آنے، جانے والے دن

نسیم انجم  ہفتہ 14 دسمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ماہ و سال کی گردش رفتار زمانہ کو آگے کی طرف دھکیلتی رہتی ہے، وقت تیز رفتار پرندے کی مانند اڑتا چلا جاتا ہے، اسی طرح صدیاں بیت جاتی ہیں۔گزرنے والا ہر برس دکھ، سکھ کی بے شمار مالائوں کو اہل بصیرت کے سپردکرجاتا ہے کہ وہ غوروفکرکے موتی رولیں اور ایسا کچھ کمال حاصل کریں کہ آنے والے دنوں میں ہر شخص چین کی بانسری بجائے اور امن کی آس کے گیت الاپے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل علم و دانش اور صاحب فکر کچھ کرنے کو تیار نہیں، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی طرح اپنے ہی مفاد کی مالا جپنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے کسی بھی طالب علم کو حوصلہ، حب الوطنی، ایثار و ہمدردی کے جذبوں سے محروم ہونا پڑتاہے۔ خود غرضی نے ہر شخص کو  اعلیٰ صفات سے محروم کردیا ہے بلکہ ضرورت مندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کے لیے کامیابی و خوشی کے دروازوں کو بھی بند کردیاہے۔

اسی وجہ سے آج پاکستان میں ہر شخص پریشان حال ہے، ہر گزرنے والا سال اسی قسم کے خاردار تحائف دے کر رخصت ہوجاتاہے،نیا سال بہت سی امیدوں کی کلیاں لوگوں کے دامن میں فراخ دلی کے ساتھ ڈال کر نمودار ہوتا ہے لیکن یہ کلیاں پھول بننے کی بجائے مرجھا جاتی ہیں، پھول بننا ان کے مقدر میں نہیں لکھا ہوتا ہے۔ مقدر بنانا بھی انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن قسمت سنوارنے کے مواقعے میسر نہیں آتے۔ بہرحال دوہزار تیرہ کا سورج غروب ہونے کے قریب قریب ہے دو ہزارچودہ کا سال منظر عام پر آنے والا ہے۔گزرے برسوں میں کیا کھویا،کیا پایا؟ اس سوال کا جواب سب کو معلوم ہے کہ کھویا ہی کھویا ہے۔ پایا کچھ نہیں، ہمیشہ کی طرح دو ہزار تیرہ میں جنرل پرویز کیانی اور چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی بھی اہم ترین ذمے داریاں اپنے انجام کو پہنچیں اور ملازمت کی مدت ختم ہوئی۔

ان گزرے برسوں میں ان اعلیٰ حضرات نے کتنے اہم امور انجام دیے اس حقیقت سے سب واقف ہیں۔ عوام کو توقعات تو بہت تھیں جو کہ پوری نہ ہوئیں حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل بھی گرفتار نہ ہوسکے اور نہ ہی باہر بھیجنے والی دولت کو واپس لایاگیا۔ پاکستان اسی مفلوک الحالی اور فقیری کا شکار رہا۔ کاسۂ گدائی کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں، ڈرون حملوں کے بدلے میں شاید ڈالر کا سودا مہنگا نہیں پڑتا ہے۔ انسانی جانیں ضایع ہوئیں تو اس بات سے کسی کو مطلب نہیں ہے کہ انسان تو پیدا ہوا ہے مرنے کے لیے پھر فانی انسان کا دکھ کرنا بھی حماقت سے کم نہیں، اب اگر عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلائی ہے تو امریکا نے دفاعی امداد کو روکنے کا پیغام ببانگ دہل دیا ہے۔ امریکا نے صاف لفظوں میں کہاہے کہ امداد کے بدلے نیٹو سپلائی کی محفوظ نقل و حرکت چاہتے ہیں۔

امریکی وزیر دفاع چیک ہیگل نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے علاقائی (خیبر پختونخوا) حکام نے نیٹو سپلائی روکنے کا عمل جاری رکھا تو اس طریقہ کار سے امریکا کی اعلان کردہ اربوں ڈالر کی عسکری امداد خطرے میں پڑسکتی ہے۔ صاحب اقتدار واختیار اس بات کو بالکل پسند نہیں کریںگے کہ امریکا فوجی امداد بند کرے، بیانات بھی دیے جارہے ہیں کہ بے شک ہمارے معصوم لوگوں اور ان کے گھرانوں کو تباہ وبرباد کردیاجائے اور ان کے جسموں کے پرخچے اڑادیے جائیں۔ معصوم بچے دردناک موت سے ہمکنار ہوں یہ مسئلہ حکومت کا نہیں ہے۔ نیٹو سپلائی کو تو جانا ہی ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے ساتھ ہی پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر ڈرون حملوں کی مخالفت کی ہے لیکن مخالفت کے باوجود حملوں میں کمی نہیں آئی ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ حملوں کے باعث پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ہم اقوام عالم کے ساتھ مل کر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ڈرون حملوں کی بجائے ایسے طریقے استعمال کررہے ہیں جن کے منفی اثرات نہ ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہماری معیشت متاثر ہوئی ہے۔ انھوںنے یہ بیانات یورپی یونین کے سفیروں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں دیے ۔سال کے اختتام پر پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان حیرت انگیز ہے کہ ہماری معاشی پالیسی کی بنیاد روٹی، کپڑا اور مکان ہے۔ وفاقی حکومت بتائے اس کی پالیسی کیا ہے؟ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے فرمایا کہ ہم سندھ کی خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دے رہے ہیں۔

بلاول بھٹو کے مذکورہ بیان پر اگر غور کریں تو یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں اور یہ سچائی بھی ہے کہ سندھ کے عوام کو نہ روٹی میسر آئی اور نہ تن ڈھانپنے کے لیے موسموں کے اعتبار سے کپڑے اور سر چھپانے کے لیے ایک ایک کمرے کا پکا مکان بھی نہیں ملا۔ یہ نعرہ بہت پرانا ہوچکا ہے اور اس کی اہمیت نعرے تک ہی محدود رہی ہے، دروغ گوئی اور غرباء و مساکین کو جھوٹا آسرا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بات بھی پریشان اور حیران کن ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی ایک ہزار کی رقم اس مہنگائی کے طوفان میں ایک کمزور تنکے سے کم نہیں، بے چارے گائوں دیہات سے آئی ہوئی بیوہ عورتیں ،ضعیف و ناتواں مرد دفتر پر پتہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ دفتر کہاں پر واقع ہے، اسی طرح زکوٰۃ و خیرات لینے والے ضرورت مند حضرات کا بھی یہی حال ہے وہ بھی ان دفاتر کے چکر کاٹتے اور ایڈریس ڈھونڈتے ہوئے تھک جاتے ہیں، آخر ناکام ہوکر گھر کی راہ لیتے ہیں، مقروض الگ ہوجاتے ہیں کہ شہر کراچی آنے کے لیے بسوں کا کرایہ بھی درکار ہوتاہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ جہاں مختلف چینلز پر پروڈکٹ کی فروخت کے لیے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں وہاں یہ بھی ممکن تھا کہ ان افلاس زدہ باعزت لوگوں کے لیے اشتہارات کے ذریعے مکمل پتہ اور فون نمبر اور رقم کے بارے میں آگاہی دے دی جاتی کہ حکومت سندھ اپنے چاہنے والوں کو ماہانہ اخراجات بے نظیر انکم سپورٹ کی شکل میں کتنا ادا کرے گی۔ اس طرح یہ ہوتا کہ چلچلاتی دھوپ میں مارے مارے لوگ نہ پھرتے، اتنے معمولی پیسوں کے لیے اس قدر صعوبتیں؟ یہ قلیل رقم ان کی رہائش گاہ پر بھی ادا کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اب رہی پلاٹوں کی قرعہ اندازی جو کہ بلاول بھٹو کے ہاتھوں ہوئی ہے اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ حق دار کو اس کا حق مل جائے گا؟ یہاں تو سالہا سال سے حالات ایسے چل رہے ہیں کہ اعتبار جاتا رہا ہے۔

اندرون سندھ کے شہریوں کا حال بے حد ابتر ہے، مکین جھونپڑیوں نما گھروں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تعلیمی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری اسکول ہیں تو اساتذہ غائب اب رہی بات عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کی تو یہ معاملہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ خواتین کو کس قدر ان کی جائز آزادی حاصل ہے۔ آج بھی خواتین کا اسی طرح استحصال ہورہاہے جیسا پہلے تھا۔ اگر اسے وہ حقوق تفویض کردیے جائیں جو اسلام نے دیے ہیں تو عورت کی عزت و حرمت میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔

گزرے سال میں کراچی کے تقریباً ہر علاقے میں ٹارگیٹڈ آپریشن جاری رہا، بقول سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل میمن کے کراچی آپریشن میں 10ہزار جرائم پیشہ افراد پکڑے گئے۔ یہ بات بھی حیرت میں مبتلا کرتی ہے کہ اس قدر ملزمان اور ٹارگٹ کلر گرفتار ہونے کے باوجود حالات جوں کے توں نظر آتے ہیں۔ ہر روز شہری قتل ہورہے ہیں، ڈاکہ رہزنی، اغوا برائے تاوان جیسے جرم بھی کیے جارہے ہیں یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ ملزم کہاں جاتے ہیں؟ ان کی سزائوں کے بارے میں شہری لا علم رہتے ہیں۔

موجودہ وفاقی حکومت نے بھی پاکستان کے عوام کو مزید مایوسی اور غربت سے ہمکنار کیا۔ مہنگائی کے نہ رکنے والے طوفان نے عوام کے چولہے ٹھنڈے کردیے اور خودکشی پر لوگ مجبور ہوگئے اور پھر ٹیکسوں میں اضافہ حتیٰ کہ موبائل تک کے ٹیکس مزید بڑھ چکے ہیں۔ اب 2014کا سورج طلوع ہونے میں زیادہ وقت نہیں ہے۔ امیدیں پھر گلے لگانے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اﷲ کرے آنے والے دن جانے والے دنوں سے اچھے ثابت ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔