کورونا اور الٰہ دین کا چراغ

ایڈیٹوریل  اتوار 7 جون 2020
کووڈ 19کی وجہ سے ملکی معیشت کا بیرونی توازن کئی طرح سے متاثر ہوگا۔ فوٹو: فائل

کووڈ 19کی وجہ سے ملکی معیشت کا بیرونی توازن کئی طرح سے متاثر ہوگا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان مزید لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے انتباہ کیا کہ کورونا پھیلا تو وائرس والے علاقوں کو بند کرنا پڑسکتا ہے، عوام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تو مشکل وقت سے بچ سکتے ہیں۔

جمعہ کو دارالحکومت اسلام آباد میںکورونا ٹائیگر فورس کے رضاکاروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا میں لاک ڈاؤن سے غربت بڑھی، بھارت میں غریبوں کا برا حال ہوگیا، تاہم پاکستان میں اتنا نقصان نہیں ہوا، ہم نے احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو ریلیف پہنچایا۔ اگر ہم یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پاکستان میں بھی برا حال ہوجاتا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل بھی موجود تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا کا حال برا ہے، اس آفت نے معاشی زلزلہ کی کیفیت پیدا کی اور سیاست، سماجی، معیشت، سفارت اور سیاحت اور صحت کے پورے عالمی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی معاشی حالت بھی بہت پتلی ہوگئی ہے، وہاں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔اس عالمی وباء نے ترقی یافتہ ممالک کے نظام صحت کو مفلوج کردیا ہے۔

امریکا، برطانیہ اور اٹلی جیسے ممالک میں وباء سے مرنے والوں کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ ہے۔ان ترقی یافتہ ممالک کا نظام صحت بھی وباء کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا۔غریب اور ترقی پذیر ممالک کا تو برا حال ہے۔

پاکستان کے ہیلتھ سسٹم کی فرنٹ لائن فورس جو ڈاکٹروں، نرسز اور پیرا میڈیکلز پر مشتمل تھی اسے پہلی بار ایک شدید دھچکا طبی دنیا کی دل شکستگی سے لگا، میڈیا کے مطابق اسپتالوں میںحفاظتی انتظامات کے فقدان کے باعث30 سے زائد مسیحا شہید ہوئے، ملک میں واقعتاً ایک ہیلتھ انارکی اور کہرام برپا ہے، پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری شہرکراچی میں بھی صورت حال بگڑ گئی، حتیٰ کہ ایک گیم چینجر اینٹی وائرل دوا کی نوید بھی سنائی نہیں دی،پنجاب میں خصوصاً لاہور میں کووڈ نائنٹین کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔

ادھر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق روس نے جاپان میں تیار کردہ کورونا کے علاج کے لیے ایک زیر تجربہ دوا کے عمومی استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ میڈیا کے مطابق سرفروشی اور جان نثاری کی ملکی تاریخ رقم کرنے والی طبی فورس نے حکومت کی ہڑبونگ، قوت فیصلہ کی کمی، بیان بازی اور کورونا سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور غیر متزلزل حکمت عملی کے دیوالیہ پن سے ایک ناقابل یقین کنفیوژن پر مایوسی ظاہر کی ہے، طبی ذرایع کے مطابق کسی کو پتا نہیں کہ کس لمحہ کون سا فیصلہ کس سابقہ اقدام کو بے نتیجہ کہہ کر رد کردیا جائے۔

یہ صورتحال مایوس کن ہے ۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دو بڑے اسپتالوں کے باہر ’’ہاؤس فل‘‘ کے بینرز لگا دیے گئے کہ کورونا کے مریض نہیں لیں گے، کہیں بیڈ نہیں تو کہیں وینٹی لیٹرز کی مشکلات ہیں، WHO کے سربراہ نے انتباہ کیا تھا کہ کورونا سے ماورا امراض کا علاج ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے، لاکھوں مریض علاج کو ترس رہے ہیں، کورونا دیگر امراض پر غالب آگیا ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو کی لایعنی بحث نے کورونا وائرس کی وبا کا منفی پہلو اجاگر کردیا ہے، ملک کی معاشی صورت حال سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث ملکی معیشت کو25 کھرب روپے کے نقصان کا سامناہے، ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی کے ذریعے پیمائش کی جانے والی معیشت کا حجم440 کھرب سے 25 کھرب روپے کم ہوکر415 کھرب روپے رہ گیا ہے، کاروباری سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں، ادھر ٹڈی دل کے حملوں نے زرعی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور حکومت یہاں بھی اپنی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

ادھر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے چند ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی سے کورونا کیسز میں اضافہ ہوا، درجنوں نئی تحقیقات نے کورونا کے کئی باب طشت ازبام کردیے، سندھ حکومت کا استدلال بدستور وہی ہے کہ وفاق کی طرف سے لاک ڈاؤن کھولنے کی اجازت دینے کے باعث کیسز کی تعداد میں ایک دن میں اضافہ ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب کورونا کے کیس سامنے آئے تو مخالفین نے بہت شور مچایا کہ مساجد بند کی جائیں کیونکہ وبا پوری دنیا میں پھیل گئی ہے لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ مساجدسے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا۔

وزیر اعظم نے کہا پاکستان میں 30 سال بعد ٹڈی دل کا حملہ ہوا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو بہت بڑا خطرہ ہے، 80 فیصد پانی دریاؤں میں گلیشیئرز سے آتا ہے، جیسے جیسے موسم گرم ہوتا ہے گلیشیئرز پگھلتے ہیں، مستقبل میں اس کانقصان ہوگا۔ قوم کو بتانے کی ضرورت ہے کہ صرف کورونا نہیں ماحولیات، معیشت، روزگار اور مہنگائی کے دردناک مسائل کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے الٰہ دین کا چراغ کوئی ہمیں لاکر نہیں دیگا۔

ملکی نظام تعلیم کے زوال پر بھی اہل فکرونظر دلگرفتہ ہیں ان کے نزدیک ایک گلے سڑے تعلیمی نظام کو آخری ہکچیاں لینے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، یہ زبان خلق ہے، ارباب اختیار بیان بازی میں وقت برباد نہ کریں،عوام اور تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور مکالمہ کا در کھولا جائے، دوراندیشی کا تقاضہ ہے کہ حکومت کورونا پر نہ خود سیاست کرے اور نہ اپوزیشن سیاست اور پوائنٹ اسکورنگ میں وقت ضایع کرے۔ کورونا کی مصیبت حکمرانوں اور عوام سے سنجیدگی کی طلب گار ہے۔ یہ تماشا نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔