اسٹیٹ بینک نے زری پالیسی جاری کردی ،شرحِ سود 7 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان

بزنس رپورٹر  پير 23 نومبر 2020
پیر کو زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں کورونا وائرس سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا(فوٹو، فائل)

پیر کو زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں کورونا وائرس سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا(فوٹو، فائل)

 کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لیے شر ح سود 7 فی صد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس پیر کو منعقد ہوا جس میں افراط زر اور پاکستان کی معیشت پر کورونا وائرس کی وباء کے عالمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے کہا کہ معیشت میں بہتری آرہی ہے۔ غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، رواں مالی سال مہنگائی کی شرح ہدف کے مطابق رہے گی۔ ملکی معیشت کی بحالی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے  کاروباری احساسات مزید بہتر ہوئے ہیں کورونا کی دوسری لہر پاکستان کی معاشی نمو میں کمی کے خاصے خطرات کو سامنے لارہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کھانے پینے کی اشیاء کی رسد کے دباؤ کا نتیجہ ہے جو عارضی ہوگا۔رواں مالی سال مہنگائی 7 سے 9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ مہنگائی اور معاشی نموں  دونوں کے منظر نامے کو لاحق خطرات متوازن محسوس ہوتے ہیں۔ نمو کو بڑھانے کے لیے وبا کے دوران دی گئی نمایاں مالیاتی، زری اور قرضہ جاتی تحریک (stimulus) جاری رکھی جائے گی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق  مالی سال 21ء کی پہلی سہ ماہی میں جلد فروخت ہونے والی صارفی اشیا کی فروخت بحال ہوئی۔ پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی اوسط فروخت کا حجم مالی سال 20ء میں کورونا کی وبا سے پہلے کی سطح سے بڑھ چکا ہے۔ سیمنٹ کی فروخت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) میں بحالی کا عمل جاری ہے اور مالی سال21ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس میں 4.8 فیصد سال بسال توسیع ہوئی۔

گذشتہ برس بڑی صنعتوں کی پیداوار میں  اسی سہ ماہی میں 5.5 فی صد سکڑاؤ دیکھا گیا۔ مینوفیکچرنگ کے15میں سے9شعبے پیداوار میں اضافے کے عکاس ہیں جن میں ٹیکسٹائل، غذا اور مشروبات، پیٹرولیم مصنوعات، کاغذ اور گتہ، ادویات، کیمیکل، سیمنٹ، کھاد اور ربڑ کی مصنوعات شامل ہیں۔ کووڈ وبا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کی فراہم کردہ تحریک، پالیسی ریٹ میں کٹوتیوں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے بروقت اقدامات سے صنعتی پیدوار کی بحالی میں مدد مل رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق جاری کھاتے میں خاصی فاضل رقم اور معیشت کے بہتر ہوتے امکانات کی بدولت ایم پی سی کے گذشتہ اجلاس کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں ساڑھے تین فیصد اضافے میں مدد ملی اور بیرونی بفرز مزید مضبوط ہوئے جس سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر12.9ارب ڈالر تک پہنچ گئے جوفروری 2018ء کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔

رپورٹ کے مطابق اب تک کی کارکردگی کی بنیاد پر بیرونی شعبے کے امکانات میں مزید بہتری آئی ہے اور مالی سال21ء کے لیے جاری کھاتے کا خسارہ اب جی ڈی پی کے2 فی صد سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس سال کے بجٹ کے مطابق حکومت مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی غرض سے مسلسل ٹھوس کوششیں کررہی ہے جن میں اسٹیٹ بینک سے نئے قرضے نہ لینے کا عزم شامل ہے۔

پست نان ٹیکس محاصل کے باوجود مالی سال 21ء کی پہلی سہ ماہی میں بنیادی توازن جی ڈی پی کا  0.6 فیصد فاضل رہا، جو گذشتہ برس کے اسی عرصے کے آس پاس ہے۔

اس سال ابتدائی چار ماہ میں پی ایس ڈی پی (حکومتی ترقیاتی منصوبوں)  کی رقوم کے اجرا، جو معاشی سرگرمیوں کا ایک اہم محرک ہے، میں 12.8 فیصد (سال بسال) اضافہ ہوا۔ محاصل کے سلسلے میں وبا کے دوران کاروباری اداروں کی مدد کرنے کے لیے ریفنڈز میں تیزی کے باوجود، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور جولائی تا اکتوبر کے دوران 4.5 فیصد (سال بسال) درج کیا گیا، اور وصولیاں ہدف کے قریب آگئیں۔

مرکزی بینک کے مطابق مجموعی مالی حالات مناسب اور سازگار رہے جس میں پیش بینی کی بنیاد پر حقیقی پالیسی ریٹ تھوڑا سا منفی رہا۔ اگرچہ نجی شعبے کے قرضوں کی نمو سال بسال بنیاد پر معتدل رہی، تاہم اس کی ماہ بہ ماہ نمو کورونا وائرس سے پہلے کے رجحانات کی جانب گامزن ہے۔ چونکہ کمرشل بینکوں میں خطرے سے گریز کا رجحان بلند تھا اس لیے اسٹیٹ بینک نے کووڈ 19 کے دھچکے کے بعد عارضی اور ہدفی ری فنانس اسکیمیں  متعارف کرکے نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی بڑھانے میں مدد دی۔

عمومی مہنگائی جنوری سے اب تک بڑی کمی کے بعد گذشتہ دو ماہ میں 9 فی صد کے قریب رہی، جس کی بنیادی وجہ رسدی مسائل کے سبب منتخب غذائی اشیا کے قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہے۔ اس کے برخلاف قوزی (core)مہنگائی قدرے معتدل  اور مستحکم رہی، جو معیشت کی مضمر طلب سے مطابقت رکھتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔