ہزاروں خلائی مخلوقات ہمیں دیکھ رہی ہیں... شاید!

ویب ڈیسک  ہفتہ 24 اکتوبر 2020
یہ تمام ستارے ہم سے 300 نوری سال تک دور ہیں جہاں سے کوئی ممکنہ خلائی مخلوق ہمارا مشاہدہ کرسکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ تمام ستارے ہم سے 300 نوری سال تک دور ہیں جہاں سے کوئی ممکنہ خلائی مخلوق ہمارا مشاہدہ کرسکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نیو یارک: کورنیل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک دلچسپ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ ہمارے ’’کائناتی پڑوس‘‘ میں کم از کم 1,004 ممکنہ سیارے ایسے ہیں جہاں خلائی مخلوقات موجود ہوسکتی ہیں؛ اور جو شاید خاموشی سے ہمیں دیکھ بھی رہی ہوں۔

اس مقصد کےلیے انہوں نے ’’ناسا‘‘ کے ’’ٹرانزٹنگ ایگزوپلینٹ سروے سٹیلائٹ‘‘ (TESS) کے مشاہدات سے استفادہ کیا۔ یہ مشن بطورِ خاص دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیارے ڈھونڈنے کےلیے ہی خلا میں بھیجا گیا ہے۔

پچھلے دو سال میں یہ مشن 74 فیصد آسمان کا مشاہدہ مکمل کرچکا ہے۔

جب ہم کسی سیارے کو ستارے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے ’’عبور‘‘ یا ’’ٹرانزٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ستارے کی روشنی چند گھنٹوں سے لے کر چند دنوں تک کےلیے تھوڑی سی کم ہوجاتی ہے؛ اور پھر معمول پر واپس آجاتی ہے۔

ٹرانزٹ کا اصول استعمال کرتے ہوئے ہم اب تک دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے ہزاروں سیارے دریافت کرچکے ہیں۔ تاہم یہ اصول تب ہی کارآمد رہتا ہے جب زیرِ مشاہدہ ستارے کا مستوی (plane) ہمارے نظامِ شمسی کے مستوی کی سیدھ میں ہو۔

قدرے آسان الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا ستارہ اور اس کے گرد گھومتے ہوئے سیارے، ہمارے نظامِ شمسی کے پہلو میں ہوں تو پھر ہم ٹرانزٹ کی وجہ سے اس ستارے کی روشنی میں ہونے والی باقاعدہ تبدیلی کے ذریعے ان سیاروں کی موجودگی کا پتا لگا سکتے ہیں۔

اگر ہمارے نظامِ شمسی سے باہر، کسی دوسرے سیارے پر، ہمارے جیسی ذہین اور ہم جتنی یا ہم سے کچھ زیادہ ترقی یافتہ خلائی مخلوق موجود ہوئی، اور اس نے بھی اپنا کائناتی پڑوس کھنگالنے کےلیے ٹرانزٹ کا اصول ہی استعمال کیا، تو کیا وہ ہمیں دیکھ پائے گی یا نہیں؟

یہی وہ سوال تھا جس کا جواب جاننے کےلیے کورنیل یونیورسٹی کی ماہرِ فلکیات لیزا کیلٹینیگر اور لیہائی یونیورسٹی کے جوشوا پیپر نے مشترکہ طور پر ’’ٹیس‘‘ کا ڈیٹا کھنگالنا شروع کیا۔

انہیں معلوم ہوا کہ زمین سے 300 نوری سال دوری تک 1004 ستارے ایسے ہیں جن میں تین بڑی خصوصیات موجود ہیں:

  • وہ سب کے سب ہمارے سورج جیسے یعنی ’’مین سیکوینس‘‘ ستارے ہیں؛
  • وہ ہمارے نظامِ شمسی کے مستوی (پلین) کی بالکل سیدھ میں ہیں؛ اور
  • ان کے گرد متوقع سیاروں پر زمین سے ملتا جلتا ماحول موجود ہوسکتا ہے۔

ان تینوں خصوصیات کی بنیاد پر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ شاید ان ستاروں کے گرد موجود سیاروں پر زندگی نہ صرف وجود میں آچکی ہو بلکہ بہت ممکن ہے کہ ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد ہماری جتنی ذہین اور ترقی یافتہ بھی ہوچکی ہو

اگر ایسا ہے تو پھر جس طرح ہم ٹرانزٹ کا اصول استعمال کرتے ہوئے دوسرے سیارے تلاش کررہے ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی شاید ہمیں تلاش کرچکے ہوں… اور ہوسکتا ہے کہ وہ ہم پر مسلسل نظر بھی رکھے ہوئے ہوں۔

واضح رہے کہ یہ صرف ایک مفروضاتی تجزیہ ہے جسے خلائی مخلوق کی دریافت کا اعلان ہر گز نہ سمجھا جائے۔ بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ ان ماہرین نے اپنے فارغ وقت میں یہ ساری تحقیق کی ہوگی، جو ’’منتھلی نوٹسز آف دی رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی: لیٹرز‘‘ کی ویب سائٹ پر 20 اکتوبر کے روز شائع بھی ہوچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔