نئے زمانے کے شیخ چلی

محمد کامران کھاکھی  بدھ 23 دسمبر 2020
حکمراں اپنی ذاتی اہلیت کی سطح کا صحیح طریقے سے تجزیہ نہیں کرپارہے۔ (فوٹو: فائل)

حکمراں اپنی ذاتی اہلیت کی سطح کا صحیح طریقے سے تجزیہ نہیں کرپارہے۔ (فوٹو: فائل)

شیخ چلی کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔ ہم سب نے اس کی کہانی پڑھ رکھی ہے کہ کیسے اس نے اہلیت نہ ہونے کے باوجود ایسے خواب دیکھے جو اس کی پہنچ سے دور تھے۔ مگر وہ ان کو حاصل کرنے میں اس قدر پر اعتماد تھا کہ اس نے اپنا نقصان ہی کر ڈالا، یعنی انڈوں کی ٹوکری گرا کر تمام انڈے ہی توڑ ڈالے۔

یہی حال کچھ اس وقت پاکستان کی حکمراں جماعت کا ہے کہ تقریباً چھ فیصد کی شرح ترقی انھیں بہت کم لگی اور انھوں نے ملک کو سو فیصد ترقی یافتہ بنانے کا سوچا، مگر وہ منفی اعشاریہ چار پہ دھڑام سے جاگری۔ پھر بھینسوں، کٹوں، مرغیوں، انڈوں سے اس کو سہارا دینے کی سوجھی تو مرغیوں نے ہڑتال کردی اور انڈوں کی قیمت دگنی بڑھ گئی۔ پھر غریب عوام کا خیال دل میں سما گیا اور ان کےلیے کچھ کرنے کی سوجھی اور تاریخ میں پہلی بار غریب لوگوں کےلیے لنگر خانے کھول دیے گیے۔ اب اس سے زیادہ کسی حکمران کو غریب کا خیال کیسے ہوسکتا ہے۔ مگر ان لنگرخانوں میں کھانا پکنے اور غریب کا پیٹ بھرنے سے جناب آٹا اور چینی صاحب غصہ کرگئے اور ان کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ غریب تو غریب، ان اجناس ضروریہ کی بے رخی سے تو سفید پوش بھی بلبلا اٹھے۔

مگر حاکم وقت کو عوام سے بہت پیار ہے۔ جانتے نہیں کہ انہوں نے کھیل کود سے جو بھی کمایا اس سے خود عیاشی نہیں کی بلکہ درد دل رکھنے کی وجہ سے غریب عوام کےلیے کینسر کا اسپتال بنایا۔ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے دربدر ٹھوکریں کھا کر پیسہ جوڑا، مگر غریبوں کےلیے اسپتال بنا کر چھوڑا۔ اس ہمدردانہ کام پر بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھا اور انہوں نے ان پر فارن فنڈنگ کیس کردیا کہ جی بیرون ملک سے ناجائز طریقے سے پیسے لیے گئے۔ بھئی پیسے لیے تو اپنے ملک میں لائے ناں، کوئی باہر تو نہیں لے گئے۔ کوئی منی لانڈرنگ تو نہیں کی ناں اور پھر اچھے کاموں کےلیے ہی استعمال ہوئے ناں۔ تبدیلی لانے کےلیے کتنی محنت درکار ہوتی ہے ان نااہل لوگوں کو کیا علم۔

پھر ماحولیات کی آلودگی سے جہاں عام آدمی کا دم گھٹ رہا تھا تو حاکم وقت کہاں آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے ملین ٹری سونامی شروع کردیا اور درخت لگانے شروع کردیے تاکہ ماحول کو آلودگی سے پاک اور خوشگوار بنایا جاسکے۔ اس کے اور بھی کئی فوائد ہیں جیسے فضا میں آکسیجن کی پیداوار میں اضافہ، جنگلی حیات میں اضافہ، کیونکہ چڑیا گھروں میں ان جانوروں کی جان ہی خطرے سے دوچار ہے، اسی لیے تو کاون کو دیس نکالا ملا۔ اب اگر جنگل ہوتے تو کیوں ہم کاون کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کرتے بھلا، بلکہ اس کے ساتھیوں کو اپنے ملک میں لاتے ناں۔ اتنی سی بات پتہ نہیں لوگوں کو سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ اور سب سے اہم فائدہ اس جنگل سے حاصل ہونے والے شہد کی پیداوار ہے۔ اب بھلا اس نیک کام سے دشمنوں کو آرام کہاں سے آنا تھا، تو انہوں نے اس پر اعتراضات اٹھانے شروع کردیے کہ درخت تو لگے ہی نہیں اور اگر لگے ہیں تو سو لگا کر ہزار کا خرچہ ڈالا گیا۔ اور تو اور یہ تو انہوں نے حد ہی کردی کہ جو شہد ان درختوں سے حاصل ہوگا اس کا برانڈ نیم گنڈاپوری شہد ہوگا۔

عوام کی بھوک اور غربت کے خیال نے حاکم وقت کو بہت تڑپایا۔ جب کوئی بھی اسکیم کارگر ثابت نہیں ہورہی تو بھنگ کی کاشت کا سوچا گیا کہ اس کی پوری دنیا میں بہت مانگ ہے اور اس سے کئی ادویہ بھی تیار ہورہی ہیں۔ مگر دشمنوں نے اس کا بھی مذاق بنالیا۔ پھر سونے پہ سہاگہ غربت میں ڈوبی اس قوم کو کورونا نے آ پکڑا۔ کہتے ہیں ناں کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی، اپنے ساتھ بربادی بھی لاتی ہے۔ تو مصیبت تو اس قوم پر آئی سو آئی، ساتھ میں بربادی بھی لائی اور اب ساری قوم غم وغصہ سے بپھری اپنے ہی بال نوچ رہی ہے، سوائے حکومتی معاون کاروں کے، کہ ان کےلیے تو سب اچھا ہے۔ پھر بھی حاکم وقت نے ہمت نہیں ہاری اور وقفے وقفے سے قوم کے دکھ درد کا مداوا اپنی حرکتوں، بڑھکوں، دعووں اور سہانے خوابوں کے ذریعے کرتے رہتے ہیں اور اپنے ترجمانوں کو بھی سختی سے تلقین کردی کہ سب اچھا ہے، لوگوں کو بھی بتاؤ۔ اور ان کے وفادار عوام اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں اس حاکم وقت سے بڑھ کر اور کوئی مسیحا ہے ہی نہیں، اس لیے قدر کرو اس کی۔

ملک کے غریب عوام حکمرانوں کے لیے گئے قرض کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، جس کی وجہ سے حاکم وقت اقتدار میں آنے سے پہلے بھی گھلتے رہے اور اقتدار میں آکر بھی انہیں ان قرضوں کا بہت زیادہ احساس تھا کہ ملک کے عوام بہت زیادہ مقروض ہیں۔ اس لیے صرف دو سال میں 14 ہزار ارب کے مزید قرض لے کر انہوں نے ان قرضوں سے نجات کی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی، جو کہ ان کی نیک نیتی کا ثبوت ہے۔ اپنی اس کوشش کےلیے انہیں کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑے کہ ملکوں ملکوں جاکر ان غریبوں کی وجہ سے مانگنا بھی پڑا اور آئی ایم ایف نے تو حد کردی کہ قرض دینے کےلیے انہوں نے مہنگائی بھی کرا ڈالی۔ مگر ہمارے حاکم وقت نے ہمت نہیں ہاری اور ان کی ہر خواہش پوری کی، باوجود اس کے ان کی شرائط ان کے کہنے سے پہلے ہی گئی گنا زیادہ پوری ہوچکی تھیں۔

آج سے کوئی چار پانچ سال پہلے ایک ریسرچ کافی مقبول ہوئی، جسے ’’ڈننگ کروگر ایفیکٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈننگ کروگر اثر اس وقت پایا جاتا ہے جب افراد اپنی ذاتی اہلیت کی سطح کا صحیح طریقے سے تجزیہ نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک علمی تعصب ہے جس میں نااہل افراد اپنے آپ کو سب سے زیادہ اہل تصور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ’’امپوسٹر سنڈروم‘‘ ہے جو بہت قابل افراد کے خیال میں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم مجاز ہیں۔ یعنی علم والا اپنے آپ کو کم علم تصور کرتا ہے جیسا کہ مشہور زمانہ سائنسدان آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ ’’میں جتنا سیکھتا جاتا ہوں اتنا ہی مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہوتا جاتا ہے‘‘۔

ڈننگ کروگر اثر کی عام مثال سیاستدان اور مشہور شخصیات ہیں، جو کسی بھی موضوع کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے باوجود اس کے بارے میں جرات مندانہ غلط دعوے کرتے ہیں اور پھر اس کو صحیح ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ان میں خود اعتمادی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ چارلس ڈارون نے ایک بار کہا تھا ’’لاعلمی اکثر علم سے زیادہ اعتماد پیدا کرتی ہے‘‘۔

ڈننگ کروگر کی فالو اپ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جو عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتا، وہ تنقید بھی قبول نہیں کرتا اور وہ اپنی خود کی بہتری میں دلچسپی ظاہر کرنے کا کم سے کم امکان رکھتے ہیں۔

یہی حال ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کا ہے کہ اہل لوگوں کے مقابلے میں خود کو ہی بہت زیادہ اہل تصور کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی کا عملی مظاہرہ ایک وزیر موصوف نے یہ کہہ کر کیا کہ ’’ہم عالموں سے بہتر اسلام کو سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ مدینہ کی ریاست کے دعوے دار شاید ریاست کا علم تو رکھتے ہوں مگر مدینہ کے ’’م‘‘ سے بھی ناآشنا لگتے ہیں۔ یہ نئے زمانے کے شیخ چلی اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت نہ رکھتے ہوئے ملک کو تجربات کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں۔ ناقدین پابند سلاسل ہوئے جاتے ہیں، عقلمند لوگ خاموش تماشائی ہیں اور عوام ان کے ہر تجربے پر قہقہہ لگاتے ہیں، نتائج پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے اپنے روزگار کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔