ملکی معیشت کی تباہی کی بنیاد

عبدالرحمان منگریو  اتوار 17 مئ 2020

اس وقت ملک پر قرضوں کا بوجھ ریکارڈ 42ہزار 820ارب روپے ہوگیا ہے ۔ ایسے ہی کئی اسکینڈلز بھی سامنے آئے ہے۔ بجلی مہنگی ہونے سے ملک میں پیداواری قیمت یعنی پراڈکشن کاسٹ بڑھ گئی اور یوں خطے میں ہماری پراڈکٹس انڈیا ، چائنہ حتی ٰ کہ بنگلادیش کی پراڈکٹس کے مقابلے میں مہنگی ہوگئیں اور ہماری مارکیٹ کریش ہوگئی ۔ جس کا نزلہ عوام پر مہنگائی کی صورت میں گرا اور ملک دن بہ دن ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب بڑھتا ہی چلا گیا ۔اور پھر بیرونی قرضہ جات تاریخ کی بلند ترین سطح پر آگئے۔

یعنی ہماری تمام تر معیشت کی تباہی کی بنیاد مہنگی بجلی ہے ۔ آٹے ، چینی ، ماسک اسکینڈلز اور ادویات کی اسمگلنگ، بعض شعبوں میں اسکینڈل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک اس وقت سرمایہ داروں کے شکنجے میں ہے ۔ جن کے خلاف کارروائی عمران خان سمیت کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں لگتی ۔ اس کو کسی ایک ادارے یا کچھ افراد کے خلاف کارروائی یا کسی ادارے کے اختیارات کے تناظر میں دیکھنے سے یہ معاملہ نہ سمجھ آئے گا اور نہ ہی کوئی ایسا حل نکل سکے گا جو ملکی استحکام و ترقی کے ساتھ ساتھ عوام کی دیرپا خوشحالی کا باعث بن سکے ۔ اس لیے وزیر اعظم کو ان تمام معاملات کو نظام کی خرابی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام کسی طور بھی عوام کی خوشحالی و ملکی ترقی کا باعث نہیں ہوسکتا ۔

سوشلسٹ معیشت انسانی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے اور اُن ضرورتوں کو پورا کرتی ہے جب کہ سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت پیسے اور منافع کے گرد گھومتی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام لوٹ کھسوٹ اور استحصال پر کھڑا ہے ۔ دورحاضر میںیہ گلوبل سرمایہ دارانہ دور ہے ، نیو لبرل معیشت کا راج ہے ، جدید دنیا کی اقتصادی پالیسیاں سامراجی قوتیں طے کرتی ہیں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ معیشت پر طاقتور ممالک کا قبضہ ہے ۔ ایسی پالیسیوں کے باعث دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے بلکہ اجارہ داریت قائم رہتی ہے اور تیسری دنیا کی ریاستیں مقروض ہی رکھی جاتی ہیں ۔

عالمی اقتصادی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا اقتصادی تصور سرمایہ دارانہ نظام کا قیام اور آزاد منڈیوں کو تقویت دیکر نجکاری کے لیے راہیں ہموار کی جاتی ہیں ۔ ایسی عالمی اقتصادی پالیسیوں کے باعث آبادی کی اکثریت میں بھوک ، بیماری اور جہالت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ جب کہ سرمایہ داری غلامی کو بھی جنم دیتی ہے ۔ اس سرمایہ داری کا سورج ذاتی ملکیت کے خاتمے سے ہی غروب ہوگا۔ غور سے دیکھا جائے تو اس وقت پیداواری وسائل یعنی کارخانوں اور کارپوریشنزوغیرہ پر چند سرمایہ دار لوگ قابض ہیں ۔ سرمایہ دار چاہتا ہے کہ وہ اتنی دولت جمع کرے کہ اُس کی آنیوالی نسلیں بھی اُسی پر پلتی رہیں۔ اور یہی بات معاشرے میں طبقاتی نظام کو بھی فروغ دیتی ہے ۔ اس کے خاتمے کے لیے ہمیں کامریڈ لینن کے خیالات سے مدد لینی ہوگی ۔

کامریڈ نے 1903میں شایع کردہ اپنے ایک پمفلیٹ میں کہا کہ ’’ ہم ایک نیا و بہتر نظام قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس نئے اور بہتر سماجی نظام میں نہ تو کوئی امیر ہوناچاہیے اور نہ ہی غریب۔ سب کو کام کرنا چاہیے ۔ صرف مٹھی بھر امیروں کو نہیں بلکہ تمام محنت کشوں کو محنت کا ثمر ملنا چاہیے ۔ مشینوں اور ترقی یافتہ اشیاء کو سب کا کام آسان کرنا چاہیے ،لاکھوں کروڑوں لوگوں کے نقصان سے چند لوگوں کو امیر نہیں بننا چاہیے ۔ اس نئے اور بہتر نظام کو سوشلسٹ نظام کہا جاتا ہے اور اس کے نظریے کو سوشلزم کہا جاتا ہے ‘‘۔

دوسری جانب اگر تاریخی طور پر دیکھیں تو یہی نظام عملی طور پر ہمیں 1400سال قبل ریاست مدینہ میں خلیفہ اول حضرت ابو بکر ؓ کی جانب سے یوں نافذ العمل نظر آتا ہے کہ انھوں نے اپنی یعنی ریاست کے امیر (خلیفہ ) کی اُجرت کو مزدور کی اُجرت کے برابر مقرر کیا ۔ اور ماضی قریب کے ملکی حکمران ذوالفقار علی بھٹو ایسے وزیر اعظم تھے جو شاید ان دونوں باتوں کی افادیت سے بخوبی واقف تھے ، اس لیے انھوں نے ’’اسلامی سوشلزم ‘‘ کی اصطلاح دی اور اداروں کو قومی تحویل میں لے کر اُس نئے اصطلاحی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان بذات خود بھی ملک میں ریاست مدینہ کا نظام لانے کے خواہش مند رہے ہیں۔ انھیں اس معاملے میں ’’اسلامی سوشلزم ‘‘ والی اس اصطلاح اور اُس کے نافذ العمل ہونے کے طریقے پر ضرور توجہ دینی چاہیے ۔ اس سے نہ صرف انھیں ’’ریاست ِ مدینہ ‘‘ کا نظام رائج کرنے والے اپنے خواب کی تعبیر نظر آئے گی بلکہ اس سے ملک میں قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کا سدباب بھی ہوگا ۔ اورسب سے بڑی بات ملک میں طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوگا اور تمام لوگوں کو برابری اور سراسری طور پر حقوق میسر ہوں گے ۔ جوکہ بذات خود انصاف کا تقاضہ اور ملکی استحکام کا باعث ہوگا ۔

موجودہ کورونا کی وبا کے دوران بھی یہ بات واضح طور پر نظر آئی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس وبا کو روکنے میں ناکام رہا ہے ۔ دنیا میں امریکا ، اسپین ، اٹلی جیسے سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک باوجود جدید ٹیکنالوجی کے اس وبا پر قابو نہ پاسکے اور ہزاروں افراد موت کا شکار ہوگئے جب کہ سوشلسٹ نظام کے حامل چین ، کیوبا ،وینزویلا اور شمالی کوریا جیسے ممالک نے اس سنگین وبا پر قابو پالیا ۔ جس کی وجہ بتاتے ہوئے ’نوم چومسکی ‘ کہتے ہیں کہ نیو لبرل معیشت میں دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ ادویات کے کارخانوں اور صحت کے شعبے کی نجکاری (پرائیوٹائزیشن ) نے حکومتوں کو اس وبا کے سامنے کمزور ثابت کیا ہے ۔

ویسے بھی آج کل عالمی سرمایہ دارانہ نظام بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور اُس سے نکلنے کے لیے سامراجی ممالک کی نظر تیسری دنیا کے وسائل پر ہے۔ ایسے میں تو سوشلزم اور وہ بھی ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ہمارے لیے اپنے وسائل اور معیشت بچانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ لیکن یہاں تو الٹا نجکاری میں تیز رفتاری دیکھنے میں آرہی ہے ۔ جب کہ یہ ملک کاسب سے بڑا المیہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے بھی سرمایہ دار مافیا کی سازشوں کے تحت تباہ ہوجاتے ہیں۔

اگر نجکاری اور نجی اداروں کی بھرمار ہی معاشی استحکام لانے کی سیڑھی ہے تو پھر گذشتہ 30سال سے اس پالیسی پر چلنے کے باوجود ملکی معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑتی کیوں جارہی ہے ؟ سرمایہ کاری میں مسلسل کمی کیوں ہوئی ہے ؟ اور سب سے بڑی بات ہماری کرنسی مسلسل ڈی ویلیو کیوں ہوتی رہی ہے ؟ ہماری جی ڈی پی کی شرح کا 70کے عشرے کا اور موجودہ ریکارڈ چیک کر لیں تو اداروں کی نیشنلائیزیشن اور پرائیوٹائیزیشن کا فرق باآسانی سمجھ آجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔