اسٹیل ملز کی نجکاری

عبدالرحمان منگریو  اتوار 14 جون 2020

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دھرتی کی عمر کروڑہا بلکہ سیکڑوں ارب سال ہے ، جب کہ اس پر انسان کی عمر تقریباً 4لاکھ سال بمشکل ہے۔اُس میں سے بھی موجودہ ماخذالصورت کے حامل انسان کی عمر تو اُس سے بھی بہت کم بتائی جارہی ہے ، جس کے حوالے مذہبی کُتب میں بھی ملتے ہیں۔

پھر ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین کی محنتوں کے طفیل ہمارے پاس جو موجود مستند معلوماتی ذخیرہ ہے ، اُس کے مطابق 8سے 10ہزار سال قبل کی ہی انسانی زندگی سے متعلق پتہ چلتا ہے ۔ جس کے مطابق انسان روز ِ اول سے ہی اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے مسلسل ارتقائی سفر میں سرگرداں رہا ہے۔ کچا ماس کھانے اور پتوں کی پوشاک استعمال کرنے کے عہد سے ہی انسان نے ایجادات و صنعت پر توجہ مبذول کیے رکھی اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں داخل ہوا ہے۔

اگر غور سے انسانی ترقی کی رفتار کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ہزارہا سالوں سے جاری انسانی ترقی کا یہ سفر 16ویں صدی تک انتہائی سست رفتاری سے چلتا بلکہ گِھسٹتا رہا لیکن 16ویں صدی کے صنعتی انقلاب نے انسان کو ایسے پَر لگا دیے کہ وہ اب ترقی کے سفر میں دوڑتے بلکہ اُڑتے ہوئے ’’ستاروں پر کمند ڈالنے ‘‘ والی کہاوتوں کو بھی پورا کرچکا ہے ۔ گذشتہ 400سو سالہ صنعتی ترقی نے دنیا بھر کے ممالک کو انسانی خوشحالی اور آسائشات ِ زندگی کے حصول میں مثالی کمال کے درجے پر پہنچادیا ہے ، لیکن تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص پاکستان اب بھی صنعتی ترقی کے ان ثمرات سے کوسوں دور کھڑا ہے بلکہ اُس کی مخالف سمت سفر کرنے پر بضد ہے۔

دنیا کے ممالک دن بہ دن نئی صنعتیں اور اُن کے کارخانے لگانے کی فکر میں ہیں اور ہم موجود صنعتی اداروں کو تین وال کرکے اپنی خوشحالی و ترقی کو دوسروں کے ہاتھوں میں گروی رکھنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اسی روش کے باعث ملکی اداروں کو ڈی اسٹیبلائیز کرتے ہیں اور انھیں بند کرکے کوڑیوں کے دام بیچ دیتے ہیں ، اور پھر ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دیگر ممالک سے اشیاء درآمد کرتے ہیں۔

دنیا پروڈکشن کی وجہ سے ترقی کے زینے تیزی سے طے کرتی جارہی ہے اور ہم پروڈکشن کو پیٹھ دیکر صرف کنزیومر مارکیٹ بننا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہی ملک معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے جس کی معیشت کی بنیاد پروڈکشن پر کھڑی ہوتی ہے۔ پھر ہمارا ملک تو پروڈکشن کے لیے مطلوب خام مال کی نعمتوں سے بھی مالامال ہے ، اُس کے باوجود ہم اپنی صنعتوں کو پے درپے بند کرتے جارہے ہیں ۔

دنیا میں سستے سے سَستی پروڈکشن چین کی ہے جو سوشلسٹ نظریے کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔ جس میں تجربہ کار مزدور اور Productive افراد کو مسلسل مصروف اور باروزگار رکھنے کی پالیسی کا بڑا عمل دخل ہے ، یعنی سرکاری سرپرستی میں نیشنلائیزیشن کی پالیسی کے تحت ملک بھر میں بڑے قومی صنعتی ادارے اورچھوٹی چھوٹی ہوم بیسڈ انڈسٹری کو اون کیا جاتا ہے۔ اُس کے برعکس ہماری پالیسی پرائیوٹائیزیشن یعنی نجکاری کو اہمیت دیتی ہے ، جوکہ ملک میں سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کو طول دیتی ہے ۔ جس میں قوم نہیں بلکہ کچھ فرد ترقی کرتے ہیں ۔ جس سے ملکی معیشت مستحکم نہیں ہوتی بلکہ ملکی پیسہ چند سرمایہ داروں کے اکاؤنٹس کے Debit و کریڈٹ کے ہندسوں میں اضافہ کرتا ہے اور پھر ان افراد کی دولت کی ہوس ملک میں ٹیکس چوری ، کالا بازاری اور کالے دھن یعنی Black Moneyکا باعث بنتی ہے ۔ یوں ملک کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے ۔

اس طبقاتی نظام میں غربت و پس ماندگی میں اضافے کے باعث ریاست پر عوامی اخراجات کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ پھر سبسڈی ، بیرونی قرضہ جات ، سود کی شرح میں اضافہ ، مہنگائی ، بدامنی وغیر وغیرہ جیسی برائیاں ملک کا مقدر بن جاتی ہیں ۔ اور بدقسمتی سے ہمارا ملک اس وقت ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے ۔ کیا ہمیں اس بات کا ادراک نہیں ہے ؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہم نصف صدی پہلے سے ہی اس بات سے آگاہ تھے ۔ تبھی 1970کے عشرے میں بھٹو حکومت نے اداروں کو نیشنلائیز کرکے سرکاری تحویل میں لیا اور سرکاری سرپرستی میں بڑی بڑی نئی صنعتیں لگانے پر بھی کام کیا ۔

پورٹ قاسم ، ہیوی انڈسٹری اور اسٹیل ملز اُسی کی مرہون ِ منت ہیں۔ اُن دنوں بیرونی قرضہ جات (ایٹمی پروگرام کے باعث پابندیوں کی وجہ سے ) بند ہونے کے باوجود ملکی جی ڈی پی میں ان اداروں کے طفیل ہی بہتری آئی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے اپنی مستحکم معیشت اور مضبوط ترقی کے زینوں پر اوپر چڑھتے چڑھتے اچانک نیچے اُترتے زینوں کی طرف یوٹرن لیا ؟ اس کے پیچھے وہی عالمی و ملکی سرمایہ دار طبقے کی سازشیں ہیں، جو نہیں چاہتے کہ پاکستان دنیا میں ایک ’’عوامی جمہوری ترقی یافتہ ملک ‘‘ بن کر اُبھرے ۔

یہ طبقہ اب مافیا بن چکا ہے جس کی ملکی اقتداری نظام پر گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ ہر نئی حکومت کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ یہی صورتحال پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے ساتھ پیش آئی ہے ۔ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی دیگر قیادت جو دو سال قبل اسٹیل ملز کو بند کرنے اور اُس کی نجکاری کے خلاف دھرنے دیتی رہی اور حکومت میں آکر اسٹیل ملز کو بہتر مینجمنٹ سے چلانے کے دعوے کرتی رہی ، اُسی پی ٹی آئی نے رواں ماہ 03تاریخ کو اسٹیل ملز کے 9350 ملازمین کو کوئی نوٹس دیے بغیر ملازمت سے فارغ کردیا ۔

ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کرنیوالوں کے ہاتھوں ہزاروں افراد کو بے روزگار کرنا ، عوام کے لیے سبق آموز واقعہ ہے ۔ یہ شاید اسٹیل ملز کی نجکاری کی جانب پیش قدمی کے پہلے قدم کے طور پر ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے ۔ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں جب جب حکومتوں نے اسٹیل ملز کی نجکاری کرنی چاہی تو یہ مزدور و ملازم یونین اُس کے آڑے آتی رہی۔ حتیٰ کہ مشرف دور میں 2006میں بھی ملی بھگت کے تحت600ارب روپے کی مالیت کے اثاثہ جات کی حامل اسٹیل ملز کے 75% حصص محض 22 ارب میں فروخت کردیے گئے تھے۔

جنھیں پیپلز مزدور یونین نے بیریسٹر ظفراللہ خان کی معرفت سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور 15جون 2006کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رُکنی بینچ نے اس فروخت کو کالعدم قرار دیدیا۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مجموعی مفاد کے حق میں ایک بہترین فیصلہ تھا۔ اس فیصلے میں حکومت ِ وقت اور سرمایہ دار مافیا کی ملی بھگت کے کچھ حقائق بھی سامنے آئے ۔ اس لیے سرمایہ دار مافیا چاہتا ہے کہ ملازمین کو برخاست کرکے یہ رکاوٹ دور کردی جائے ۔ پھر کچھ عرصہ ملز ویران پڑی رہے گی اور یوں ملز کو کوڑیوں کے داموں فروخت والی گھناؤنی سازش کامیاب ہوجائے گی۔

کیونکہ گذشتہ برس بھی اس سے متعلق ملک میں باتیں عروج پر رہیں ، اس پر سینیٹ کی صنعت و پیداوار سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی غور و خوض کیا تھا ۔ جس کے اجلاس کے دوران سابقہ صدر آصف علی زرداری نے اسٹیل ملز کو بند کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یہ صوبہ سندھ کی ملکیت ہے۔ وفاق سے اگر نہیں سنبھل رہا تو سندھ حکومت کو دیدے ، ہم اسے چلائیں گے۔ انھوں نے چین اور روس کی کچھ کمپنیوں کا حوالہ دیا کہ وہ اُسے چلانے میں معاونت کی خواہش مند ہیں ۔ ایک مرتبہ پھریہ معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ۔لیکن حالیہ فیصلے سے لگتا ہے کہ وہ فیصلہ عارضی تھا اور سرمایہ دار مافیا نے ابھی ہار نہیں مانی ۔

1992میں نواز شریف حکومت نے ملک میں پرائیوٹائیزیشن کی پالیسی متعارف کرائی ۔ جس پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے IMFکے دباؤ کے نتیجے میں کیے گئے فیصلوں کے باعث تھا۔ وہ اسٹیل ملز جس کا Sloganہی ہے ’’خوشحالی و ترقی کی پہچان -فولاد سے مضبوط پاکستان ‘‘ ۔ اُسے گذشتہ 25سال سے تین وال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے 1971 میں پاکستان -روس کے مابین ہونیوالے فنی و مالی تعاون کے معاہدے کے تحت شروع ہونیوالے اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد 30دسمبر 1973کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا ۔

یہ پروجیکٹ 18600ایکڑ پر مشتمل رقبے پر پھیلا ہوا ہے جب کہ سالانہ 3ملین ٹن اسٹیل پراڈکٹ دینے والا یہ پلانٹ 390.10ایکڑ پر قائم ہے ۔پھر ایسا بھی نہیں کہ ملک میں اسٹیل پروڈکٹس کی طلب میں کوئی کمی ہوئی ہے یا اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس وقت ملک میں موجود سیکڑوں نجی اسٹیل کارخانوں کی سالانہ گنجائش یا پروڈکشن اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں اسٹیل انڈسٹری کی شدید ضرورت ہے اور پبلک سیکٹر کا یہ پاکستان اسٹیل ملز پروجیکٹ تو ملک کی ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستان اسٹیل ملز کی آمدنی ملک کی تمام صنعتی کمپنیوں سے زیادہ رہی ہے ۔

لیکن ایک سازش کے تحت پہلے ادارے کو مس مینجمنٹ کے ذریعے گھوٹالے کا شکار کرکے خسارے میں لایا جاتا ہے ۔ پھر دوسرے مرحلے پر پروڈکشن میں کمی یا پھر سِرے سے پروڈکشن روکی جاتی ہے ، جس کے بعد پلانٹ یا ادارے کو Non-operational کرکے ادارے پر اخراجات ، تنخواہوں ، یوٹیلٹیز اور مالیاتی اداروں کے قرضہ جات کا بوجھ بڑھایا جاتا ہے۔

جس کے بعد ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں خیرات کی طرح پیسے دینے کے لیے ادارے کو قومی خزانے سے سبسڈی یا خصوصی گرانٹس دی جاتی ہیں ۔ اور یہ سلسلہ چلتے چلتے اُس نہج پر پہنچایا جاتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے مالیاتی اداروں ، حکومتی حلقوں اور سرمایہ دارمافیا کی جانب سے ادارے کو فروخت کرنے کی مہم چلاکر رائے عامہ تیار کی جاتی ہے تاکہ جب اس ادارے کو فروخت کرنے کا اعلان ہو تو نہ کوئی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں ہو جو اس کے آڑے آسکے ، نہ مزدور و ملازمین موجود ہوں جو لیبر لاز کی بات کریں یا پروجیکٹ کے اثاثوں اور پلانٹ کی مالیت و اہمیت کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کسی عدالتی فورم پر چیلنج کرسکیں۔

جب کہ قرضہ جات کے بوجھ کا بہانہ اس بلندی پر پہنچایا جائے کہ اگر کوئی حکومت اُس پروجیکٹ کو چلانے کی بات کرے تو وہ کوئی بھی قلیل المیعادحل کی آسان اسٹرٹیجی دینے کی پوزیشن میں نہ ہو ۔ اس لیے سرمایہ دار مافیا نے مشرف دور میں اسٹیل ملز کی نجکاری کی سازش میں ناکامی کے بعد ملک کے اس انمول اثاثے کو خسارے میں لانیوالے ان تمام مراحل پر بڑے شاطرانہ طریقے اور اداروں کی ساز باز سے عمل کروایا ۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگاکر اقتدار میں آنیوالی موجودہ حکومت میں ہوسکتا ہے ملک میں چھوٹی چھوٹی کلرک ولوئر بیوروکریٹس سطح کی کرپشن میں کمی ہوئی ہو لیکن ملک میں اداراتی و اعلیٰ سطح کی کرپشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ جس میں خود حکومتی قیادت کے ساتھی ملوث ہیں۔

وزیر اعظم اُن پر برہمی کا اظہار بھی کرچکے ہیں لیکن اُن کے خلاف کارروائی اُن کے بس میں نظر نہیں آتی ۔ پھر حکومت کے پاس ترقی کی شرح میں اضافے کے لیے کوئی اسکیم نہیں ۔ وہ ایک طرف ملک پر بیرونی قرضہ جات کا بوجھ بڑھاتی جارہی ہے تو دوسری طرف اُس نے رواں سال ملکی ترقیاتی بجٹ یعنی مجموعی PSDPمیں بھی 101ارب روپے کی کمی کردی ہے ۔

اس نہج پر پہنچنے کی وجوہات دیکھنے کے لیے ذرا سا ماضی کی ملکی معاشی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ملک میں جاری پرائیوٹائیزیشن کی سازش سے قبل ملک کے تمام تر قومی ادارے بیش بہا منافع میں چل رہے تھے ، ملک ترقی کررہا تھا ، ملکی جی ڈی پی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔ زر ِ مبادلہ میں اضافہ اور گردشی قرضوں کی شرح میں قابل ذکر کمی نظر آنے لگی تھی۔نجکاری کا مسئلہ صرف پاکستان اوراُس کے کسی ایک دو اداروں کا نہیں ، اس وقت یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔

محنت کشوں نے سالہا سال جدوجہد کرکے جو حقوق حاصل کیے تھے ، وہ چھیننے کی کوششیں ہورہی ہیں ، جن میں ’’روز گار کا حق، پینشن کا حق ، مفت علاج کا حق ، بچوں کی مفت تعلیم کا حق وغیرہ ‘‘ شامل ہیں ۔ اس کے بدلے کنٹریکٹ مزدور اور یومیہ اُجرت یعنی دہاڑی پر مزدور رکھنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ آج عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، WTO واشنگٹن کنسینسز کے نام پر پالیسی لاگو کروارہے ہیں۔ ان پالیسیوں کو نجکاری ، ڈاؤن سائیزنگ ، ڈی ریگیولیشن کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

ان معاشی پالیسیوں کی بناء پر دنیا میں جو بے چینی موجود ہے وہ مختلف ملکوں میں تحاریک کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے۔ خصوصاً لاطینی امریکا میں غربت میں اضافہ اور محرومی نے جنم لیا ہے اور یہ غربت و محرومی بغاوت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس صورتحال سے ہوسکتا ہے امریکا جیسا طاقتور اور مضبوط معیشت کا حامل ملک نبرد آزما ہوسکے لیکن پاکستان جیسا غیر مستحکم اور کمزور معیشت و کمزور انتظامی ڈھانچے کا حامل ملک قطعی یہ جھٹکا برداشت نہیں کرسکے گا۔ اس لیے اسلامی سوشلزم وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ویسے بھی اب صرف چین اور روس ہی سوشلسٹ نظام کا حصہ نہیں ہیں بلکہ Capitalismکے حامی امریکا کی جنوبی ریاستوں میں بھی سوشلزم رائج ہے اور وہاں اب کئی گیس اور پیٹرولیم و دیگر صنعتیں قومی تحویل میں لی جاچکی ہیں۔

ایسے عالمی سطح پر تبدیل ہوتے ماحول میں پرائیوٹائیزیشن کرنا سنگین غلطی ہوگی ۔ جب کہ سبق آموز بات یہ ہے کہ فرینچ سرمایہ داروں کے ایک خاص نمایندے چارلس ڈیگال نے کبھی کہا تھا کہ ’’محنت کا سرمایہ سے اتحاد نہیں ہوسکتا ، عوام کا حکمرانوں سے الحاق نہیں ہوسکتا ، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، ایک کا وجود دوسرے کے لیے اذیت اور عذاب ہے ، اُن کے طبقاتی مفادات ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں ‘‘۔ یہ یورپی ممالک کی نظریاتی جنگ کے دوران کہی گئی بات تھی لیکن ہمیں بطور اسلامی ریاست یہ دیکھنا ہے کہ دونوں میں سے زندگی اور انسانیت کے لیے کس وجود ضروری ہے، محنت کا یا سرمائے کا؟

خلفائے راشدین کے زمانے کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ ریاست ِ مدینہ کا نظام محنت کش و عوام دوست قومی پالیسی پر مبنی تھا ، جسے بعد میں مارکس اور لینن نے سوشلسٹ نظام کا نام دیا ۔ چونکہ پی ٹی آئی حکومت اُسی ریاست ِ مدینہ کی طرز اختیار کرنے کا نعرہ لگاتی ہے ، اس لیے اُسے اسٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کی پرائیوٹائیزیشن سمیت دیگر سرمایہ دارانہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ملک کو حقیقی معنوں میں عوام و محنت کش دوست اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے ۔

کہتے ہیں کہ ریاست کا بنیادی فرض عوام کی بنیادی سہولیات ، امن ، تحفظ ، ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا ہوتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پر سرمایہ دار مافیا قابض ہے جو غریب کسان و محنت کش عوام کے وجود کو برداشت نہ کرنیوالے چارلس ڈیگال کے مندرجہ بالا الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔