیے بھی رکھتا ہوں چھتری نکال کر
رکھے تھے خط تمھارے پرانی دراز میں
بیٹھا ہوں پھر سے آج میں ردّی نکال کر
آیا ہوں گھوم پھر کے میں لاہور شہر سے
کچھ بھی نہیں ہے داتا کی نگری نکال کر
شہزاد اس نے اپنی جو تصویر مانگ لی
میں نے بھی رکھ دی آنکھ کی پتلی نکال کر
(شہزاد جاوید ۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


جس دن سے تیری یاد کو دل میں بسا لیا
میں نے علاجِ گردشِ دوراں بھی پا لیا
جور و ستم کی داستاں سننے کی دیر تھی
اک بت نے سب کے سامنے نامِ خدا لیا
جانے سے تیرے روٹھے ہیں میرے نصیب بھی
بد قسمتی نے مجھ کو نشانہ بنا لیا
وہ بن گیا تھا مخملیں سا فرش ایک دم
جیسے ہی تیری یاد کو میں نے بچھا لیا
شاید کہ دل میں حسرتِ موہوم ہے ابھی
جو آج پھر سے آپ نے نامِ وفا لیا
ساجدؔمجھے معلوم ہے وہ خواہشیں ہی تھیں
جن پہ ضروریات کا جامہ سجا لیا
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


زہرِ فرقت نے کیا دل پہ اثر شام کے بعد
پارہ پارہ ہوا پھر زخمی جگر شام کے بعد
تُو نے جب میرے مقدر میں جدائی لکھ دی
زندگی کیسے مری ہوگی بسر شام کے بعد
وحشت ِہجر کا سایہ ہے میرے آنگن میں
غم کا آسیب بھی ڈرتا ہے ادھر شام کے بعد
پھول مرجھائے ترے قرب میں جو مہکے تھے
خاک اڑائے گی تری راہ گزر شام کے بعد
شام بھی روز ہی روئے گی لپٹ کر مجھ سے
چاند جس روز سے آیا نہ نظر شام کے بعد
صبح ِامید بھی مقروض ترے سرمدؔ کی
آخر اک روز تو ہونی ہے سحر شام کے بعد
(شاہ نواز سرمد۔ محمد پور دیوان، راجن پور)

۔۔۔
غزل


روشنی کے قحط میں جیسے اجالے بکتے ہیں
جب سفر مشکل بتانا ہو تو چھالے بکتے ہیں
دستکوں کے شور نے سب طاق میرے کھا لیے
پوچھنا تھا کس جگہ پر گھر کے تالے بکتے ہیں
آپ کے اشعار اچھے ہیں مگر اک بات ہے
آپ کی تصویر چھاپوں تو رسالے بکتے ہیں
زم زم و کوثر کا لنگر عام تھا جس شہر میں
آج اس بازار میں بھی مے کے پیالے بکتے ہیں
یہ مقام ِتف پہ فائز کُن بدر طاغوت ہیں
آج جو انسان کا عہدہ سنبھالے بکتے ہیں
خاک کے جثے پہ ساگر پھول پاشی اس لیے
یہ احاطے قبر کے بن کے حوالے بکتے ہیں
(ساگر حضورپوری۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


روز کٹتا ہے مگر روز نکل آتا ہے
پیڑ کو اس سے نمٹنے کا بھی حل آتا ہے
اُس لڑائی میں میاں خود کو بچا لایا ہوں
جس میں اتنا بھی کہاں کوئی سپھل آتا ہے
رتجگا مار کے ہر رات کوئی خواب مرا
خون بھی آنکھ کی دیوار پہ مل آتا ہے
میرے مٹی میں لگے پیڑ پہ گُل تک نہ لگے
اُس کے کاغذ پہ بنائے پہ بھی پھل آتا ہے
ہجر کی شب میں یہ بارش ہے قیامت عزمی
ایسی رُت میں تو جلانے کو یہ جل آتا ہے
(عزم الحسنین عزمی، ڈوڈے۔ گجرات)

۔۔۔
غزل


رستے کے جو پتھر تھے ہٹائے ہی نہیں ہیں
نفرت کے کئی خار جلائے ہی نہیں ہیں
ممکن نہیں ہے اپنے خیالات کو بدلوں
یاری کے جو ہیرے ہیں گنوائے ہی نہیں ہیں
پہلے بھی کئی بار لگی راہ میں ٹھوکر
لیکن کبھی رستے پہ وہ آئے ہی نہیں ہیں
کیسے مری تقدیر کے تاروں کو ملے نور
میں نے کوئی بھی دیپ جلائے ہی نہیں ہیں
احساس کی میّت پہ کہاں آئے گا رونا
آنکھوں سے کبھی اشک بہائے ہی نہیں ہیں
جذبات کے اظہار پہ قابو نہیں اپنا
پنچھی ہیں یہ ایسے جو سِدھائے ہی نہیں ہیں
آئے ہیں عدو دینے دلاسہ مجھے اعظم
میں نے تو کوئی روگ لگائے ہی نہیں ہیں
(اعظم شاہد ۔ منڈی بہا ء ُالدین)

۔۔۔
غزل


ڈر کے خوف و خطر میں بیٹھی ہے
ساری دنیا ہی گھر میں بیٹھی ہے
واہمہ ہے کہ بوجھ ہے دل پر
اک وبا ہے جوسَر میں بیٹھی ہے
کیا سبھی خاک ہو گیا، یاپھر
گرد میری نظر میں بیٹھی ہے
جس پہ تنہائی ہے اثر انداز
اب دعا اس اثر میں بیٹھی ہے
اب خبر ہی نہیں کوئی کہ اب
ہرخبر، اک خبر میں بیٹھی ہے
حاویؔ جانے کیا بات ہے کہ جو
زخم بن کر جگر میں بیٹھی ہے
(آصف حاوی اعظمی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


چوٹ کھا کر مسکرانا چاہتا ہوں
میں سبھی کو یہ دکھانا چاہتا ہوں
اپنے الجھے کام سلجھانے کی خاطر
ایک الجھن گھر میں لانا چاہتا ہوں
اس اندھیرے میں کوئی بھٹکے نہ رستہ
میں دیا ہوں جگمگانا چاہتا ہوں
گو مجھے منزل پکارے یا نہ ڈھونڈے
میں بس اس کی سمت جانا چاہتا ہوں
میں بہت بھٹکا پھرا دشت جنوں میں
سو کہیں اب اور جانا چاہتا ہوں
ڈھونڈتی ہے اب محبت اپنا مسکن
اور میں بھی اب ٹھکانہ چاہتاہوں
(محمد اختر سعید۔جھنگ)

۔۔۔
غزل


رخ سے تھوڑا ہٹا کے بالوں کو
چومنے دے نظر سے گالوں کو
دور کر دے یہ تشنگی دل کی
آج دے بھر کے لب کے پیالوں کو
چار سُو دل میں اب اداسی ہے
لے گیا کون ان اجالوں کو
آخری سانس تک ترا رشتہ
کیسے حاصل رہا خیالوں کو
آپ کے دل میں اٹھ رہے ہیں جو
حل کریں تو ذرا سوالوں کو
نورؔ سب سے نہ رکھ امیدِ وفا
دیکھ خود سے خراب حالوں کو
(حضرت نور تنہا۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


بھیگا موسم، سردی، چائے
تیری یادیں، پھیکی چائے
پھرسے تنہا ہیں بارش میں
خالی کرسی، تیری چائے
تیرے بِن یہ بن گئی عادت
پیتاہوں میں ٹھنڈی چائے
تیرے ہاتھوں کا جادو ہے
خوش بُو دیتی میٹھی چائے
اب میں صدیوں تک جی لوں گا
تیرے کپ میں پی لی چائے
(نذیر حجازی۔ نوشکی)

۔۔۔
غزل
کوئی جو دل میں بساؤں تو خاک ہو جاؤں
میں دل سے تم کو بھلاؤں تو خاک ہوجاؤں
تمہارے ہجر نے ایسا ہنر دیا ہے مجھے
کبھی جو خاک اڑاؤں تو خاک ہوجاؤں
بس ایک آخری خواہش یہی مرے دل میں
تمہیں جو دل سے لگاؤں تو خاک ہوجاؤں
جلا وہ آگ محبت کی میرے سینے میں
ترے سوا کوئی چاہوں تو خاک ہوجاؤں
کچھ اس طرح مجھے کر اپنی ذات میں شامل
میں تجھ سے دور جو جاؤں تو خاک ہوجاؤں
(علیشہ راجپوت حافظ آباد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔