قائداعظم، کراچی اور ایوب خان

نصرت جاوید  جمعرات 26 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کراچی سے میرا تعلق بڑا جذباتی اور گہرا ہے۔ رہتا اسلام آباد میں ہوں مگر سال میں کئی بار دفتری کاموں کے سلسلے میں اس شہر بھی جانا پڑتا ہے۔ لاہور یا راولپنڈی سے کراچی جانے والے پیشہ ور حضرات زیادہ تر اپنے ہوٹلوں میں مقید رہتے ہیں۔ وہ جن دوستوں سے ملنے جاتے ہیں ان کی رہائش ایسے علاقوں میں ہوتی ہے جنھیں Posh کہا جاتا ہے۔ کراچی میں کئی دن گزارنے کے باوجود ایسے لوگ اس شہر کی حقیقتوں سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں امن و امان کے حوالے سے ٹی وی اسکرینوں پر بنائی کراچی کی ایک خاص تصویر ہی حاوی رہتی ہے۔

میں کراچی جاؤں تو سوائے سونے کے ہوٹل کے کمرے میں ٹکے رہنے سے وحشت ہوتی ہے۔ کمرے سے باہر نکلوں تو Five Star ماحول اسپتالوں جیسا صاف ستھرا مگر اداس محسوس ہوتا ہے۔ کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے خود کو کسی ٹینک میں بیٹھا محسوس کرتا ہوں۔ دم گھٹتا ہے۔ وحشت کچھ زیادہ ہو جائے تو اپنے ہمراہ اس شہر میں گئے ساتھیوں کو غچہ دے کر سڑک پر آ کھڑا ہوتا ہوں۔ کوئی رکشہ روک کر سیدھا برنس روڈ پہنچ کر دھاگے والے کباب یا نہاری کھانے کے بعد ربڑی کی ایک پلیٹ دکان کے باہر کھڑے ہو کر کھاتا ہوں اور پھر منہ اٹھائے کسی بھی سمت بس چلتا چلا جاتا ہوں۔ اس شہر میں ایک خاص قسم کی Energy ہے جو آپ کو پاکستان کے کسی اور شہر میں اس قوت کے ساتھ دکھائی نہیں دیتی۔

کراچی میں بے مقصد آوارگی کرتے ہوئے میں بارہا مزارِ قائد کے پاس سے بھی گزرتا ہوں۔ اس مزار کے اندر لیکن میں دو سے زیادہ مرتبہ نہیں گیا۔ مجھے اس مزار کی عمارت میں وہ Energyکبھی نظر نہیں آئی جو کراچی شہر سے بھرپور طریقے سے وابستہ ہے۔ اس مزار کی عمارت اور ڈیزائن میں ایک خاص قسم کی سادگی اور وسعت دکھائی دیتی ہے جو بظاہر Majestic نظر آنے کی کوشش کرتی ہے مگر اصل میں رُعب ڈالنے والے ’’نظم‘‘ کا تاثر پیدا کرتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’تنظیم، اتحاد اور یقین محکم‘‘ کا تقاضا کرنے والے قائد کے مزار کو ایسا ہی تاثر پیدا کرنا چاہیے جس سے میں گھبرا جاتا ہوں۔ ان کی اپنی زندگی بھی بڑی منظم تھی۔ ان کے بارے میں لکھی نصابی کتابوں میں انھیں ایک دھن کے پکے مگر روکھے پھیکے انسان ہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

امتحانات پاس کرنے کے لیے میں نے بھی ان کتابوں کا رٹا لگایا ہوا ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں میں قائد اعظم کو کبھی ایک روکھے یا جسے انگریزی میں A Man Without Humor کہا جاتا ہے شخص کے طور پر نہیں لے پایا۔ انگلستان میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے اداکاروں کے ایک گروہ کے درمیان کافی وقت گزارا تھا جو شیکسپیئر کے لکھے ڈراموں میں کام کیا کرتے تھے۔ وہ لندن میں ہاؤس آف کامنز یعنی وہاں کی قومی اسمبلی کی کارروائی بھی بڑی باقاعدگی سے دیکھا کرتے تھے۔ یہ دونوں حوالے میرے جیسے شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ انھیں Word Play کے ذریعے طنز و مزاح کی روایت کافی پسند تھی۔ میں تو بلکہ اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ ان کی شخصیت میں شاعرانہ تخیل کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ صلاحیت نہ ہوتی تو ہمارے بے پناہ شاعر جی ہاں اقبال جنھیں ’’علامہ‘‘ بناکر ہم نے محض زاہد خشک بنا رکھا ہے انھیں طویل خطوط لکھ کر انگلستان سے واپس آ کر مسلمانوں کی قیادت کرنے پر مجبور نہ کرتے۔

قیادت اور Vision کی بات چل نکلی ہے تو مجھے یہ اعتراف بھی کر لینے دیں کہ میں مزار قائد سے کہیں زیادہ مرتبہ ’’وزیرمینشن‘‘ گیا ہوں۔ مجھے ان کا صرف کراچی والا گھر ہی نہیں بلکہ رہائشی محلہ کھارادر بھی بے تحاشہ Fascinate کرتا ہے۔ میں اکثر وہاں کسی ریستوران سے ’’انڈا گٹالہ‘‘ کی پلیٹ لے کر سڑک پر رکھے بنچ پر بیٹھ کر یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ قائد کے بچپن میں اس محلے کی زندگی کیا رہی ہو گی۔ ایسے ہی تصورات میرے ذہن میں ان کے ’’سندھ مدرسہ السلام‘‘ کی دیوارودر کو دیکھتے ہوئے اُمڈ آتے ہیں۔

انسانی نفسیات اور سماجیات یعنی Sociology بڑے دقیق مضامین ہیں۔ مجھے ان کی خاک سمجھ نہیں۔ مگر مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ قائد کے بچپن والے کراچی نے بالآخر انھیں اس بات پر قائل کیا کہ اہل نظر کو پاکستان کی صورت ایک نئی بستی آباد کرنا ہو گی جو اقبال کی خواہش کے مطابق نہ کوفہ نہ بغداد۔ ’’نئی بستی‘‘ کو بسانے والے اہل نظر ماضی کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں جیسے کوئی گاڑی چلانے والا وقتاََ فوقتاََ بیک مرر پر نگاہ ڈال کر اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے کیا کرتا ہے۔ کراچی کو ایک ’’نئی بستی‘‘ کا دارالحکومت بھی شاید انھوں نے اسی لیے بنایا تھا۔ ایوب کھوڑو جیسے ’’قوم پرستوں‘‘ کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا۔ بالآخر ان کی مخالفت کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایک میٹروپولیٹن شہر بننے کے تمام تر امکانات رکھنے والا کراچی بالآخر صرف ایک صوبے کا دارالحکومت بن گیا۔

جہاں کے رہائشی اس کے ’’شہری‘‘ نہ بن پائے۔ اپنی اپنی ’’کٹی پہاڑیوں‘‘ کی پناہوں میں بس کر تقسیم درتقسیم ہوتے چلے گئے۔ قائد کا یوم پیدائش آتا ہے تو بھاری بھر کم لفظوں کی تکرار سے ہم اپنے تئیں بڑے خلوص سے یہ ’’اعتراف‘‘ کرنے کی دوغلی مشق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم پاکستان کو اس طرح کا جمہوری اور آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والا ایک جدید ملک نہ بناپائے جو قائد کا خواب تھا۔ کچھ لوگوں کا سارا زور ان کی 11 اگست والی تقریر یاد کرنے میں صرف ہو جاتا ہے جس میں پاکستانیوں کو ان کے مندروں اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی پوری آزادی کی یقین دہانی دلائی گئی تھی۔ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے خود ساختہ محافظوں کو اس تقریر کے حوالے کچھ اتنے پسند نہیں آتے۔ وہ علامہ شبیر احمد عثمانی اور بعد ازاں ان کی رہنمائی میں تیار شدہ قراردادِ مقاصد کی دہائی دینا شروع کر دیتے ہیں۔

مجھے حسرت ہی رہی کہ ’’نظریاتی‘‘ بالوں کی کھال اتارنے والے کبھی یہ جاننے کی بھی کوشش کریں کہ پاکستان کے نام پر بسائی نئی بستی کا دارالحکومت کراچی کو کیوں بنایا گیا تھا۔ میرے سوال کا جواب ڈھونڈنا کوئی زیادہ مشکل نہیں، اگر تھوڑی دیر کو نقشہ دیکھ لیا جائے۔ کراچی سے چلی سمندری پٹی بلوچستان کی آخری حد پر موجود جیوانی تک پہنچتے ہوئے گیارہ سو سے زیادہ کلومیٹر کا فیصلہ طے کرتی ہے۔ رچرڈ فرانسس برٹن ایک سامراجی افسر تھا جس نے پورے پانچ برس سندھ کو سمجھنے کے لیے وہاں کے چپے چپے کا بذات خود دورہ اور مشاہدہ کیا اور آخر میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ ’’ساحل مکران پر موجود بندرگاہوں کو جو ایران تک پھیلی ہوئی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے ہم (یعنی برطانوی سامراجی) بالآخر وسط ایشیاء کے ساتھ ہونے والی تمام تجارت کو اپنے کنٹرول میں لے سکتے ہیں۔‘‘ کراچی کا غالباََ یہی Potential تھا جو قائد کے ذہن میں تھا۔ مگر پھر ’’فیلڈ مارشل‘‘ ایوب خان آ گیا۔ اس نے اسلام آباد بنا دیا اور اب ہمارے ملک کے انگریزی اخباروں میں ہر اتوار کو دبئی میں بنائے جانے والے فلیٹوں کے پورے صفحے کے اشتہارات دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی کے امکانات دبئی نے پوری طرح سمجھ کر اپنے لیے استعمال کر لیے اور ہم ہر 25 دسمبر کو بس قائد کو رسماََ یاد ہی کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔