مولانا سمیع الحق طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کر پائیں گے؟

اسلام آ باد:  آج 2014ء کا پہلا دن ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی سرد شاموں سے ایک مدت تک لطف اندوز ہونے والے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف اب کی بار یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ ہاں میں مشکل میں ہوں۔ سابق آرمی چیف کے بارے میں یہ فقرہ زبانِ زدِ عام رہا کہ میں ڈرتا ورتا نہیں۔

اب تک کی صورتحال میں انہوں نے یہ بات ثابت بھی کی ہے۔ ایک منصوبے کے تحت مخصوص بیک گراؤنڈ کے حامل ٹی وی اینکرز کو دیے گئے مختلف انٹرویوز میں جنرل (ر) پرویزمشرف نے یہ تسلیم کیا کہ ان سے اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی انہیں یہ توقع نہ تھی کہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنے اور ملک سے غداری کے مرتکب ہونے کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ یہ مانتے ہوئے کہ انہیں اب یقین ہو چکا ہے کہ وہ مشکل میں ہیں اب بھی ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں ا گر انہیں سزا ہوئی تو وہ معافی کی درخواست نہیں دیںگے کہ وہ درخواستیں دینے کے عادی نہیں۔ اس صورتحال پر ہی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے کہا ہے کہ جنرل مشرف بھٹو والی غلطی دہرا رہے ہیں۔ غداری کے مقدمے کے حوالے سے ماحول میں تیزی اس وقت آئی جب 27 دسمبر کو سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی والے دن وفاقی حکومت اور وزیراعظم پاکستان کے ترجمان پرویز رشید نے یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ پرویز مشرف کے بیرونِ ملک جانے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں، اگر وہ والدہ سے ملنا چاہتے ہیں تو حکومت انہیں اپنی والدہ کو دبئی سے پاکستان لانے کے لیے خصوصی طیارہ فراہم کر سکتی ہے۔

اسی روز سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے خطاب میں واضح کر دیا کہ پرویز مشرف اب کی بار پھنس چکے ہیں انہیں واپس نہ جانے دیا جائے۔ ایک اور پیرائے میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اسی روز سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو یقین ہو چکا تھا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ان کے خلاف مقدمہ کی کارروائی چلانے میں سنجیدہ ہیں اور پھر اسی روز سے انہوں نے اپنے من پسند اور بعض حلقوں کے تجویز کردہ اینکرز کو ٹیلی ویژن انٹرویوز کا سلسلہ شروع کر دیا پرویز مشرف اپنی سیاسی جماعت کے ذمہ داران اپنے مشیران، وکلاء اور میڈیا منیجرز سمیت تمام احبابِ کار سے نالاں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنا کیس پہلے میڈیا کے ذریعے اور بیرون ملک موجود ان کے بین الاقوامی تعلقاتِ کار دوستوں سے رابطوں اور بعد ازاں ضرورت پڑنے پر عدالت میں بھی از خود بول کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنے احباب سے یہاں تک کہا ہے کہ میرے خلاف مقدمہ شروع کیے جانے کے معاملے پر پوری پاک فوج نالاں ہے۔ پاک آرمی بالخصوص چیف آف آرمی سٹاف کو مشکل میں ڈالتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اب آدمی چیف جنرل راحیل شریف پر منحصر ہے کہ وہ میرے دفاع میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ آرمی میری آخری اُمید نہیں، اس ساری صورتحال میں سابق صدر پرویز مشرف کی شدید پریشانی عیاں ہے مگر وہ اپنے ساتھ دیگر اداروں اور افراد کو بھی مشکل میں ڈالے جا رہے ہیں۔ جیسے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں کہا کہ مجھے ان سے اس روّیے کی توقع نہ تھی۔ اب پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ گزشتہ کئی روز سے اس گومگو میں ہے کہ پاک فوج کے اس سابق سربراہ کی ان باتوں کا کیا جواب یا حل تلاش کیا جائے۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ فوج اپنی پوزیشن واضح کرے۔ ادھر میڈیا والے بھی آئی ایس پی آر سے ان کا ردعمل جاننے کی ضد کرتے ہوئے یوں درست ہیں کہ جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن کی جانب سے دیے گئے ایک معاملے پر آئی ایس پی آر نے بروقت اور درست وضاحت جاری کی تھی مگر اب ایک سیاسی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ، سابق صدر پاکستان اور سابق آرمی چیف اپنے ایک ذاتی مقدمے اور معاملے میں پوری پاک فوج کو اپنے ساتھ کھڑا قرار دے رہے ہیں۔ وہ اس اہم ترین ادارے کے سربراہ کا براہ راست نام لیتے ہوئے انہیں اپنے دفاع کے لیے کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ آئندہ ایک دو روز میں آئی ایس پی آر پاک فوج کی جانب سے چند سطری وضاحت ضرور جاری کر دے گا۔

وفاقی حکومت ورثے میں ملے دہشت گردی کے مسئلے سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی مسلسل تگ و دو کیے جا رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے حوصلہ افزاء جواب نہ ملنے یا ان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات بارے میں مثبت پیش رفت نہ ہونے کے باعث اب وزیراعظم نواز شریف نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر ان سے تفصیلی تبادلہ خیالات کرتے ہوئے انہیں باور کرایا ہے کہ وفاقی حکومت شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن کا حتمی آپشن آزمانے سے قبل ایک بار اور آخری بار امن مذاکرات کی سنجیدہ کوشش کرنا چاہتی ہے۔

مولانا سمیع الحق کو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے زیادہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا مہتمم ہونے کی وجہ سے طالبان میں زیادہ قابل اعتبار اور قابل احترام جانا جاتا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے صف اوّل کے قائد ہونے کی وجہ سے بھی وہ اپنا ایک موقف اور وزن رکھتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ طالبان کے مختلف گروپوں یا کم از کم مولانا فضل اللہ کی قیادت کو تسلیم کرنے والے گروپ کو حکومت کے ساتھ قیام امن کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں موسمی شدت کم ہونے سے پہلے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ ادھر وفاقی حکومت کو کراچی میں جاری آپریشن کو بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے زیرالتواء قانون سازی کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا ہو گا کہ کراچی میں آپریشن کے پہلے دو مراحل میں گھر گھر تلاشی اور دیگر کارروائیوں کے دوران تقریباً چار ہزار سے زائد خطرناک مجرموں کے خلاف تمام شواہد اکٹھے ہو چکے ہیں، اب محض قانون سازی مکمل ہو تو ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ اس حوالے سے حکومت سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے میں ہے اور وہ کراچی میں امن کی بحالی کے لیے تیسرے اور سخت ترین مرحلے کے لیے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بلاشبہ کراچی کا امن اس ملک کی کاروباری و تجارتی ترقی کا ضامن ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ملک میں موجود لاکھوں بے روزگار اور مایوس کاروباری افراد کو اُمید کی نئی کرن دکھانے کی کوشش یوتھ بزنس لون سکیم کے تحت دکھائی گئی مگر نیشنل بنک آف پاکستان کی ایک بریفنگ میں گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کو بتایا گیا کہ اب تک ان کے بنک کی ویب سائٹ سے 27 لاکھ افراد نے فارم تو ڈاؤن لوڈ کیے مگر فارم جمع محض 4 ہزار افراد نے کرائے۔ اتنی کم تعداد میں فارم جمع کرائے جانے کی وجہ پوچھی گئی تو وزیراعظم کو بتایا گیا کہ قرض حاصل کرنے کی شرائط ذرا سخت ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے یہ شرائط وزارت خزانہ اور بنک حکام سے بلا پوچھے نرم کر دیں کہ یہی منصوبہ ان کی حکومت کی جانب سے عوامی فلاح کے لیے پیش کردہ پہلا باقاعدہ منصوبہ ہے اور یہ انہیں اس لیے بھی زیادہ عزیز ہے کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن ہیں اور وزیراعظم نواز شریف کو مستقبل میں سیاسی میدان میں مریم نواز سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ اس لیے وہ اس منصوبے کو کسی صورت ناکام ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے اور یہی اس منصوبے کی کامیابی اور پاکستان کے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کی خوشحالی کی حوصلہ افزاء امید بھی ہے۔