کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 18 اکتوبر 2020
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

غزل


اپنے ہونٹوں سے گل فشانی کی
آج اس نے بھی مہربانی کی
پھول کاڑھے پھر ان کو پانی دیا
میں نے تکیے پہ باغبانی کی
تتلیاں پھول جان کر آئیں
اس کی تصویر پر، جوانی کی
کس قدر پرسکون ہے دریا
یار تصویر کھینچ پانی کی
ایک کردار کو نکالنے سے
چاشنی بڑھ گئی کہانی کی
چند مشکل سے لفظ بولے اور
گاؤں والوں پہ حکم رانی کی
(امجد نذیر۔میلسی)

۔۔۔
غزل


جاں نکلتی بھی نہیں سانس اڑی ہوتی ہے
زندہ رہنے کی وہا ں شرط کڑی ہوتی ہے
بنا آ ہٹ کے مرے خواب پلٹ جاتے ہیں
نیند الجھن لیے پلکوں پہ کھڑی ہوتی ہے
جس گھڑی دے کے مجھے سانس بچایا اس نے
مرنے والوں کو وہاں اپنی پڑی ہوتی ہے
چلتے رہتے ہیں سبھی سلسلے دنیا کے مگر
ربط ٹوٹے کوئی تکلیف بڑی ہوتی ہے
موت ہر روز نگلتی ہے ہزاروں جانیں
اس سے بڑھ کر بھی قیامت کی گھڑی ہوتی
زندگی گم ہوئی جاتی ہے سحرؔ منظر سے
جس طرف اٹھے نظر موت کھڑی ہوتی ہے
(یاسمین سحر۔جہلم)

۔۔۔
غزل


رستہ رفتار کی مایوسی سے اٹ جاتا تھا
جب میں چپ چاپ تجھے مل کے پلٹ جاتا تھا
تھک کے مرتے ہوئے لوگوں کو میں روتا تھا بہت
ہر پڑاؤ پہ مرا قافلہ گھٹ جاتا تھا
کیا کشش تھی کہ مجھے چھوڑ کے جانے والا
دو قدم چلتا تھا پھر مجھ سے لپٹ جاتا تھا
چاند کی چاندنی شرما کے نکل جاتی تھی
شب کا سورج میرے ہاتھوں میں سمٹ جاتا تھا
شب خسارے کے حسابوں میں گزر جاتی تھی
دن ترے شہر کی دہلیز پہ کٹ جاتا تھا
یار لوگوں کے توسط سے وہ اب غائب ہے
ایک پتھر جو مری راہ سے ہٹ جاتا تھا
(راکب مختار۔ شور کوٹ)

۔۔۔
غزل


ایک تالاب ہے جو کائی سے بھر جائے گا
میرا کمرہ مری تنہائی سے بھر جائے گا
دور تک پھیلا ہوا دل کا یہ خالی منظر
دیکھتے رہیے کہ بینائی سے بھر جائے گا
پیڑ کی کھردری تہ بیل سے چھپ جائے گی
زخم ہے اور مسیحائی سے بھر جائے گا
جیسے میں اترا ہوں دریاؤں کی گہرائی میں
مجھ میں پانی اسی گہرائی سے بھر جائے گا
(قاسم حیات۔ منڈی بہاؤالدین)

۔۔۔
غزل


دکھتا ہے صاف صاف کہ کب تک ہے روشنی
جب تک وہ میرے ساتھ ہے تب تک ہے روشنی
اِس کہکشاں سے دور بھی ہونی ہے کہکشاں
اِس آسماں سے دور بھی سب تک ہے روشنی
روشن نہیں ہُوا میں کبھی بھیک مانگ کر
تب تک مرا وجود ہے، جب تک ہے روشنی
میں تیرگی کے دور کا پہلا چراغ ہوں
میں جانتا ہوں آج کی شب تک ہے روشنی
دل پر پڑی نگاہ تو یہ راز کھل گیا
یعنی مرے وجود سے رب تک ہے روشنی
راشد ہَوا سے میں نے کبھی ہارنا نہیں
تب تک دیے بناؤں گا جب تک ہے روشنی
(راشد علی مرکھیانی ۔ کراچی)

۔۔۔
غزل

اب فلک رول کے رکھ دے کہ سنبھالے ہم کو
کھا نہ جائیں یہ کہیں دن کے اجالے ہم کو
آج یہ کچا گھڑا ساتھ نہ دے پائے گا
اب کے دریا ہی کسی طور سنبھالے ہم کو
جان کے ساتھ اسے روح بھی دے دی اپنی
ہائے کیا ہونے لگے شوق نرالے ہم کو
کس قدر تنہا ہیں ہم آج تر ی دنیا میں
جس کا جی چاہے وہ سو، باتیں سنا لے ہم کو
تیری آواز پہ دل چاہے کہ دوڑے آئیں
روک لیتے ہیں ہما ؔپاؤں کے چھالے ہم کو
(سیدہ ہما شاہ۔ ہارون آباد)

۔۔۔
غزل


زندگی دُکھ سے عبارت نہیں کرنے والے
دردِ فرقت کو ہی عادت نہیں کرنے والے
اُن کی آنکھوں میں چمک دیکھی ہے میں نے اکثر
کیسے کہہ دوں وہ شرارت نہیں کرنے والے
ہم کوئی راہ نکالیں گے ترے ملنے کی
ہم ترے غم کی تلاوت نہیں کرنے والے
ہم محّبت کو عقیدت کی طرح رکھتے ہیں
ہم محبت میں تجارت نہیں کرنے والے
وہ کسی دکھ کا مداوا بھی کریں گے کیسے
وہ جو اظہارِ ندامت نہیں کرنے والے
وہ بھی مرتے ہیں تری ایک ادا پر ساجدؔ
وہ جو اظہارِ محبت نہیں کرنے والے
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)

۔۔۔
غزل


پتّے جھڑتے ہیں جب درختوں کے
یاد آتے ہیں دوست وقتوں کے
کارواں کے بنے ہیں وہ رہبر
جوکہ واقف نہیں ہیں رستوں کے
بادشاہی بھی کیا عجب شے ہے
تختے ہوتے ہیں پل میں تختوں کے
مانگنا ہے تو اپنے رب سے مانگ
چھوڑ انداز بُت پرستوں کے
زخم دل کے نہ گن سکو گے تم
سالوں، ماہوں کے اور ہفتوں کے
تیری یادیں ہیں یا کتابیں ہیں
یہ خزینے ہیں دل کے بستوں کے
شعر کہہ دو کبھی خوشی کے بھی
چھوڑو بزمی ؔ یہ نغمے دشتوں کے
(شبیر بزمی ۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


جہانِ تازہ میں تازہ نہیں رہا کچھ بھی
یہ مستعار ہے سب کچھ نہیں مرا کچھ بھی
نگاہ پھیر کے مجھ سے چلا گیا اک شخص
کہ کہہ نہ پایا وہ مجھ کو برا بھلا کچھ بھی
سکوتِ شب ہے گراں بار اس لیے مجھ پر
کہ اس جہان میں میرا نہیں رہا کچھ بھی
گلوں کی باس دماغوں کو کب جِلا دیتی
دماغ سن ہوں تو کرتی نہیں دوا کچھ بھی
نظر بھی سنگ مرا دل بھی سنگ ہے زاہدؔ
اثر پذیر وفا ہے نہ اب جفا کچھ بھی
(حکیم محبوب زاہد۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


نظر جھکا کے گزرنا جو میری عادت ہے
ملی ہوئی مجھے ورثے میں یہ شرافت ہے
دھڑکنے لگتا ہے دل یہ عجیب شدت سے
نگاہ ملنا بھی ان سے عجب مصیبت ہے
پھر اُس کے بعد یہ دل لمس مانگتا ہے میاں
حسین چہروں کو تکنا بڑی اذیت ہے
وہ زلف کھول دے اپنی کبھی جو محفل میں
تمام دیکھنے والے کہیں قیامت ہے
جو تیرے ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوں میں محفوظ
تو پھر بتا یہ تِری کیسی بادشاہت ہے
(طاہر تنولی۔ حسن ابدال)

۔۔۔
غزل


وہ فریادِ دلِ بیتاب سن کر کیوں نہیں بولے
سہانی شام کے خاموش منظر کیوں نہیں بولے
گواہی دے رہا ہے خون ننھے اُن شہیدوں کا
چھپے تھے آستینوں میں وہ خنجر کیوں نہیں بولے
نچاتی جا رہی ہے زندگی اپنے اشاروں پر
تماشائی بنی دنیا، قلندر کیوں نہیں بولے
اداسی خیمہ زن ہے آج کل دل کی زمینوں پر
خدا جانے محبت کے پیمبر کیوں نہیں بولے
مِری فریاد سن کے آسماں رویا زمیں کانپی
کبھی جن کو خدا جانا وہ پتھر کیوں نہیں بولے
لڑائی دشتِ ہجراں سے تھی یا پھر بخت سے سید
مسافر مر گئے پیاسے سمندر کیوں نہیں بولے
(سید وقار نقوی۔ کوکل حویلیاں، ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


فلک کہیں تو نہیں ہے زمیں کہیں تو نہیں
جہاں پہ کوئی نہیں ہے وہیں کہیں تو نہیں
میں سنگ پھینک کے دریا میں پھر یہ سوچتا ہوں
بھنور حیات کا میری یہیں کہیں تو نہیں
نہ تجھ کو مجھ سے گلہ تھا نہ مجھ کو تجھ سے گلہ
سبب جدائی کا طبعِ حزیں کہیں تو نہیں
شفق کو دیکھ کے اکثر گمان ہوتا ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی آستیں کہیں تو نہیں
کہیں تو ہوگی محبت کہیں تو ہوگا سکوں
یہ ظلم اور تشدّد نہیں کہیں تو نہیں
جدا جدا تھے مگر اب کے ایک ساتھ ہیں ہم
جو ایک ساتھ تھے اب وہ کہیں کہیں تو نہیں
(امتیاز انجم۔اوکاڑہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔