پاکستان کے کھیلوں میں ڈیپارٹمنٹس کا کردار

شاہد کھوکھر  اتوار 17 مئ 2020
آج کی کھیلوں کا کھربوں ڈالر کا ڈھانچہ جن ستونوں پر کھڑا ہے ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس کھیل کے مداح رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

آج کی کھیلوں کا کھربوں ڈالر کا ڈھانچہ جن ستونوں پر کھڑا ہے ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس کھیل کے مداح رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

حکومتی ڈیپارٹمنٹس میں کھیلوں کے فروغ کیلیے سرگرمیاں پہلے ہی بہت کم ہیں،اس صورتحال میں وزیر اعظم کے ڈرائنگ روم منصوبے کے تحت ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ قطعی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ منصوبہ ایک خطیر رقم اور کئی کیریئرز برباد کرنے کے بعد اپنی موت آپ مر جائے گا۔

گزشتہ تین یا چار دہائیوں میں پاکستان کا معاشرتی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بدعنوانی، اقرباء پروری، منافقت، نااہلی اور لاقانونیت جیسی بیماریوں نے پاکستان کو جس انداز سے جکڑے رکھا ہے اس نے فطری طور پر معاشرے کے ہر پہلو کو متاثر کیا جس میں کھیل بھی شامل ہیں، سپورٹس تو پہلے ہی ہمارے جیسے ترقی یافتہ ممالک کی ترجیحات میں سب سے نیچے جگہ پاتے ہیں۔ متاثرین میں حکومتی ڈیپارٹمنٹس بھی شامل ہیں جو کہ ایسے ادارے بن چکے ہیں جن کی اولین ترجیح فائلوں کا پیٹ بھرنے سے آگے کچھ نہیں ہے۔

آج کی کھیلوں کا کھربوں ڈالر کا ڈھانچہ جن ستونوں پر کھڑا ہے ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس کھیل کے مداح رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف عوامی غیر مقبولیت کی وجہ سے پاکستان کے سرکاری ڈیپارٹمنٹس مداحوں سے یکسر محروم ہیں، اسی بناء پر یہ کارپوریٹ طبقہ کے لئے کوئی کشش نہیں رکھتے۔ ذرا سوچئے کہ پولیس اور عوام کے مابین موجودہ تلخ تعلقات کے ہوتے ہوئے پولیس کی فٹ بال یا کرکٹ ٹیم کا میچ دیکھنے کے لئے کون سٹیڈیم کا رخ کرے گا اور پولیس کی ٹیم کی جرسی کون خریدے گا اور کون سا برانڈ اس جرسی کے اوپر اپنا لوگو لگائے گا یا سپانسرشپ کیلئے قدم بڑھائے گا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کھیلوں کی ترقی نہ تو محکموں کا بنیادی مقصد ہے اور نہ ہی ہونا چاہئے کیونکہ ان کے بنیادی محرکات اس سے قطعی مختلف ہیں، مثال کے طور پر واپڈا، ریلوے، پولیس، پی آئی اے کچھ دوسری زمہ داریاں نبھانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں یقینی طور پر کھیلوں کو ترقی دینے کے لئے نہیں۔ البتہ سماجی ذمہ داری کے طور پر صحتمندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ سرکاری اور نجی اداروں میں کھیلوں کی ان جملہ خرابیوں اور مسائل کا حل کیا ان میں سے کھیل کا وجود یک جنبش قلم ختم کر دینے میں ہے؟ کیا ہمیں یکسر یہ بھلا دینا چاہئے کہ ایک طرف گزشتہ 60 یا 70 سال سے یہ تنظیمیں کھیل اور کھلاڑی پر اربوں روپے خرچ کر چکی ہیں اور دوسری طرف وہ واحد ڈھانچے ہیں جو کسی نہ کسی طرح منظم انداز میں کھیلوں کی سرگرمیاں چلاتے آئے ہیں، سینکڑوں کھلاڑیوں اور کوچزکی معاشی ڈور ان محکموں سے بندھی ہے، ہمارے جیسے ملکوں میں قومی سطح پر ابھرنے والے کھلاڑیوں میں اکثریت کا تعلق غریب یا نچلے درجے کے متوسط گھرانوں سے ہوتا ہے، فیصلہ سازوں کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ جب کوئی کھلاڑی کسی ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم میں منتخب ہوتا ہے تو اس کے گھر اور اس کلب جہاں سے وہ بنیادی طور پر تعلق رکھتا ہے، میں کیا ماحول ہوتا ہے۔

کھیلوں سے وابستگی رکھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ میدانوں کے ایک کونے پر بنے دفتر کم سٹور نما کمروں میں کھیلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے استادوں اور خلیفوں کا تقابلی جائزہ اس بناء پر لیا جاتا ہے کہ کس استاد کے کتنے شاگرد سرکاری محمکموں میں کھیلتے ہیں، اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل اس بات کو سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ یہ محض محکمے نہیں ہیں بلکہ کھیلوں کی نرسریاں بن چکی ہیں، کیا متبادل نظام بنائے بغیر اس ڈھانچے کو یک جنبش قلم مسمار کرنا مناسب ہے؟

اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل جس انداز سے کرکٹ کو سرکاری محکموں سے ختم کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے محکموں کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ علاقائی ایسوسی ایشنز کو ’’سپانسر‘‘ کریں ، حیرت انگیز ہے، دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم کی جدت پسندی اور حقیقی تبدیلی کی خواہش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے، کیا یہ منصوبہ پیش کرنے سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کے متعلقہ ذمہ داران نے صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا جائزہ لیا تھا؟ کیا ان ایسوسی ایشنز کے ڈھانچے اس قابل ہیں کہ وہ سرکاری محکموں سے فارغ ہونے والے کھلاڑیوں کے لئے نعم البدل بن سکیں؟

کیا ان ایسوسی ایشنز کوکھیلوں سے متعلقہ جدید علوم مثلاً ایڈمنسٹریشن، کمپیٹیشن ڈویلپمنٹ، کلب ڈویلپمنٹ، یوتھ ڈویلپمنٹ، پلئیرز گرومننگ، فین بیس، مارکیٹنگ، کمرشلائزیشن اور برانڈ ایکویٹی جیسے موضوعات کی معمولی سی بھی سمجھ ہے؟ ان کے اپنے ڈھانچے آئینی طور پر کتنے مضبوط ہیں؟ کیا یہ ایسوسی ایشنزاس پورے آئیڈیا کو سمجھنے اور نافذ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں؟ نہیں جناب وزیر اعظم ہرگز نہیں، نہ ہی وہ تیار ہیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں۔

ان دلائل سے قطعاً یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم کھیلوں کی ترویج و ترقی میں سرکاری محکموں کے کسی کردار کی حمائیت کر رہے ہیں لیکن اس کردار کو ختم کرنے کے منصوبے پر جس انداز سے عمل کیا جارہا ہے مجھے ڈر ہے کہ اس کا مقدر یقینی ناکامی ہے، کلب کلچر کا خود ساختہ وکیل ہونے کی حیثیت سے میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ کلب کسی بھی کھیل کے لئے بنیادی اکائی ہوتے ہیں، ان کو نظرانداز کرکے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا جبکہ پی سی بی کا حالیہ منصوبہ کلبز کی بجائے ایسوسی ایشنز کے گرد گھومتا ہے۔

کسی کھیل کی ڈویلپمنٹ ہرگز یہ نہیں ہے کہ کلب یا کھلاڑی کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے بلکہ یہ تو ان کی بنیادی خداداد صلاحیت کو پوری طرح نکھارنے کا نام ہے جو کہ صرف کلبز کے اندر ممکن ہے کیونکہ کھلاڑی کی سیکھنے کی بہترین عمر کلبز میں گزرتی ہے، کلب جو فطری اکائی ہے اپنے ساتھ ایک مضبوط علاقائی پہچان اور دہائیوں پر مشتمل تاریخ رکھتے ہیں۔ کلب ایک زندہ مخلوق کی طرح ہیں جبکہ ایسوسی ایشنز میں زندگی کا کوئی وجود نہیں اور اس کی حیثیت ایک کلرک کے دفترکی سی ہے۔ جب تک کلبوں کی حقیقی ڈویلپمنٹ کو مرکزی خیال نہیں بنایا جاتا، تب تک یہ صفر جمع صفر برابر صفر کی مشق ہی رہے گی۔ پھر بھی اس کا حل ڈیپارٹمنٹس کے کرکٹ ڈھانچے کو لمحہ بھر میں زمیں بوس کر دینا درست فیصلہ نہیں ہے۔

اس پر ایک جامعہ اور دیرپا حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے جو محکموں کوبتدریج جدید کلبوں میں تبدیل کر دے۔ وزیر اعظم آفس کے محکموں کے نام خط میں ہدایت کی گئی تھیکہ وہ علاقائی ایسوسی ایشنز کو سپانسر کریں جو کہ کھیلوں کے اس جدیددور میں خالصتاً ایک کاروباری اصطلاح ہے اور سرکاری محکمے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اگر وہ ایسوسی ایشنز کو سپانسر کریں تو بدلے میں انہیں کیا ملنا چاہئے۔

وزیراعظم عمران خان دنیائے کرکٹ کی ایک سحر آفریں شخصیت اور پی سی بی کے چیف پیٹرن بھی ہیں، ان سے درخواست ہے کہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو یوں چشم زدن میں ختم کرنے کی بجائے ڈیپارٹمنٹس کو اپنے کھیل بالخصوص کرکٹ کو کمرشلائز کرنے اور اس سے پیسہ کمانے کی ترغیب اور ٹریننگ دینی چاہئے، انہیں مارکیٹنگ کی نئی ٹیکنالوجیز سیکھنے اور کھیلوں کو بطور آزاد کلب چلانے کی ذمہ داری دی جانی چاہیے، پاکستان کی معاشی صورتحال میں کھیلوں میں ڈیپارٹمنٹس کا کردار ختم کرنا کسی طور درست فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔