جنگ کا نیا انداز، گولی نہیں کلکس کی بوچھاڑ

شاہد کاظمی  جمعـء 18 دسمبر 2020
بھارت کا سری واستو گروپ پاکستان کے  مفادات کو زک پہنچانے کےلیے عالمی طور پر سرگرم تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھارت کا سری واستو گروپ پاکستان کے مفادات کو زک پہنچانے کےلیے عالمی طور پر سرگرم تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں ممالک براہ راست ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں جیسی کارروائیاں کرنے لگے ہیں۔ بم برسانے کے بجائے لفظوں کے تیر چلائے جارہے ہیں۔ تھوڑے سچ کو زیادہ جھوٹ کا تڑکا لگانے کے بعد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلیے ہر حربہ آزمایا جارہا ہے۔ سائبر کرائم کی اس دنیا میں ممالک بھی ایک دوسرے کے خلاف سائبر وار فیئر اپنا رہے ہیں اور رفتہ رفتہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور بھی شائد ختم ہونے کو ہے کہ اب ٹیکنالوجی نئی انگڑائی لینا شروع ہوچکی ہے۔ اور یہ انگڑائی اس قدر مضبوط ہے کہ ممالک اپنی داخلی سلامتی کے حوالے سے سنجیدگی سے نہ صرف ٹیکنالوجی کو اپنانے پر مجبور ہیں بلکہ اپنے دشمن کے مقابلے کےلیے بلٹ کے بجائے بٹن کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ امریکا اب بحری بیڑے دباؤ ڈالنے کےلیے بھیجتا ہے۔ باقی مقاصد وہ کنٹرولڈ میڈیا اور اپنی پروپیگنڈا ٹیم سے یا پھر بیک ڈور ڈپلومیسی سے حاصل کرتا ہے۔

فیک نیوز، جعلی خبر۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے تو یہ ہم سنتے آئے۔ اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اتنے بڑے پیمانے پر جعلی خبروں کی پکار ہم نے اس سے قبل نہیں سنی تھی۔ روس اور امریکا کے درمیان تعلقات جعلی خبروں کے حوالے سے ہچکولے کھاتے رہے ہیں۔ اور جعلی خبریں یقینی طور پر رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سائبر ورلڈ میں یقینی طور پر وہی آج کامیاب ہورہا ہے جو پروپیگنڈا بہتر انداز میں کرسکتا ہے اور اپنے پروپیگنڈے کو حقیقت سے قریب تر رکھ سکے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، مخاصمت کے زاویے بھی تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے باقاعدہ فنڈز مختص کیے جارہے ہیں۔ باقاعدہ ٹیکنالوجی ماہرین بھرتی کیے جانا شروع ہوچکے ہیں۔

ترقی یافتہ معاشرے اس لیے کامیاب ہیں کہ وہ برائی جتنی تیزی سے پھلتی ہے اتنی ہی تیزی سے اس کے خلاف برسر پیکار ہوجاتے ہیں۔ جعلی خبروں کی روک تھام کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی ہے، جس کی مثال یورپی یونین میں کام کرنے والا ایک ادارہ (EU DisinfoLab ہے۔ 2019 میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوتی ہے جس میں کچھ نیوز ایجنسیز، میڈیا گروپس، شخصیات اور دیگر کے حوالے سے شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عالمی اداروں کے ساتھ مختلف میڈیا گروپس اور غیر سرکاری تنظیموں کے مراسم کو بھی اس میں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور مزید تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ لیکن معاملہ نظروں سے اوجھل رہا۔ دسمبر 2020 میں ایک ایسا بھونچال آیا جس نے عالمی اداروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ بھارت کا سری واستو گروپ، پندرہ سال سے جعلی خبروں کا گرم بازار، مشہور شخصیات کی شناخت کی چوری، غیر سرکاری تنظیموں کے ناموں کا دھوکا دہی سے استعمال، عالمی اداروں کے ساتھ دھوکا دہی کرنا، بیرون ملک مخصوص مفادات کا تحفظ… نیز کیا کیا گنوایا جائے، فہرست بہت طویل ہے۔

Commission to Study the Organizatoin of Peace یعنی CSOP نامی تنظیم کا نام استعمال کرنا اس پورے مافیا کا چہرہ بے نقاب کرنے کا باعث بن گیا۔ جو کھیل پندرہ سال سے کھیلا جارہا تھا، وہ شائد اب بھی سامنے نہ آتا لیکن مکروہ چہرہ رکھنے والے فیصلہ سازوں نے غلطی یہ کردی کہ CSOP کے آنجہانی بانی پروفیسر لوئیس کو بھی نہ بخشا۔ پروفیسر لوئیس بی سوہن 2006 میں وفات پاچکے ہیں۔ لیکن ان جعلی خبروں اور میڈیا کا مکروہ کھیل کھیلنے والوں نے انہیں 2007 کی کانفرنس میں بطور شریک مقرر شرکت کروا دی۔ اور یوں بھانڈا پھوٹ گیا۔ 2005 سے جاری اس پوری مہم کا مخاطب مکمل طور پر پاکستان تھا۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں کےلیے اقوام متحدہ اور یورپی یونین تک کو استعمال کرلیا گیا۔ یورپین پارلیمنٹ کے ممبرز تک استعمال ہوگئے۔ جعلی میڈیا گروپس ترتیب دیے گئے۔ جعلی میگزین، جعلی اخبارات، جعلی ویب سائٹس۔

کچھ عرصہ قبل Free Baluchistan بینرز ہم سب نے جنیوا و برسلز میں بسوں پر دیکھے۔ یہ بھی اسی نیٹ ورک کی کارستانی تھی۔ اس نیٹ ورک کا روح رواں بھارت کا مشہور و معروف ڈیجیٹل میڈیا صحافتی گروپ اے این آئی (ANI) نکلا۔ اخلاقی اقدار کے پست ترین درجے پر موجود اس نیٹ ورک نے انسانی حقوق کی اہم شخصیت پروفیسر لوئیس بی سوہن کی جس طرح تذلیل کی ہے، متعلقہ ممالک کو کارروائی یقینی طور پر کرنی چاہیے۔

اس نیٹ ورک نے پندرہ سال سے پوری دنیا میں بھارت کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ دس ایسی غیر سرکاری تنظیمیں جو اپنے آپریشنز عرصہ ہوا بند کرچکی تھیں اور وہ اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ تھیں، ان کا نام دوبارہ استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں تک رسائی حاصل کرلی گئی۔ فیک میڈیا کا ایک جال برسلز اور جنیوا میں پاکستان کے خلاف ترتیب دیا گیا۔ 750 سے زائد جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس بنائے گئے۔ یہی نہیں بلکہ سری واستو گروپ، اے این آئی اور اس عالمی نیٹ ورک کی جانب سے 550 سے زائد ویب ڈومین رجسٹرڈ کروائے گئے جن میں سے اکثر پاکستان کے مفادات کو زک پہنچانے کےلیے تھے، کیوں کہ اکثر ڈومین ایسے تھے جو مستقبل میں پاکستان کےلیے اہم ہو سکتے تھے۔ 1970میں بند ہوجانے والی تنظیموں کو اچانک 2005 میں دوبارہ سے کھڑا کردیا گیا، وہ بھی دھوکا دہی اور جعل سازی سے۔ فرینڈز آف گلگت بلتستان، فری بلوچستان جیسی تنظیمیں بھی اسی نیٹ ورک کی کارستانیاں نکلیں۔ یہ نیٹ ورک عالمی اداروں کی ناک تلے اتنا مضبوط ہوگیا کہ 2019 کی تحقیقات اور شکوک و شبہات کے باوجود اس نے اپنے آپریشنز ختم نہ کرنے کے ساتھ ابھی اس حالیہ رپورٹ پر چوں تک نہیں کی۔

اس سائبر وار فیئر کا مقابلہ پاکستان کر رہا ہے اور بخوبی کررہا ہے۔ لیکن یہاں سوال عالمی اداروں کی صلاحیت اور کردار پر بھی اٹھنا شروع ہوچکا ہے۔ کیسے ایک جعلی میڈیا گروپ اتنا بڑا نیٹ ورک بنا کر اقوام متحدہ اور یورپی یونین جیسے اہم اداروں تک پہنچ گیا اور پاکستان کے خلاف محاذ بھی کامیابی سے قائم کیا اور چلایا؟ کس طرح 10 سے زائد اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ غیر سرکاری تنظیموں کا نام استعمال اس نیٹ ورک نے کیا اور اقوام متحدہ جیسا اہم ادارہ بے خبر رہا؟ کیسے یورپی پارلیمنٹ کے ممبران کو کشمیر، بنگلہ دیش، مالدیپ کے سفر اسپانسر کردیے گئے اور یورپی پارلیمنٹ بے خبر رہی؟ انسانی حقوق کے نام لیوا کیسے نظر انداز کرگئے کہ انسانی حقوق کے قوانین کے باپ کہلائے جانے والے پروفیس لوئیس بی سوہن کا نام بعد از موت استعمال ہوگیا اور انہیں خبر نہیں ہوئی؟

عالمی اداروں کو بھارت کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی ورنہ تاثر یہی جائے گا کہ فیٹف جیسے اداروں میں پاکستان کے خلاف کارروائیاں دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہونے کے مترادف ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔