انقلاب کیسے آئے گا باؤ جی؟

شاہد کاظمی  منگل 22 ستمبر 2020
باؤ جی انقلاب لانے کےلیے تو نیت درکار ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

باؤ جی انقلاب لانے کےلیے تو نیت درکار ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عملی کوششیں مشکل سے مشکل مرحلے کو آسان بنانے کی جانب پہلا قدم ہوتی ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ آسان سا کوئی کام ہماری سستی کی وجہ سے سر انجام نہ دیا جاسکے۔ ہم سہل پسندی کا شکار ہوتے جائیں تو ہمارے ہونے والے کام بھی رکتے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں بھی یہی ازلی سہل پسندی اس وقت عملی طور پر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ موجودہ سیاستدانوں کو دیکھیے یا ماضی قریب سے سفر کرتے ہوئے ماضی بعید کی طرف چلے جائیے، اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ملتی ہے کہ جو اختیار ہوتے ہوئے کوشش کرتے نہیں اور جب اقتدار کا ہما کسی اور کے سر جا بیٹھتا ہے تو پھر نہ صرف واویلا شروع ہوجاتا ہے بلکہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیے جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت تک کیوں کہ ہاتھ کچھ نہیں رہتا لہٰذا ڈوبتے ہوئے تنکے کا سہارا بھی ملنے کی امید نظر نہیں آتی۔

قوم کو مایوسی سے نکالنا، انتخابی دھاندلی کے خلاف اقدامات کرنا، جوڑ توڑ کی سیاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا، عوام کو دھوکا دینے والوں کا محاسبہ کرنا، ڈکٹیٹرز کے ملک کو نقصان پہنچانے، آمریت کا راستہ روکنا، عوام کا حق حکمرانی نہ صرف ماننا بلکہ حقیقی معنوں میں عوام میں اس کا شعور اجاگر کرنا، متوازی حکومتوں کی نفی کرنا، ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے اس کے متوازی اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف کام کرنا، انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کی چوری کا خاتمہ، قوم کی بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا، بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا، اپنے دوست ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا، کسی بھی دوست ملک کےلیے بیان دیتے ہوئے عقل و شعور کے تقاضے تھامے رکھنا، عالمی برادری میں اپنا مقام مضبوط کرنا، مسلم اُمہ میں بہتر کردار، اور نجانے دیگر کتنے ہی اور وعدے، دعوے، اقدامات، فیصلے ایسے ہیں کہ جو ہمیں آل پارٹیز کانفرنس 2020 میں سننے کو نہ صرف ملے بلکہ میاں محمد نواز شریف کی لندن سے براہ راست تقریر میں ان تمام باتوں پر زور دیا گیا اور کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس دوران ان کی ویڈیو کا بیک گراؤنڈ بھی انقلابی رہے۔ اسی لیے ہمیں ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ جگمگاتا ہوا نظر آیا۔

چاچے دوسو سے میں نے پوچھا کہ چاچا! تمہارا کیا خیال ہے کہ پاکستان میں انقلاب آئے گا؟ تو چاچے دوسو نے نہایت سادگی سے مجھے جواب دیا ’’انقلاب کیسے آئے گا باؤ جی؟‘‘ چاچے دوسو کے جوابی سوال میں یقیناً میرے لیے بھی سوچنے کا مقام تھا۔ واقعی سوچنے کی بات ہے کہ انقلاب کیسے آئے گا۔ اور میں چاچے دوسو کا یہ سوال میاں محمد نواز شریف کے سامنے رکھ دیتا ہوں کہ انقلاب کیسے آئے گا، باؤ جی؟ کیوں کہ انقلاب لانے کےلیے تو نیت درکار ہے۔ انقلاب لانے کےلیے تو ثابت قدمی درکار ہے۔ انقلاب لانے کےلیے تو مشکلات و صعوبتوں کا ایسا سمندر عبور کرنا پڑتا ہے کہ بہت کم لوگ استقامت دکھا پاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نام کا بننا ہو تو ہر کوئی بن جائے، لیکن عملی طور پر نیلسن منڈیلا جیسی جہدوجہد معدودے چند افراد ہی دکھا پائے ہیں۔ خمینی ہر کوئی بن پاتا تو کیا ہی بات تھی، لیکن ایسا ہونا ناممکن سے کچھ قدم ہی پیچھے کا طرز عمل ہے۔ چی گویرا نوجوانوں کا ایک معروف انقلابی کردار ہے لیکن اکثریت تو اس کی جہدوجہد سے ناواقف ہوگی۔ تو واقعی بات وہیں پر آکر رکتی ہے کہ انقلاب کیسے آئے گا، باؤ جی؟

قوم کو واقعی مایوسی نے گھیرا ہوا ہے۔ لیکن کیا آپ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ آپ واحد رہنما ہیں جو عوام کو مایوسی سے نکال سکتے ہیں۔ اور کیا اس بات کی بھی ضمانت ہے کہ آج جو لب و لہجہ عوام کےلیے آپ کا اپوزیشن بینچوں پر ہے، کل کو حکومت ملتے ہی بدل نہیں جائے گا؟ دھاندلی کا سوال؟ بالکل درست بات ہے باؤ جی آپ کی۔ لیکن کیا آپ اس حقیقت سے نظریں چرا سکیں گے کہ بات تو چار حلقوں سے شروع ہوئی تھی، بات تو سر شام ہی فتح کا اعلان کرنے سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت، اگر آپ حقیقی معنوں میں دھاندلی کے خلاف ہیں، تو عملی طور پر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کیوں چار حلقے نہیں کھولے؟ جوڑ توڑ کی سیاست؟ بالکل! درست ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن پارلیمان، سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں میں کیا کوئی جوڑ توڑ آپ کے توسط سے نہیں ہوا؟ کیا کبھی آپ اس سیاست میں نہیں رہے؟ اگر وہ غلط تھا تو کیا آپ نے معذرت کی؟ یا پھر مخالفین کی جوڑ توڑ کی سیاست پر ہی آپ کو اعتراض ہے؟ اپنا کردار کب درستی پائے گا؟ اور آپ کے آج کے حلیف بھی تو جوڑ توڑ کے گرو ہیں۔ ان کے سامنے بھی کوئی نصحیت؟ یا زور صرف دوسروں پر؟ ڈکٹیٹر؟ کوئی شک نہیں ڈکٹیٹر کا ساتھ دینا جمہوریت کی نفی ہے۔ تو آغاز اپنی ذات سے ہی کر دیجیے کہ ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے پر ایک معافی ہوجائے؟

قوم کی بیٹی کے ساتھ موٹروے کا افسوس ناک سانحہ؟ درست ہے یہ بھی آپ کی فکر۔ لیکن کیا ایک لمحہ ماڈل ٹاؤن میں سڑک پر تڑپتی مستورات تو آپ کو یاد ہوں گی؟ جی جی! آپ کے بھائی صاحب مسند اقتدار پر تھے، تو اس پر معافی ہی ایک، کہ کم از کم لواحقین کو کچھ تشفی ہو؟ بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا۔ اس پر بھی آپ کی پریشانی بجا ہے۔ مان لیتے کہ حکومت کی نااہلی ہے لیکن جس نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے اس کی جانب بھی لفظوں کے کچھ تیر ہوجائیں؟ ابھی نہیں؟ جی بالکل ادھر پر جلتے ہیں محترم۔ شاہ محمود قریشی کے بیان سے دوست ناراض ہوگئے؟ یہ بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن کیا دوستیاں ذاتی حیثیت میں قائم بھی موجودہ حکومت نے رکھی تھیں ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے؟ وغیرہ وغیرہ۔

کیا کیا فسانے ہیں، کیا کیا سنائیں۔ کبھی اپنے گریباں میں جھانکنا اگر ہمارا قومی رویہ بنا دیا گیا تو یقین مانیے ہم میں سے بہت سے مارے شرمندگی کے سر نہیں اٹھا سکیں گے۔ لیکن کیا کیجیے کہ اس وقت بھی کوئی نہ کوئی تاویل ڈھونڈ لائی جائے گی۔ اعتراض نہیں ہے کہ جمہوریت کی بالادستی ہونی چاہیے۔ لیکن جناب عرض اتنی سی ہے کہ جب آپ کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو اس وقت آپ یہ کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ جب اپوزیشن میں ہوں اس وقت ہی انقلاب انقلاب کھیلنے کی یاد کیوں آتی ہے؟ انقلاب لانے کےلیے تو اپنا کردار بھی ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں کی معافی ہی مانگنی پڑتی ہے۔ لیکن انقلاب کےلیے کسی بھی قسم کی عملی کوشش کی نیت نہ ہوتے ہوئے بھی انقلاب کی خواہش اگر ہے تو ’’انقلاب کیسے آئے گا باؤ جی؟‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔