کورونا وبا میں پاکستانی خواتین کے مسائل

ڈاکٹر زمرد اعوان  پير 29 جون 2020
کووڈ۔19 کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر گھریلو تشدد  میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کووڈ۔19 کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

15 اپریل 2020 کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے ٹویٹر پر کورونا وائرس کے بعد تمام دنیا میں شدت اختیار کرتے گھریلو تشدد کے واقعات کی طرف توجہ دلائی۔

کووڈ۔19 کے بعد ایسے واقعات ناصرف ترقی پذیر ممالک (جہاں یا تو گھریلو تشدد کے قوانین سرے سے موجود ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو ان پر سماجی دباؤ کی وجہ سے عمل درآمد کمزور ہے) میں بڑھے، بلکہ ترقی یافتہ معاشروں (جہاں پر فعال قوانین موجود ہیں) میں بھی شدت اختیار کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس صورت میں پاکستان، جہاں عمومی طور پر سماجی رویے گھریلو تشدد کو ذاتی معاملہ قرار دیتے ہوئے دخل اندازی سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں، وہاں وبا کے بعد حالات مزید بگڑ رہے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تو کورونا کی وجہ سے سماجی دوری اختیار کرتے ہوئے مرد حضرات کا زیادہ وقت گھر میں گزارنا ہے۔ دوسری وجہ خواتیں چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، سے گھریلو کاموں میں بہترین کارکردگی کی توقع ہے، جو بالخصوص کورونا کے بعد گھریلو ملازمین کی عدم موجودگی میں پوری کرنا قدرے مشکل ہوگئی ہے۔ یہ صورت حال نوکری پیشہ خواتین کےلیےزیادہ پریشانی کا باعث ہے، کیونکہ ایک طرف وہ اپنے پیشے سے متعلق ذمے داریوں کو گھر میں بیٹھ کر پورا کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ دوسری طرف انھیں گھر کے کاموں کو بھی احسن طریقے سے نمٹانے کی فکر ہوتی ہے۔

ان حالات میں، پاکستان جیسے معاشروں میں صنفی تفریق اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہاں عام طور پر خواتین کو سماجی برابری حاصل نہیں اور ان کی قابلیت جانچنے کا واحد معیار اکژ محض گھر کی ذمے داریاں پورا کرنا ہی ہوتا ہے، قطع نظر اس کہ وہ پیشہ ورانہ طور پر کتنی ہی مہارت یافتہ ہوں۔

اس حوالے سے حال ہی میں کورونا وبا کے پس منظر میں گھریلو معاملات سے متعلق فیس بک پر 28 ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے ایک سماجی گروپ کا بحث و مباحثہ پڑھنے کا موقع ملا۔ جس میں مشترکہ کنبے میں رہنے اور شوہر کے گھر پر زیادہ قیام کی وجہ سے خواتین نے ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کا اظہار کیا۔ اسی گروپ میں ایک خاتون نے اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے تجویز مانگی کہ وہ کس طرح کا برتاؤ اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والے شوہر سے کرے؟ جبکہ وہ سارے گھر کی صفائی کرتی ہے، کھانا پکاتی ہے، اپنے شوہر کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اس سب کے ساتھ وہ سسرالیوں کے طنز و مزاح کا نشانہ بھی بنتی ہے۔

کورونا کے بعد پاکستانی خواتین کو درپیش دوسرا اہم مسئلہ تعلیم کا فقدان ہے۔ اگرچہ بہت سے تجزیہ کاروں کے بقول یہ صنفی نہیں، لیکن اگر ان دیہاتی لڑکیوں کو دیکھا جائے جو میلوں سفر طے کرکے سرکاری اسکولوں تک پہنچتی تھیں، اس وبا کے بعد کئی مشکالات سے دوچار ہیں۔ اسکول سے براہ راست منسلک ہونے کی وجہ سے جو پہلے تعلیم سے جڑی ہوئی تھیں، اب گھر میں ہیں تو گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ بھی اٹھانے پر مجبور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سرکاری اسکولوں کا آن لائن تعلیم سے نابلد ہونا ہے۔ یہ صورت حال لڑکیوں کےلیے اس وجہ سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے کہ جب بھی غریب گھرانوں میں معاشی تنگدستی میں تعلیم جاری رکھنےکا موضوع زیر بحث آتا ہے، تو قطع نظر قابلیت کے، ہمیشہ لڑکوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی شرح خواندگی ملک میں 70 فیصد، جبکہ خواتین کی 48 ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ لڑکیاں جو آن لائن تعلیم سے منسلک بھی ہیں، گھر کے کام کاج کی ذمے داری بھی اٹھانے پر مجبور ہیں، جس سے نمایاں طور پر ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔

تعلیم کی طرح، کورونا وبا کے بعد خواتین کی صحت کے حالات بھی قدرے مخدوش صورت اختیار کرگئے ہیں۔ خاص طور پر ان حاملہ خواتین کےلیے جو باقاعدگی سے طبی معائنے کی منتظر ہیں، لیکن کورونا وبا کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ اسپتالوں پر وبا کے باعث پہلے سے ہی دباؤ ہے اور اس صورت میں بالخصوص معاشی طور پر کمزور طبقے کی خواتین کی طبی سہولیات تک رسائی مزید دشوار ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 49 سال کی 48.1 فیصد خواتین کی طبی سہولیات کے استعمال پر کوئی ذاتی ترجیح نہیں۔ ان حالات میں دیہی خواتین جو پہلے ہی مختلف وجوہات کی بنا پر طبی سہولیات حاصل نہیں کرسکتیں، اس وائرس کے بعد مزید مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

تعلیم و صحت کے علاوہ خواتین کو درپیش ایک اور اہم مسئلہ روزگار کی فراہمی ہے۔ اگرچہ کورونا وبا کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی بے روزگاری کی عمومی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کا شکار بالخصوص وہ خواتین ہیں جو غیر رسمی پیشوں سے منسلک ہونے کی وجہ سے تحفظ ملازمت سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر پہلے سے ہی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ انتہائی غربت کا سامنا ہے۔ یہ شرح اس وبا کے بعد تمام ممالک میں بڑھ گئی ہے۔ اس کا شکار زیادہ تر گھریلو کام کاج سے منسلک خواتین ملازمین ہیں۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ چاہے کوئی وبا ہو یا جنگی صورت حال، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا آسان شکار خواتین ہی بنتی ہیں۔ ایسا ان معاشروں میں زیادہ دیکھنے میں آتا ہے، جہاں پہلے سے ہی عورتوں کے خلاف صنفی رویے اور قوانین پائے جاتے ہیں۔ سب سے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں حکمران طبقہ بھی اپنی حکمت عملی میں صنفی معیار کو ملحوظ خاطر نہیں لاتا۔ جس کی وجہ سے پہلے سے کمزور افراد مزید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔