اقوام متحدہ اسی طرح ناکام ہو چکی جیسے دوسری جنگ عظیم سے پہلے لیگ آف نیشنز ہوئی تھی

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 30 اگست 2020
کشمیر اور فلسطین کو بزور طاقت ہتھیانے کا کھیل کھیلا جا رہاہے، اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے خصوصی سلسلے کی آخری قسط ۔  فوٹو : فائل

کشمیر اور فلسطین کو بزور طاقت ہتھیانے کا کھیل کھیلا جا رہاہے، اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے خصوصی سلسلے کی آخری قسط ۔ فوٹو : فائل

( آخری قسط)

3500 قبل مسیح یعنی آج سے ساڑھے پا نچ ہزار سال پہلے سمیریوں نے نہ صرف حروف تہجی ایجاد کر لیے تھے بلکہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔

تقریباً 2000 قبل مسیح حمورابی نے اپنی مملکت اور اس میں رہنے والوں کے لیے انسانی فکر ودانش کی بنیاد پر ضابطہ اخلاق وضع کیا تھا۔ پھر ایران ، یونان اور روم دنیا کی بڑی طاقت کہلائے اس کے بعد عرب سے اسلام اُٹھا اور مسلمان پندرویں صدی تک یہ دنیا کی بڑی طاقت بنے رہے۔

اس دوران چنگیز خان ،ہلاکو خان ،کبلائی خان نے تھوڑھے عرصے کے لیے عالمی سطح پر قوت حاصل کی مگر اِن کی قوت اور اقتدار کا یہ انداز انفرادی اور مختصر دورانیے کا رہا۔ جہاں تک تعلق چین اور ہندوستان کا ہے تو یہ دونوں ملک بیرونی فتوحات کے اعتبار سے قابل ذکر نہیں البتہ تہذیبی اعتبار سے ان کی اہمیت رہی۔ سولہویں صدی عیسوی سے یورپ نے علم و تحقیق اور سائنس وٹیکنالوجی کی بنیاد پر تر قی کی تو صنعتی پیداواری عمل تیز ہو نے لگا اور صنعت و تجار ت کے ملاپ سے ہزاروں سال کا تہذیبی عمل تبدیل ہو گیا۔

اس دور کا نام نو آبادتی دور ہوا اوراس دور کے آغاز یعنی 1492 میں ہی اسپین میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اسی سال اسپین کی ملکہ ازیبلا کی مالی معاونت سے کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ کی نئی سر زمین دریافت کر لی یوں آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے پوری دنیا کا نقشہ بھی مکمل ہو کر سامنے آگیا۔ کون جانتا تھا کہ چار صدیوں بعد یہی امریکہ دنیا کی سپر پاور بن جائے گی۔

اِس سے پہلے کی دنیا براعظم ایشیا ، افر یقہ اور یورپ پر مشتمل تھی اور امریکہ ،کینڈا، آسٹریلیا، لاطینی امریکہ کے خطوں سے نا آشانا تھی۔ گورے یہاں پہنچے تو ہزاروں برس سے آباد مقامی باشدوں ریڈ انڈینز کی نسل تقریباً ایسے ہی ختم ہو گئی جیسے اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سال حکومت کے بعد وہاں سے اُن کی نسل ختم کردی گئی اور اس کاسالانہ جشن گذشتہ پانچ سو سال سے اسپین میں منایا جاتا ہے۔ یہ تاریخ کے وہ تلخ حقائق ہیں جن کو اگر قومیں سمجھ لیں تو اُن کا مستقبل کسی حد تک محفوظ ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی دریا فت 12 اکتوبر 1492 میں اسپین کے کولمبس نے کی۔ 1524 میں فرانسیسی مہم جُو Giovanni Verra Zano جیووانی ویرازانوکیرولینا سے شمال کی طرف بڑھتا ہوا نیویارک میں داخل ہوا۔ 1579 فرانسسز ڈریک Francies Drake فرانسسکو کی خلیج میں داخل ہوا اور پھر نیویارک پہنچا اور ایک بر طانوی نو آبادی کی بنیاد رکھی۔1607 میں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہیوں کے ساتھ ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جمیز ٹائون کے نام سے برطا نوی نو آبادی قائم کی۔

1624 تک البانی اور نیویارک کے علاقوں میں ولندیزی نو آبادیات نیدر لینڈ ز کے نام سے قائم ہو گئیں۔ اب ایک جانب تو یورپی یہاں پر قدیم مقامی امریکیوں ،،ریڈ انڈینز کا قتل عام کر تے رہے تو دوسری جانب یہ یورپی اقوام اس نئی سر زمین پر زیادہ سے زیادہ رقبے پر نو آبادیاں قائم کرنے کے لیے آپس میں بھی الجھتے رہیں۔ بر طانیہ کی نو آیادت میں ہندوستان اور شمالی امریکہ اہم تھے۔

ہندوستان میں مقامی آبادی غلام تھی اور اُن کی محنت ، پیداوار اورسرمائے کے علاوہ یہاں سے بھرتی کی جانے والی فوج کی بنیاد پر بر طانیہ نے دنیا پر نو آبادیا تی نظام کے حوالے سے فوقیت حاصل کی تھی لیکن یہاں امریکہ میں صورتحال ہند وستان سے مختلف تھی یہاں جو آبادی تھی وہ انگریز تھی جو دیگر یورپی قوموں کی طرح اپنے ساتھ افریقی غلاموں کو لائی تھی۔

یوں یہاں انگریز ہی آباد تھے جو تاج برطانیہ کو ہی مانتے تھے مگر وہ خود کو ہند وستان یا دیگر ایشیائی افریقی نو آبادیا ت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے۔ امریکہ کو نو آبادی سمجھتے ہو ئے یہاں سے ٹیکس وصول کیئے جانے کے احکامات پر عملدآمد شروع ہوا تو اس کے خلاف امریکیوں نے احتجاج کیا۔ 1770 میں چائے اور دیگر اشیا پر عائد ٹیکسوں کے خلاف احتجا ج کر نے والوں پرانگریزوں نے گولی چلائی اور پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔

1773 میں بوسٹن ،نیویارک اور فلاڈلفیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چائے کے جہاز واپس بھیج دئے گئے اور ایک جہاز کو آگ لگا کر چائے سمندر میں پھینک دی گئی ا س واقعہ کو بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔

5 ستمبر1774 کو فلاڈلفیا میں پہلی براعظمی کانفرنس ہو ئی اور بر طانیہ کے خلاف عدم تعاون کی قرارداد منظور کی گئی۔ 23 مارچ 1775 کو ورجینیاکنونشن میں پیٹرک ہنری نے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ Give me Liberty or give me Death ،،مجھے آزادی دو یا موت دے دو،،7 جون 1776 کو رچرڈ ہنری نے براعظمی کانفرنس میں قرارداد پیش کی کہ ان متحدہ نو آبادیات کو آزاد اور خود مختار رہنے کا حق حاصل ہے۔

2 جولائی کو یہ قرار دادمنظور ہو ئی اور 4 جولائی 1776 کواعلان خود مختاریDeclaration of Independence کی دستاویز پر دستخط ہو گئے۔ مارچ 1782 میں بر طانوی پارلیمنٹ نے امریکہ کی آزادی اور خود مختاری کو تسلیم کر لیا۔

1789 میں جارج واشنگٹن صدر منتخب ہو ئے اور1796 میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو ئے اُن کے بارے میں کہا گیا کہ first in war,first in peace,first in hearts of countrymen یعنی جنگ میں بھی اوّل امن میں بھی اوّل ،اپنے ہم وطنوں کے دلوں بھی اوّل۔ جارج واشنگٹن نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو تے ہو ئے قوم سے کہا تھا ،،کسی غیر ملکی حکومت سے کھبی بھی کوئی مستقل اتحاد نہ بنا نا، امریکہ کی آزادی کا اعلان کرنے پر دستخط کرنے والوں میں 56 عظیم انقلابی شامل تھے۔

یہ نہات آسودہ حال اور معزز لوگ تھے اُن میں سے14 قانون دان تھے، 13 عدالتوں کے جج تھے،11 تاجر 12 زمیندارایک پادری اور تین ڈاکٹر تھے اور اَن سب کو معلوم تھا کہ اس عمل کی سزا بر طانیہ کی جانب سے موت ہے اور ایسا ہی ہوا بیشتر کو سزائے موت ہوئی اور باقی کی جائیدا دوں کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر سزائوں کی وجہ سے اپنی موت سے پہلے ہلاک ہو گئے لیکن انہی کا لہو رنگ لایااور امریکیوں نے آزادی حاصل کرلی۔

امریکہ دنیا کا ایسا ملک ہے جس کی مو جودہ آبادی کا تاریخی ،ثقافتی اور تہذیبی پس منظر برطانیہ ، فرانس ، اسپین ، اور دیگر یورپی ملکوں کے علاوہ افریقہ اور جنگ عظیم اوّل کے بعد سے کچھ ایشائی اقوام سے جڑا ہوا ہے۔ مقامی امریکیوں ریڈ انڈینز کا سب سے بڑا قتل عام 1830 سے 1880 کے دوران ہوا۔ جب ریلوے کی توسیع ہو رہی تھی تقریباً چار کروڑ امریکی باشند ے ہلاک کئے گئے اِن کی ہلاکت کی بنیادی وجہ یہ تھی یہاں یورپی اقوام خصوصاً انگریزوں کی توپوں ، بندقوں اور بموں کے مقابلے میں ریڈانڈینز کے پاس تیر کمان اور نیزے تھے۔ 1777 میں کانگریس نے آرٹیکل آف کنفیڈریشن کو تسلیم کر لیا جس کے تحت تمام ریاستیں ایک لچکدار وفاقی حکومت کے تحت اکٹھی ہو گئیں۔

جون 1788 میں اکثر ریاستوں نے نئی حکومت کے قیام کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو تسلیم کر لیا۔ پھر جیسے جیسے نئی سر زمینیں وفاق میں شامل ہو تی گئیں ریاستی اختیارات اور وفاقی حکومت کے اختیار کے معاملات میں ا ختلافات سامنے آنے لگے۔

1804 میں تیرا ریاستوں میں غلاموں کی تجارت قانونی تھی مگر شمال کی ریاستوں میں یہ رحجا ن نہیں تھا۔ 1860 میں ابراہیم لنکن صدر منتخب ہو ئے تو جنوبی ریاستوں نے مل کر الگ حکو مت بنالی اور پھر1865 تک خانہ جنگی جاری رہی جس میں ابراہم لنکن یعنی منتخب وفاقی حکومت کو فتح ہوئی یوں جہاں اس خانہ جنگی سے غلام داری نظام کا خاتمہ ہوا وہیں یہ بھی واضح ہو گیا کہ امریکی آئین میں ریا ستوں کے وسیع اختیارات کے باوجود وفاق طاقتور ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں اگر چہ بر طانوی وزیر اعظم چرچل کی کوشش تھی کہ وہ جنگ کے آغاز ہی میں امریکہ کو اتحاد میں شامل کر لے مگر امریکی صدر باوجود چرچل کو یقین دہانیوں کے صرف تعاون اور دوستی کے بیانات ہی دیتے رہے یہاں تک کہ جب جاپانیوں نے امریکہ کے پرل ہار بر پر حملہ کیا تو پھر بھی امریکہ نے صرف جاپان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا، جرمنی کے خلاف نہیں، وہ تو ہٹلر نے خود چار روز بعد اپنے اتحادی جاپان کے حق میں اور امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا تھا۔

اگست 1945 میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرنے کے بعد 2 ستمبر کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے اور اکتوبر 1945 میں اقوام متحد کے قیام سے لیکر 1949 میں سابق سوویت یونین کی جانب سے کامیاب ایٹمی دھماکہ کر نے تک امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔

اس کی یہ حیثیت 1990-91 میں سابق سوویت یونین کے بکھر نے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دوبارہ بحال ہو گئی۔ مگر اقوام متحدہ کے قیام کے 25 سال مکمل ہو نے یعنی1970 تک پہلے چار سال تو امریکہ بطور دنیا کی سپر پاور سوویت یونین کے مقابلے میں مضبو ط ملک تھا۔

1949 میں دو واقعات رونما ہو ئے ایک یہ کہ سوویت یونین بھی ایٹمی قوت بن گیا، دوسرا یہ کہ چین انقلا ب اور مسلح جد وجہد کے بعد آزاد ہو گیا۔ بھارت بھی خود کو غیر جانبدارانہ ممالک کی تنظیم کا رہنما تسلیم کرواتے ہو ئے چین اور سویت یونین سے قریب تھا۔ 1960 کی دہا ئی سے امریکہ اور سوویت یونین کوریا ویت نام ،مشرق وسطیٰ اور کیوبا کے سرد جنگ کے محاذوں پر شدت کے ساتھ آمنے سامنے آئے مگر1970-71 میں اقوم متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں چین کے ویٹو پاور کی بحالی اور سوویت یونین اور چین کے تعلقات کی کشیدگی نے امریکی پالیسی میں ایک نئے انداز کی تبدیلی پیدا کی اُس نے کیمو نسٹ چین سے تعلقات کو بہتر کیا۔

1973-74 میں امریکہ اور سوویت یونین کی توقع کے خلاف عرب اسرائیل جنگ کے دوران اور اس کے فوراً بعد اسلامی ملکوں کے درمیان قدرے موثر اتحاد قائم ہوا جس میں پاکستا ن کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو لیبیا کے صدر کرنل قدافی اور سعودی عرب کے شاہ فیصل کا اہم کردار تھا۔ 1979 تک ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل نہیں رہے اور اسی سال سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کر دی۔

1979 میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں فوجی مداخلت کے بعد صرف آٹھ نو برسوں میں امریکہ پاکستان کے تعاون اور مدد سے سرد جنگ جیت گیا اور پھرامریکہ دوبار 1945 سے1949 کے عرصے کی طرح دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ امریکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مضبوط قلعہ ہے جس کو سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد عالمی سطح پر کسی اشتراکی نظام سے کو ئی خطرہ نہیں رہا تھاکیونکہ دنیا سے اشتراکی نظام ہی رخصت ہو گیا۔

کیمونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد بیشتر سابق کیمو نسٹ ملک بھی نیٹو اور یورپی یونین اور امریکی بلاک میں آگئے۔ 1995 میں جب اقوام متحدہ کے قیا م کی پچاسویں سالگر ہ گولڈن جوبلی منائی جارہی تھی تو روس تاریخ کے بڑے قومی اقتصادی بحران سے گذر رہا تھا جبکہ چین جو 1970-71 سے ایک خاص انداز کی عالمی مفاہمت اختیارکرکے یکسوئی اور مستقل مزاجی سے صنعتی اقتصادی ترقی کرتا رہا اور خصوصاً سرد جنگ کے فائنل راونڈ میں امریکہ اور روس کی کشا کش کو اپنے لیے دنیا میں سنہری موقع جانتے ہو ئے بھر پور انداز میں اس عرصے یا مدت سے مستفید ہوا۔

پاکستان نے 1971 میں ایک جانب چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بہتر بنانے میں اور چین کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور دوسری طرف افغانستان میں سوویت یو نین کی شکست اور سرد جنگ کے خاتمے کا سبب بھی پا کستان بنا مگر پھر 1991 سے دنیا میں اس نئی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ پا کستان ہی متا ثر ہوا۔ 1998 میں بھارت اور پا کستان ایٹمی قوت بن گئے۔ امریکہ اور سر مایہ دارانہ ممالک کے نیور ورلڈ آڈر کا تقاضہ تھا کہ امریکی منصوبے جلد از جلد پورے ہوں اور اس کی پالیسیاں امریکہ کی منشا کے مطابق پوری دنیا میں نافذ العمل ہوں۔

یہ اتفاق تھا سانحہ تھا یا کو ئی بڑی عالمی سازش کہ 11 ستمبر2001 کا واقعہ پیش آگیا اور اس موقع پر اقوا م متحد ہ اور سیکورٹی کو نسل نے مکمل طور پر امریکہ کا ساتھ دیا اور امریکہ اور نیٹو نے دنیا بھر میں مسلح کاروائیاںکیں لیکن 2014 تک روس اور چین کی پوزیشن کافی حد تک بہتر ہو ئی اور2017 تک صنعتی اقتصادی لحاظ سے دنیا پر یہ واضح ہو گیا کہ چین جلد دنیا کی سب سے بڑی صنعتی اقتصادی قوت بن جا ئے گا۔

اسی طرح روس نے خلائی ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ سازی میں دنیا میں سابق سوویت یونین کا کھو یا ہوا مقام حاصل کر لیا۔ امریکہ نے نیٹو سمیت اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ خطے میں بھارت کو چین کے مقابلے کھڑا کر دیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں شام ، عراق اور لیبیا میں روس ترکی اور ایران بھی خفیہ جنگ میں شریک ہو چکے ہیں۔

عراق میں ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد اب 18 اگست کی اطلاعات کے مطابق شام میں روسی جنرل ہلاک کر دیا گیا ہے اور 14 اگست 2020 کے مطابق سلطنتِ اومان کے بعد عرب امارات نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور یہاں ہمارے خطے میں 5 اگست 2019 سے بھارت نے کشمیر کے حوالے سے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کیا اور 35A کی حیثیت ختم کر کے کشمیر کو بھارت میں ضم کر نے کا اعلان کردیا۔

یوں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں جو دو مسئلے یعنی فلسطین اور کشمیر موجود تھے اُن پر امریکہ کی پشت پناہی سے اب طاقت کے بل بو تے پر وہ فیصلے کئے جا رہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن راٹئس ڈیکلریشن ہی کے خلاف نہیں بلکہ کشمیراور فلسطین کے لیے خود سیکورٹی کونسل کی قرادادوں کے بھی خلاف ہیں۔

چین اور بھارت کے درمیاں لداخ میں جھڑپ کے بعد جنگ کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی بحر ہند اور ساوتھ چائنا سی میں امریکہ کینڈا آسٹریلیا بر طانیہ بھارت اور دیگر اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر چین کا سمندر ی محاصر ہ کر رہا ہے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ امریکہ اس وقت بھی دنیا کی بڑی فو جی قوت ہے۔ بھارت جو اگرچہ علاقائی طور پر ایک بڑی فوجی قوت ہمیشہ سے رہا ہے اچانک چار پانچ برسوں میں عالمی سطح پرفوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے اب غالباً دوسرے نمبر پر ہے اور مجموعی طور پر بھارت آج دنیا کی چوتھی یا پانچویں فوجی قوت بن چکا ہے۔

2020 میں اقوام متحدہ کے قیام کو 75 سا ل پورے ہو رہے ہیں اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ بڑی قوتوں کے اپنے مفادات ہیں جن کے تحفظ کے لیے ہی سیکورٹی کو نسل کے پانچ ویٹو پاور ملک اقوام متحدہ کے کردار کو محدود کرتے ہیں اور اقوام متحدہ خود ا پنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط اور قوانین کے مطابق انصاف نہیں کر پا تا۔ سیکیورٹی کونسل کے ان پانچ ممالک کے درمیان دنیا میں جہاںاِن کے مفادات ٹکراتے ہیں اور براہ راست تصادم کے خطرات ہو تے ہیں عموماً وہاں سرد جنگ کی طرز پر پراکسی وار ہی چلتی ہے۔

نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شروع کے برسوں میں تو نہ صرف نٹیو ممالک امریکہ کے ساتھ تھے بلکہ دنیا کے تمام ممالک امریکہ کے طرفدار ہو گئے تھے حالانکہ نائن الیون کا حملہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی جانب سے پرل ہاربر کے حملے سے قطعی مختلف تھا اور حملے کا الزم جب افغانستان کی حکومت پر اسامہ بن لادن کی بنیاد پر عائد کیا گیا تھا تو اُس وقت کی طالبان حکومت نے الزام کی صحت سے انکار کیا تھا اور اس اعتبار سے اسامہ بن لادن پر افغانستان یا کسی تیسرے غیر جانبدار ملک میں تحقیقات کرانے اور مقدمہ چلانے کی پیش کش کی تھی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے امریکی موقف پر اب دنیا اقوام متحدہ میں ثبوت کی بنیاد پر امریکہ اور نیٹو کی جانب سے کئے گئے کئی اقدامات کے ناجائز ہو نے پر ثبوتوں کے ساتھ بحث کو تیار ہے۔

لیکن سیکورٹی کو نسل میں امریکہ ،برطانیہ اور فرانس ایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے مو جود ہیں۔ امریکہ کے صدر نے نومبر میں ہونے والے انتخابات سے قبل فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے 73۔72 برس پرانی صورتحال کو اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کی بنیاد پر بدلنے کی کوشش شروع کردی ہے اور اسکے لیے براہ راست ٹکرائو کی پالیسی بھی دکھائی جا رہی ہے تو آج یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوریا ، ویت نام جنگ یا کیوباکے میزائل بحران جیسے نازک مراحل ایٹمی ہتھیاورں کے استعمال کے بغیر طے ہو جائیں گے۔

یہاں یہ واضح کر نا ضروری ہے کہ اگست 2020 ہی میں روس نے یہ واضح کر دیا کہ اُس پر میزائلی حملہ ایٹمی حملہ تصور کیا جائے گا اس وقت دنیا کی چار ایٹمی قوتوں امریکہ برطانیہ ،فرانس اور بھارت کے ساتھ اسرائیل ، کینڈا ،آسٹریلیا ،جاپان ، کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو اپنے مفادات کے تحت منوانے کی خوفناک اسٹرٹیجی پر عملد ر آمد کر رہے ہیں جس سے عالمی انصاف اُسی طرح ایک بار پھر خطر ے میں آگیا ہے۔

جیسے دوسری جنگ عظیم سے پہلے لیگ آف نیشنز کا ادارہ عملی طور پر ختم ہو گیا تھا کیونکہ امریکہ کی آشیر باد سے جو فیصلے اسرائیل اور بھارت نے کر لئے ہیں اور جن کو منوانے کے لیے ایک جانب اقتصادی معاشی دبائو ڈالا اور ڈلوایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی طاقت کے استعمال کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک خاص انداز سے پراکسی وار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے وہ نہایت خطرناک ہے۔

یہ حربہ پاکستا ن اورایران کے بعداب ترکی ،ملائیشیا ،جیسے ملکوں کے خلاف بھی استعمال ہوگا جو اس صورتحال سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اِن حالات میں چین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اگر چین کو اسی طرح نقصان پہنچتا جیسے سوویت یونین کو پہنچایا گیا تھا تو امریکہ کے زیر اثر عالمی سرمایہ دارانہ اسٹبلشمنٹ اس کے بعد روس کو قطعی نہیں بخشے گی اور اس کا احساس روس کو ہے۔

اسی طرح ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اور سی پیک کی وجہ سے اب امریکہ ، بھارت اسرائیل اتحاد سے پاکستان کی سالمیت کو زیادہ خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور خدانخواستہ اگر پاکستان نہیں رہتا ہے تو اس کے بعد سرمایہ داروں کی یہی عالمی اسٹیبلشمنٹ بھارت جیسے بڑے اور بڑی آبادی کے ملک کو اس سائز میں نہیں رہنے دے گی بلکہ ایشیا اور افریقہ کے تمام ایسے ملک جو رقبے ،آبادی اور وسائل کے اعتبار سے مستقبل میں خود انحصار اور طاقتور ہو سکتے ہیں اور اِن کے ہاں آبادی، لسانی ، قومی ،نسلی ،لحاظ سے اور مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تنوع ہے اس کو تضاد میں بدل کر اِ ن ملکوں کو چھوٹے چھوٹے ملکوں تبدیل کر دیں گے۔

جہاں تک تعلق اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی یعنی 75 سال پورے ہونے پر آج کی دنیا کا ہے جس پر جنگ کے گہرے تاریک بادل تیزی سے چھا رہے ہیں اور یہ اندیشے بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ کہیں تیسری عالمی جنگ نہ چھڑ جائے تو تیسری عالمی جنگ پھر برسوں ، مہینوں اور دنوں کی بجائے چند گھنٹوں لڑی جا ئے گی اور دنیا کی ساڑھے سات ارب انسانی آبادی اس دنیا کے ساتھ ختم ہو جا ئے گی۔

اس لیے آنے والے دنوں میں بڑی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان ، مشرق وسطیٰ ، سنٹرل ایشیا، لا طینی ، امریکہ ، افریقہ ، اور جنوبی ایشیا یعنی بھار ت ،پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا، کے ممالک بنیں گے اور یہاں بھی اِن ملکوں میں ان کی معاشرتی ساخت کے اعتبار سے جو لسانی ، قومی ، نسلی ، اور مذہبی یا فرقہ وارانہ تنوع ہے یہ اب تیزی سے تضادات میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور اس میں مختلف ملکوں میں بڑی قوتیں اپنی اسٹرٹیجی کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اُن قواعد وضوبط اور قوانین کو بھی استعمال کر رہی ہیں جو پروپیگنڈہ کے ہتھیار کے طور پر برتا جا سکتا ہے۔

پا کستان کو بہت پیچیدہ اور صبر آزما صورتحال کا سامنا ہے مگر جہاں تک تعلق روس اور چین کا ہے تو امریکہ اور اُس کے اتحادی ملکوں کے مقابلے میں اِن دونوں ملکوں کی سما جی ساخت مضبو ط ہے۔ اگرچہ سوویت یونین میں اب بھی 10% مسلمان آباد ہیں مگر وہ چچنیا کے مسئلے پر قابو پا چکا ہے البتہ آنے والے دنوں میں سنٹرل ایشیا میں اور سنٹرل ایشیا سے پر اکسی وار کے خطرات ہیں۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے تو ہانگ کانگ میں اُسے کچھ مسائل کا سامنا ہے، باقی چین دینا کا سب سے منظم معاشرہ ہے ماضی قریب میں سنگ کیانگ ،،کاشغر میں بیرونی عناصر نے یہاں مقامی آبادی میں کچھ لو گوں کے ذریعے مداخلت کی کوشش کی تھی جو چینی حکومت کے مستحکم انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے ممکن نہیں رہی یوںاس اعتبار سے اگر جا ئزہ لیں کہ آنے والے دنوں میں اگر بڑی جنگ نہیں ہو تی اور پاک بھارت تین جنگوں یا عرب اسرائیل تین جنگوں کی طرز پر کسی بھی خطے میں جنگ ہوتی ہے تو یہ جنگ سرحدوں سے زیادہ شہروں میں خانہ جنگی ، فسادات یا خونریز احتجاج کی صورت میں اور ساتھ ہی دہشت گردی کے بڑے واقعات کی صورت میں ہو گی پاکستان کو ایسی جنگی صورتحال سے نمٹنے کا طویل ترین تجر بہ ہے۔

اب اگر معاشرتی تنوع کو تضادات میں بدلنے اور اس کو جنگی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر نے کا سوال ہے تو چین اور روس کے مقابلے میں بھارت اور امریکہ کے معاشرے کئی اعتبار سے معاشرتی تضادات کا شکا ر ہیں۔ بھارت دنیا میں آبادی کے اعتبار سے اب تقریباً سب سے بڑا ملک بنتا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا اعلان 2021 کی بھارتی مردم شماری میں کر دیا جائے۔ معاشرتی سماجی تنوع کے اعتبار سے بھی بھارت دنیا میں پہلے نمبر کا ملک ہے جہاں ماضی میں اسی سوچ کے تحت ہندو فلسفہ آزادی کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی کو آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندو نتھو رام نے قتل کیا۔

بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور وزیراعظم را جیو گاندھی قتل انہی بنیادوں پر قتل ہوئے۔ ہندوستان میں اس وقت بھی علیحدگی کی آٹھ تحریکیں چل رہی ہیں۔ پھر بھارت نے 18 % سے زیادہ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی اپنائی ہے جنکی مجموعی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے انتخابی اسٹرٹیجی کی بنیاد پر بھارت کی اسی کروڑ ہندو آبادی کوانتہائی درجے کے تعصب کے ساتھ مسلمان آبادی کے خلاف استعمال کر تے ہو ئے الیکشن تو دوسری بار جیت لیے ہیں مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے بھارتی متنوع معاشرے کو مذہبی نسلی قومی تعصب کی بنیاد بارود کے ڈھیر پر کھڑا کردیا ہے۔

اسی طرح امریکہ میں بھارت کی طرح بہت زیادہ معاشرتی سماجی تنوع ہے یہاں صرف نسلی قومی لسانی تنوع کی بنیاد پر دیکھیں تو امریکہ کی مجموعی آبادی میں 76.6% سفید فام اور یورپ کے بہت سے ممالک کی طرح اب امریکہ میں بھی سفید فام احساس برتری کی بنیاد پر نسلی تعصب بڑھانے کے لیے بعض تنظیمیں متحرک ہیں۔ 20 اگست 2020 کو اس کا ہلکا سا ارتعائش بحرین کی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے پرچم کو نذر آتش کر نے کے واقع سے ظا ہر ہوا ہے۔

اِس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا کے اہل فکر ودانش ایک ہو کر عالمی امن کو بچانے کی کوشش کر یں اور دنیا کی تما م طاقتوں کو اس پر آماد کریں کے آج 75 سال بعد اقوام متحدہ کو ناکام ہو نے اور دنیا کو تباہ ہو نے سے بچا لیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔