دنیا کورونا کے شکنجے میں۔۔۔۔۔۔۔

ندیم سبحان میو  اتوار 10 جنوری 2021
کووڈ 19 کا عفریت 18 لاکھ جانیں نگل گیا، عالمی اقتصادیات و سماجیات کو تہہ و بالا کرڈالا۔ فوٹو: فائل

کووڈ 19 کا عفریت 18 لاکھ جانیں نگل گیا، عالمی اقتصادیات و سماجیات کو تہہ و بالا کرڈالا۔ فوٹو: فائل

اقوام عالم ان دنوں کورونا ( کووڈ 19) کی جان لیوا وبا کی دوسری لہر سے نبردآزما ہیں۔

دسمبر 2020کے اختتام تک کورونا کے ہاتھوں جان کی بازی ہار جانے والے انسانوں کی تعداد 18 لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔ اس وقت تک کرۂ ارض کے طول وعرض میں کورونا سے مجموعی طور پر 6 کروڑ سے زائد انسان متاثر ہوچکے تھے۔

اس سے قبل 2009 ء میں سوائن فلو کی عالم گیر وبا سے اقوام عالم کا سابقہ پڑا تھا جو جاتے جاتے دو لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار گئی تھی۔ تاہم کووڈ 19 کا دائرہ کار آخری عالمی وبا سے کہیں زیادہ وسعت اختیار کرچکا ہے۔ کرۂ ارض پر کوئی خطہ کورونا وائرس کے دست بُرد سے محفوظ نہیں رہا۔ اگرچہ بعض ممالک میں کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا مگر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ممالک دانستہ کورونا کی پردہ پوشی کررہے ہیں۔ اس عالمگیر وبا نے انفرادی سے لے کر اجتماعی، علاقائی اور عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

کارخانۂ حیات کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس عفریت سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر نہ ہوا ہو۔ بالخصوص عالمی سماجیات اور اقتصادیات پر کووڈ 19کے تباہ کُن اثرات پڑے ہیں۔ یوں بجا طور پر کووڈ 19 کو 2020ء کا اہم ترین واقعہ کہا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے تاریخ میں یہ سال یادگار رہے گا۔

کورونا کی ابتدا اور پھیلاؤ:کورونا وائرس کی یہ نئی قسم جسے نوول کورونا وائرس ( کووڈ 19) کہا جارہا ہے انسانوں میں کیسے منتقل ہوئی، اس بارے میں ہنوز اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس وائرس کے ابتدائی کیسز اگرچہ دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آئے تاہم اس بارے میں عدم اتفاق ہے کہ اس وائرس کی ابتدا دراصل کہاں سے ہوئی۔

20دسمبر تک ووہان میں کورونا کے کیسز کی تعداد 60 ہوگئی جو 10 دسمبر کے بعد سال کے آخری دن 300 کے قریب پہنچ گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا باقاعدہ کورونا کا ٹیسٹ ہوا تھا اور انھیں اس وائرس سے متاثرہ قرار دیا گیا تھا۔ وبا پھوٹنے کے ابتدائی دنوں میں ہر 7 روز کے بعد کورونا زدہ افراد کی تعداد دگنی ہوتی چلی گئی۔ 20 جنوری تک چینی حکومت کے مطابق کورونا کے مصدقہ کیسز 6174 تک پہنچ چکے تھے۔

چین میں اس نئے وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ان ممالک میں بالخصوص تشویش کی لہر پیدا ہونے لگی جن کے شہری کسی بھی وجہ سے چین کا دورہ کرکے آئے تھے یا جن ممالک میں چینی باشندے سیاحت یا کسی بھی دیگر مقاصد سے حال ہی میں پہنچے تھے۔ ان کی یہ تشویش بے جا نہ تھی کیوں کہ یہ وائرس چینی سرزمین تک محدود نہیں رہا تھا بلکہ انسانی آمدورفت کے ساتھ ہی دیگر ممالک کی سرحدیں بھی عبور کرگیا تھا۔ یورپ میں پہلا کیس فرانس میں 24 جنوری 2020ء کو سامنے آیا جب ساحلی شہر بورڈو میں ایک شخص میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔

اس کے بعد اٹلی، اسپین، سویڈن، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور دیگر یورپی مماک میں بھی کورونا کے کیسز رپورٹ ہونے لگے اور متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ امریکا میں 20جنوری 2020ء کو کورونا کا پہلا مریض رپورٹ ہوا اور صرف 3 ماہ کے بعد متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں امریکا چین، اسپین اور جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر سرفہرست آچکا تھا۔ تادم تحریر سب سے زیادہ کورونا کے تقریباً دو کروڑ متاثرین اسی ملک میں ہیں اور 3لاکھ 45ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

26فروری 2020ء کو برازیل کے شہر ساؤپالو میں کورونا کے پہلے مریض کی تصدیق کے ساتھ ہی اس وبا کی براعظم جنوبی امریکا میں بھی آمد ہوگئی۔ 3 اپریل تک اس براعظم کے تمام ممالک میں کووڈ 19 کے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔ براعظم افریقا میں داخلے کے لیے کورونا نے سرزمین مصر کو راہ گزر بنایا۔ مصر میں پہلا کیس فروری کے وسط میں سامنے آیا، پھر بتدریج دیگر افریقی ممالک میں کورونا کے مریض رپورٹ ہونے لگے۔ 13 مئی 2020 ء کو آخری افریقی ملک لیسوتھو میں بھی کورونا کے پہنچنے کی تصدیق ہوگئی۔

براعظم ایشیا میں چین کے بعد کورونا کے کیس پہلے بھارت، ایران، ترکی، عراق اور انڈونیشیا میں سامنے آئے۔ پھر بتدریج یہ وبا دیگر ایشیائی ممالک میں پھیل گئی۔ ایشیا میں بھارت، ایران، ترکی، عراق، بنگلہ دیش اور پاکستان کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک ہیں۔ پاکستان میں 26 فروری کو کورونا کے اولین دو متاثرین کی تصدیق ہوئی۔ یہ دونوں ایران کا دورہ کرکے وطن واپس لوٹے تھے۔

اس کے بعد کچھ عرصے تک صرف بیرون ممالک سے آنے والے شہریوں میں کورونا کی تصدیق ہوتی رہی، تاہم بعدازاں مقامی منتقلی کے کیسز بھی سامنے آنے لگے، اور کورونا کے متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ ستمبر 2020ء میں پاکستان کورونا سے دسواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن چکا تھا۔

اس عرصے کے دوران یہ وبا تمام براعظموں میں پھیل چکی تھی۔ متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکا دیگر ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا تھا اور ہنوز اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ امریکا کے بعد بھارت، برازیل، روس، فرانس، اٹلی، برطانیہ اور پھر اسپین کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک ہیں۔

کورونا پر عالمی ردعمل:ووہان میں کووڈ 19 کے کیسز سامنے آنے کے بعد چین نے مکمل لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی، تاکہ اس وبا کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ ووہان میں داخلہ بند کردیا گیا اور شہریوں کو مستقل طور پر گھروں میں رہنے کی ہدایت کردی گئی۔ تمام تجارتی، تعلیمی و تفریحی مراکز بند کردیے گئے۔

کورونا کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ بتدریج دیگر خطوں میں بھی یہی حکمت عملی اپنائی گئی۔ ابتدا میں جن ملکوں میں کورونا کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ان ممالک سے مسافر اور مال بردار بین الاقوامی پروازیں اور ہر طرح کی آمدورفت بند کردی گئی۔ پھر بتدریج دنیا بھر میں بین الاقوامی پروازیں موقوف ہوگئیں ۔ کچھ ممالک نے بشمول پاکستان دیگر ممالک میں پھنسے شہریوں کی واپسی کے لیے ان ملکوں سے خصوصی پروازوں کی اجازت حاصل کی۔ ان خصوصی پروازوں کے ذریعے ہزاروں شہر اپنے اپنے وطن واپس پہنچے۔ اس دوران کورونا کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے والے ممالک کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔

چین کے بعد مشرقی ایشیا کے بعض ممالک جیسے ویت نام نے کورونا پر قابو پانے کے لیے فوری اور وسیع پیمانے پر اقدامات کیے۔ بیشتر یورپ، شمالی امریکا اور افریقا میں سخت اقدامات قدرے تاخیر سے کیے گئے۔ اپریل 2020ء تک 90 سے زائد ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں آچکا تھا اور دنیا کی چار ارب آبادی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئی تھی۔

اپریل کے وسط تک امریکا میں 30 کروڑ افراد ( 90فی صد آبادی )، فلپائن میں 10 کروڑ، جنوبی افریقا میں 6 کروڑ اور بھارت میں سوا ارب کی آبادی کلی یا جزوی لاک ڈاؤن کا شکار تھی۔ اسی عرصے کے دوران یورپ میں 30 کروڑ اور لاطینی امریکا میں 20کروڑ انسان لاک ڈاؤن کی پابندیاں سہ رہ تھے۔ بعدازاں کورونا کی صورت حال قدرے بہتر ہونے پر وقفے وقفے سے لاک ڈاؤن کیا جانے لگا۔

کورونا سے متاثرہ افراد کے علاج معالجے کے لیے تمام ممالک میں پہلے سے قائم اسپتالوں میں خصوصی کورونا وارڈز بنائے گئے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک میں کورونا کے متاثرین کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اسپتال اور قرنطینہ مراکز تعمیر بھی کیے گئے۔  لاک ڈاؤن کے دوران دنیا بھر میں بیشتر صنعتیں، فیکٹریاں، کارخانے، سرکاری و نجی دفاتر، تجارتی و تفریحی مراکز اور تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ صرف اسپتال میڈیکل اسٹورز اور اشیائے خورونوش کی دکانوں کو محدود اوقات کے لیے کھلنے کی اجازت دی گئی۔

کورونا کے مریضوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال میں مصروف ڈاکٹر اور طبی عملے کے تحفظ کے لیے بڑے پیمانے پر حفاظتی کِٹس ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کو فراہم کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کورونا کی تشخیصی کٹس بھی مہیا کرنے کا سلسلہ رہا۔ پاکستان میں وفاق اور صوبہ سندھ کے مابین لاک ڈاؤن کے معاملے پر اختلاف رہا۔ وفاقی حکومت جزوی اور حکومت سندھ مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں تھی۔ تاہم پھر مرحلہ وار مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ اس دوران اندرون ملک پروازیں، ریل گاڑیوں اور بسوں وغیرہ کی آمدورفت معطل کردی گئی۔

تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ بیشتر سرکاری اداروں میں بھی تعطیلات کردی گئیں۔ صرف لازمی خدمات انجام دینے والے ادارے کھلے رہے۔ بیشتر صنعتوں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں پیداواری عمل معطل ہوگیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران اشیائے خورونوش اور میڈیکل اسٹورز کے سوا ہر قسم کی دکانوں اور تجارتی مراکز بھی بند کرنے کے احکام جاری کردیے گئے۔ کورونا سے بچاؤ کی خاطر عوام الناس کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے آگاہی مہمات بھی چلائی جاتی رہیں۔

کورونا کے مریضوں کے لیے سرکاری و نجی اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز قائم کیے گئے۔ بڑے شہروں میں کوورنا کے متاثرین کے لیے فیلڈ اسپتال بھی قائم کیے گئے جہاں مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا علاج معالجہ بھی کیا جاتا رہا۔   لاک ڈاؤن کے نتیجے میں صنعتوں تجارتی مراکز کی بندش سے متاثرہ ملازمین اور محنت کشوں کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیے۔ صنعتی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بینک نے قرضہ اسکیمیں شروع کیں۔

12 لاکھ غریب خاندانوں کی مالی امداد کی خاطر احساس کفالت اور کیش ایمرجنسی پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت فی خاندان 12 ہزار روپے کی نقد امداد فراہم کی گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ابتدائی مکمل لاک ڈاؤن کے بعد حکومت نے ملک بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا۔ یعنی انھی علاقوں میں عارضی طور پر پابندیاں عائد کی گئیں جہاں کورونا کے کیسز سامنے آرہے تھے۔

ان اقدامات کے نتیجے میں سال کی تیسری سہ ماہی میں کورونا کا پھیلاؤ محدود ہونے لگا اور مریضوں کی تعداد میں کمی آتی چلی گئی۔ دوسری جانب بیشتر ممالک میں صورت حال بدستور خراب رہی۔ وہاں کورونا کے مثبت کیسز میں اس تناسب سے کمی نہیں آئی اور ہلاکتوں کی شرح پاکستان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے حکومت پاکستان کی اختیار کردہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کو بہترین قرار دیا۔

کورونا کے اقتصادی اثرات:کووڈ 19 نے عالمی معیشت پر تباہ کُن اثرات مرتب کیے ہیں۔ ابھی پہلی لہر کی تباہ کاریوں سے دنیا کی اقتصادیات سنبھلی نہیں تھی کہ دوسری لہر شروع ہوگئی۔ یوں 2020ء کورونا کے باعث عالمی اقتصادیات کے لیے تباہ کُن سال ثابت ہوا ہے۔ کورونا کے باعث دنیا اقتصادی بحران سے دوچار ہوگئی ہے جسے ماہرین ’’ گریٹ ڈپریشن‘‘ کے بعد بدترین عالمگیر معاشی بحران قرار دے رہے ہیں۔ سال رواں کی ابتدائی سہ ماہی کے دوران کورونا کی شدت بڑھنے پر دنیا نے لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی۔ اس حکمت عملی کے تحت بین الاقوامی پروازیں موقوف ہوگئیں۔ بیشتر ممالک میں صنعتیں، تجارتی ادارے، کاروباری مراکز، بازار بند کردیے گئے۔ معاشی سرگرمیاں انتہائی محدود ہونے کے باعث ہر ملک کی معیشت شدید متاثر ہوئی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مارچ 2020ء میں عالمی اسٹاک مارکیٹیں کریش کرگئیں۔ عالمی بینک نے پیش گوئی کی کہ کورونا کے باعث ترقی یافتہ معیشتیں 7 فیصد تک سکڑ جائیں گی جس کے اثرات ترقی پذیر ممالک کو منتقل ہوں گے۔ گذشتہ برس کے دوران کورونا کی وجہ سے عالمی معیشت کو 9 ہزار ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا گیا۔ کووڈ 19 کی وبا کے باعث صنعتی و تجارتی ادارے اور کاروباری سرگرمیاں بند؍ محدود ہونے سے لوگوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہوگئی اور غربت میں اضافہ ہوا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وبا نے 17کروڑ افراد کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اپریل2020ء میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے کہا کہ 2020ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران 3کروڑ ملازمتیں ختم ہوگئیں جبکہ دوسری سہ ماہی میں 19کروڑ 50لاکھ کل وقتی ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔

جنوری اور فروری 2020ء کے دوران جب ووہاں میں کورونا کی وبا عروج پر تھی، چین میں 50لاکھ لوگ بیروزگار ہوگئے۔ مارچ میں ایک کروڑ امریکی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور انھوں نے گزراوقات کے لیے سے حکومت سے مدد طلب کی۔ امریکی فیڈرل ریزرو بینک نے تخمینہ لگایا کہ ملک میں پونے پانچ کروڑ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں اور بے روزگاری کی شرح 32 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ کینیڈا کے اینگس ریڈ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق کووڈ کے بعد 44 فی صد خاندانوں کے کسی نہ کسی فرد کی ملازمت ختم ہوگئی۔

جن ممالک نے کورونا کے باعث مکمل لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اختیار کی وہاں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے۔ مثلاً اسپین میں مارچ کے وسط میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد 9لاکھ شہریوں کی ملازمتیں ختم ہوگئیں۔ اسی ماہ 40 لاکھ فرانسیسی باشندوں نے عارضی بیروزگاری کے فنڈز کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ اسی دوران برطانیہ میں 10 لاکھ ملازمین نے یونیورسل کریڈٹ اسکیم سے مستفید ہونے کے لیے حکومت سے رجوع کیا۔

کورونا سے متاثرہ دیگر ممالک میں بھی صورت حال مختلف نہیں رہی۔ اقتصادی و تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوئے۔ دوسری جانب اشیائے خورونوش کی مہنگائی ان کے لیے دہرا عذاب بن گئی۔ کووڈ 19 کے دوران ہوائی جہازوں کی پروازیں موقوف ہونے کے ساتھ زمینی ذرائع نقل و حمل بھی معطل ہوگئے، جس کی وجہ سے متعدد خطوں اور شہروں میں اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہوگئی۔ نتیجتاً ان اشیا کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔

کورونا کے باعث یوں تو تمام صنعتی شعبے متاثر ہوئے مگر ہوابازی اور سیاحتی صنعت خاص طور سے زد میں آئی۔ انٹرنیشنل ایئرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کی جون میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت کو 2020ء میں 84ارب ڈالر کے خالص نقصان کا سامنا ہوگا۔ لاک ڈاؤن اور بین الاقوامی پروازیں بند ہونے کی وجہ سے سیاحت اور اس سے جڑی تمام صنعتیں اور کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ فوربس میگزین نے اگست میں رپورٹ جاری کی تھی کہ رواں سال عالمی سیاحتی شعبے کو 10کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔

پاکستانی حکومت نے کورونا کے کیسز سامنے آنے کے بعد لاک ڈاؤن اور بعدازاں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اختیار کی۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو سوداسلف، دودھ، سبزی، گوشت کی دکانوں اور میڈیکل اسٹورز اور اسپتالوں کے سوا تمام کاروبار بند کردیے گئے۔ اس کے نتیجے میں حکومتی ہدایت کے باوجود فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر چھوٹے بڑے کاروباروں سے وابستہ لاکھوں کارکنان فارغ کردیے گئے۔

دوسری جانب معاشی سرگرمیاں محدود ہوجانے کی وجہ سے پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح 68سال کے بعد منفی ہوگئی۔ مالی سال 2019-20ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی  0.4 فی صد رہی اور کورونا کے باعث ملکی معیشت کو ڈھائی ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں کووڈ 19کا ایک مثبت اقتصادی اثر یہ ہوا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اپنے اہل خانہ کو بھیجی جانے والی رقوم کا حجم بتدریج بڑھتا چلاگیا۔ جولائی2020ء کے بعد سے تارکین وطن کی ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ان پانچ ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر کی اوسط دو ارب ڈالر سے زائد رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ترسیلاتِ زر میں بہتری کی وجہ بین الاقوامی پروازوں کی معطلی تھی جس کی وجہ سے لوگ حوالہ اور ہنڈی کے بجائے قانونی بینکاری راستوں سے اپنے خاندانوں کو رقوم بھیجنے پر مجبور ہوئے۔

کورونا کے سماجی اثرات:  کووڈ 19 نے عالمی معاشرے پر گہرے سماجی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کورونا کا پھیلاؤ محدود کرنے کے لیے تقریباً سبھی ممالک میں لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی گئی۔ فضائی ٹریفک معطل ہونے سے بین الاقوامی سفر ممکن نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں بھی لاک ڈاؤن کے نفاذ نے لوگوں کی نقل و حرکت محدود کردی۔ تفریحی گاہیں، شادی ہال، ریستوراں، سنیما، تھیٹر وغیرہ بند ہوگئے۔ مکمل لاک ڈاؤن کے دوران بازار اور تجارتی مراکز بھی بند رہے۔ بعدازاں کورونا کی صورتحال قابو میں آنے کے بعد محدود اوقات کے لیے مارکیٹیں کھولنے کی اجازت دی گئی۔ ان پابندیوں سے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت محدود ہوگئی۔

کورونا سے تحفظ اور اس کا پھیلاؤ روکنے کی خاطر عوام الناس کے لیے احتیاطی تدابیر ( ایس او پیز) پر عمل لازم ٹھہرا۔ عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات کی روشنی میں تمام ممالک میں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں کے لیے ایس او پیز کی آگاہی مہمات چلائی گئیں۔ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کی وجہ سے شہریوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنے اور مصافحہ اور معانقہ کرنے کی ممانعت ہوگئی۔

انھیں ہمہ وقت ماسک پہنے رہنے کی ہدایت کی گئی۔ گھروں سے بلاضرورت باہر نکلنے سے بھی منع کیا گیا۔ ان پابندیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے عمل درآمد ممکن بنایا گیا۔ یوں لوگوں کا رشتہ داروں سے ملنا جلنا محدود ہوگیا۔ شادی ہالوں کی بندش کے باعث شادیاں ملتوی ہوگئیں۔

گھروں میں بھی تقاریب کے انعقاد پر پابندی لگادی گئی۔ اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے بچے گھروں میں محصور ہوگئے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اگرچہ آن لائن تدریس کا سلسلہ جاری رہا مگر ترقی پذیر ممالک میں تمام بچوں کے لیے آن لائن تعلیم کا حصول ممکن نہیں تھا۔ یوں ان کی پڑھائی کا بہت حرج ہوا۔ لاک ڈاؤن کے دوران معاشی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے کروڑوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ امیر ممالک میں حکومتیں بیروزگار ہونے والے شہریوں کی مدد کو آئیں اور انھیں سرکاری خزانے سے مالی امداد دی جانے لگی۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں بھی امدادی پیکیج کا اجرا کیا گیا مگر مجموعی طور پر روزگار سے محرومی نے کروڑوں محنت کشوں اور ان کے اہل خانہ کو سنگین مسائل سے دوچار کردیا۔

اس مشکل صورتحال میں این جی اوز اور مخیر حضرات بھی سرگرم ہوگئے جن کے تعاون سے کسی حد تک بیروزگاروں کے مصائب میں کمی آئی۔ کورونا کی صورت حال کسی قدر قابو میں آنے کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی اور معاشی و تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے سے بہت سے لوگوں کے روزگار کا سلسلہ ازسرنو شروع ہوگیا۔

لاک ڈاؤن کے دوران بہت سے اداروں نے اپنے ملازمین کو گھروں سے آن لائن کام کرنے کا پابند کردیا۔ یوں ملازمین کی ایک بڑی تعداد گھر میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ سے چپکے رہنے پر مجبور ہوگئی۔ کورونا کے باعث گھروں میں مقید ہونے کا ایک نقصان کئی خطوں میں گھریلو تشدد اور طلاق کی شرح میں اضافے کی صورت سامنے آیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران دنیا میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ۔پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد اور طلاق کے واقعات میں اضافہ رپورٹ کیا گیا۔

کورونا کے باعث جہاں عالمی معیشت کے تمام شعبے زوال پذیر ہوئے وہیں ٹیلی کوم آپریٹرز اور آن لائن تفریحی صنعت کے نفع میں کئی گنا اضافے کی خبریں منظرعام پر آئیں۔ سبب یہ تھا کہ لاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں مقید لوگوں کے لیے وقت گزاری کا سب سے مؤثر ذریعہ سیل فون تھا۔

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیل فون کمپنیوں نے صارفین کے لیے خصوصی لاک ڈاؤن پیکیج متعارف کرائے جن سے لاک ڈاؤن کے ’ قیدیوں‘ نے خوب فائدہ اٹھایا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ویڈیو اسٹریمنگ اور گیمنگ میں 100 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یوں کورونا کے باعث سیل فون کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کے خلاف احتجاج:کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا۔ لاک ڈاؤن کا عرصہ طویل ہونے لگا تو سخت پابندیوں سے تنگ لوگ حکومتی ہدایات، ایس او پیز اور کورونا لاحق ہوجانے کا خوف بالائے طاق رکھ کر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

ان کا احتجاج لاک ڈاؤن کی مدت طویل ہونے سے لے کر کورونا پر حکومتی پالیسیاں، غذائی اجناس کی عدم دست یابی، معاشی سرگرمیوں کی بندش کے باعث بیروزگاری، دکانیں بند ہونے کے باوجود کرایوں کی وصولی، سرکاری امداد کی عدم فراہمی، بعض قوانین اور دیگر عوامل کے خلاف تھا۔ پاکستان میں ملازمتوں سے نکالے گئے محنت کشوں کے علاوہ ڈاکٹروں اور طبی عملے نے حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیا۔ مارچ سے لے کر نومبر کے اختتام تک چھے براعظموں کے 35ممالک میں عوام الناس کئی بار احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

ترقی یافتہ کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے غریب ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ امریکا میں کووڈ 19 کے بعد کیے گئے سخت احتیاطی اقدامات اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی بیروزگاری سے تنگ آکر اپریل کے وسط میں کئی ریاستوں میں عوام نے احتجاج کیا۔ امریکا کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں بھی اسی دوران احتجاج شروع ہوچکا تھا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ مئی کے وسط میں لاک ڈاؤن میں نرمی ہونے تک جاری رہا۔ بعدازاں ستمبر میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہونے کے بعد ایک بار پھر عوامی احتجاج کا آغاز ہوا۔

احتجاجی مظاہرین کورونا کو جھوٹ اور فریب قرار دیتے ہوئے لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس دوران کئی درجن مظاہرین گرفتار بھی ہوئے۔ احتجاج کی یہی صورت حال روس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا، پولینڈ، فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، چین، برازیل، ارجنٹینا، انڈیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں درپیش ہوئی۔

بین الاقوامی تعلقات پر کورونا کے اثرات:کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی دو بڑے حریف ممالک امریکا اور چین کے مابین لفظی جنگ شروع ہوگئی اور دونوں اس وبا کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کووڈ 19کے پھیلاؤ کا الزام چینی حکومت پر دھرتے ہوئے کورونا کو ’ چینی وائرس‘ قرار دیا۔ اس کے جواب میں چین نے کہا کہ ووہان میں یہ مہلک وائرس امریکی فوجیوں نے پھیلایا۔

کورونا کے حوالے سے برازیل اور یورپی یونین نے بھی چین پر تنقید کی۔ چین نے کورونا سے نمٹنے کے لیے 82 ممالک کو تشخیصی کٹس اور حفاظتی سازوسامان ( پی پی ای) فراہم کیا۔ اس پر کہا گیا کہ اس اقدام سے چین کا مقصد اپنا امیج بہتر بنانا ہے۔کورونا کی وبا کے دوران کئی ممالک نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ ان ممالک کے لیے بنیادی ضرورت کا سازوسامان لے کر آنے والے بحری جہازوں کو راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

فرانس اور جرمنی نے کہا کہ امریکا نے انھیں بھیجے جانے والے این نائٹی فائیو ماسک عین آخری لمحات میں خرید لیے۔ امریکی صدر نے بھارت کو بھی خبردار کیا کہ اگر ہائیڈروکسی کلوروکوئین نامی (کورونا کے علاج میں استعمال ہونے والی) دوا امریکا کو برآمد نہ کی تو اسے نتائج بھگتنے ہوں گے۔

عالمی لاک ڈاؤن کے نتیجے میں تیل کی کھپت گھٹنے کے بعد سعودی عرب نے نرخ متوازن رکھنے کی غرض سے پیداوار کم کرنے کے لیے لابنگ شروع کردی، تاہم روس نے تیل کی پیداوار گھٹانے سے انکار کردیا۔ اس ’ ناں‘ نے دونوں ممالک کے مابین ’ آئل پرائس وار‘ کو جنم دیا جس کے نتیجے میں تیل کے نرخ منہ کے بل آگرے۔ یہاں تک نوبت آگئی کہ آئل کمپنیاں خریدار کو مفت تیل کے علاوہ تیل لے جانے پر اٹھنے والے اخراجات بھی ادا کرنے پر مجبور ہوگئیں۔

کورونا کے وبا کی صورت اختیار کرجانے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عالمی جنگ بندی کی اپیل کی گئی تھی۔ 25 جون 2020 تک اقوام متحدہ کے 172 رکن ممالک اس اپیل کے حق میں ایک بیان پر دستخط کرچکے تھے۔

کووڈ 19 کی ویکسین :کورونا کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی کئی ممالک میں اس سے تحفظ کے لیے  ویکسین کی تیاری کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ترقی یافتہ ممالک، عالمی ادارے اور ادویہ ساز کمپنیاں حرکت میں آئیں۔ ابتدا میں کہا گیا کہ ویکسین  کی تیاری اور اس کے عام استعمال میں کم از کم ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہوگا مگر ایک ہی سال میں  نہ صرف کئی ویکسین تیار ہوگئیں بلکہ تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد کئی ممالک میں محدود تعداد میں عام افرادکو بھی ان کی ڈوز لگائی گئیں۔

ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد دسمبر کے  اواخر میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، جمہوریہ چیک، اٹلی، آسٹریا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت ممالک میں کورونا کی ویکسین لگانے کا آغاز ہوگیا۔دسمبر تک تین ادویہ سازکمپنیوں کی تیارکردہ ویکسین  عالمی سطح پر تقسیم کاری کے لیے تیار تھی۔ ان کمپنیوں میں  امریکا کی فائزر اور موڈرنا اور برطانوی سویڈش آسٹرازینیکا شامل ہیں۔

2021ء میں یہ تینوں کمپنیاں مجموعی طور پر 5.3 ارب خوراکیں تیار کرپائیں گی مگر  اب تک  10 ارب خوراکوں کے سودے کیے جاچکے ہیں۔ ستم  یہ ہے کہ نصف سے زائد خوراکوں کے آرڈر امیر ممالک نے دیے ہیں اور کمپنیاں پہلے انھی کو ویکسین فراہم کریں گی۔ یوں  2023ء یا 2024ء سے پہلے غریب ملکوں کو کووڈ 19 کی ویکسین ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح   تیسری دنیا کو  مزید ایک یا دو برس کورونا کی ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کووڈ 19 کی دوسری لہر اور کورونا وائرس کی نئی قسم : ستمبر 2020  میں کورونا کی عالمی صورتحال تسلی بخش نظر آرہی تھی۔ نئے کیسوں کی شرح میں نمایاں کمی آئی تھی۔  تمام ممالک سے لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہوچکا تھا اور زندگی بڑی حد تک معمول پر آچکی تھی۔ صرف متاثرہ علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری تھا۔ تاہم اکتوبر کے آغاز ہی سے عالمی سطح پر کورونا کے کیس بڑھنے لگے۔ اس رجحان کو کورونا کی  دوسری لہر کہا گیا۔ ساتھ ساتھ ماہرین کی جانب سے خبردار کیا گیا کہ دوسری لہر پہلی سے کہیں زیادہ مہلک ہوگی۔

اکتوبر کے آغاز ہی سے کورونا کے کیسوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور تادم تحریر یہ 8کروڑ35 لاکھ تک پہنچ چکے ہیں، جب کہ ہلاکتوں کی تعداد  18 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ پاکستان میں دسمبر کے اواخر تک ہلاکتیں10ہزار سے بڑھ چکی تھی۔

کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ  ہی آسٹریا، آئرلینڈ، برطانیہ کے ناردرن آئی لینڈ اور ویلز میں اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا جاچکا  ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں تعلیمی ادارے دوبارہ بند کردیے گئے ہیں۔  تاہم کیسوں میں تیزرفتار اضافے کے باوجود عالمی سطح پر ابھی تک پہلی لہر جیسے سخت اقدامات نہیں کیے  گئے، لیکن ماہرین کاکہنا ہے کہ صورتحال برقرار رہی  تو پھر کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن، بین الاقوامی سرحدوں کی بندش، تجارتی و معاشی سرگرمیوں کی معطلی، فضائی پروازوں کی معطلی اور دیگر اقدامات ناگزیر ہوجائیں گے۔

دسمبر میں برطانیہ اور جرمنی میں کورونا وائرس  کی نئی قسم  دریافت کی گئی۔ سال کے اختتام تک نیا کورونا وائرس پاکستان، بھارت، سوئیڈن، کینیڈا اور اسپین سمیت 15 ممالک کی حدود میں داخل ہوچکا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔