جاتا برس جاتے جاتے نیلسن منڈیلا کو لے گیا

آصف زیدی  اتوار 5 جنوری 2014
جب نفرت کا ادراک ہوجاتا ہے تو محبت کا جذبہ خود بخود مضبوطی سے سامنے آتا ہے، نیلسن منڈیلا۔ فوٹو: فائل

جب نفرت کا ادراک ہوجاتا ہے تو محبت کا جذبہ خود بخود مضبوطی سے سامنے آتا ہے، نیلسن منڈیلا۔ فوٹو: فائل

؎ شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

واقعی کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن کا ہونا ہر ایک کے لیے باعث اطمینان ہوتا ہے اور اگر وہ دنیا سے چلے ہی جائیں تو بے حد رنج و دکھ کے باوجود ان کی خوب صورت باتیں اور یادیں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ نیلسن منڈیلا کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔ انھیں ان کی زندگی میں جنوبی افریقہ کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں کی محبت ملی اور ان کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ہر کوئی ان کی  مثالی زندگی، اپنے ملک کی سیاہ فام اکثریت کے لیے پُرامن جدوجہد اور انسان دوستی کے جذبے کو یاد کرتا نظر آتا ہے۔

نیلسن منڈیلا 18 جولائی 1918ء کو دنیا میں آئے اور 5 دسمبر 2013 کو کروڑوں مداحوں کو افسردہ چھوڑ گئے۔ ان کا پورا نام رولیلاہل منڈیلا Rolihlahla Mandela رکھا گیا تھا، لیکن جب 7 سال کی عمر میں انھوں نے اسکول جانا شروع کیا تو وہاں ان کو نیلسن منڈیلا پکارا جانے لگا۔ نیلسن منڈیلا کے  والد نے 4 شادیاں کی تھیں، منڈیلا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ دیہی علاقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھوں نے ابتدائی عمرمیں گلہ بانی بھی کی۔ جب وہ 12 سال کے ہوئے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ یوں منڈیلا نے بچپن سے آخری وقت تک ساری زندگی بھرپور جدوجہد میں گزاری۔نیلسن  منڈیلا کی وفات سے دنیا ایک عظیم اور حقیقی معنوں میں انسان دوست راہ نما سے محروم ہوگئی۔ دنیا انھیں ایک ایسے لیڈر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جس نے اپنی ساری زندگی انسانی مساوات، کم زوروں کے حقوق اور جمہوریت کی بقا کے لیے گزاری۔ یوں تو وہ 1994 سے 1999 کے عرصے میں جنوبی افریقہ کے صدر بھی رہے، لیکن انھوں نے ساری زندگی عوام کے دلوں پر حکم رانی کی۔ منڈیلا  کی جدوجہد کے معترف وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے انہیں 27 سال پابند سلاسل رکھا۔ ان کے مخالفین بھی انھیں ایک بڑا آدمی قرار دیتے ہیں۔

 photo Nelsonmandela_zps483bc6a3.jpg

نیلسن منڈیلا اپنے وطن پر قابض نسل پرست حکومت کے خلاف طویل جدوجہد کرنے کے بعد جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے تھے، لیکن انھوں نے کبھی رنگ و نسل کو اپنی پہچان نہیں بنایا، بلکہ ساری زندگی سب کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے، انھوں نے سربراہ مملکت کی حیثیت سے جمہوریت کے استحکام، ظلم و زیادتیوں کے خاتمے اور سفیدوسیاہ فام آبادی کے درمیان مصالحتی عمل کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے، وہ 1991سے 1997تک افریقی نیشنل کانگریس کے صدر رہے، جب کہ 1998تا 1999انھوں نے (NAM)Non Aligned Movement کی ہی قیادت کی۔ جمہوریت سے محبت اور عوام کو ان کے حقوق دلانے کے ’’جرم‘‘ میں جنوبی افریقہ کے حکم رانوں نے  نیلسن منڈیلا کو 27 سال جیل میں رکھا۔ انھوں نے رابن آئی لینڈ، پولز مور جیل اور وکٹر ورسٹر جیل میں اسیری کے شب و روز گزارے۔ اتنی طویل قید اور اپنوں سے دوری کے دکھ کے باوجود منڈیلا کی ہمت، جرأت، حوصلہ اور عزم کم زور ہونے کے بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ دورانِ قید 1968ء میں نیلسن منڈیلا کو اپنی والدہ اور بیٹے کے انتقال کا صدمہ بھی سہنا پڑا، لیکن انھیں جیل سے باہر آنے کی اجازت نہیں ملی۔

عالمی سطح پر نیک نامی اور اچھی شہرت کی وجہ سے مختلف ممالک میں بھی نیلسن منڈیلا کو بہت  عزت و احترام دیا جاتا تھا اور اب ان کے انتقال کے بعد ساری دنیا میں ان کی جدائی کا دکھ محسوس کیا گیا ہے۔ نیلسن منڈیلا عالمی  سطح پر ایک متحرک لیڈر تھے۔ انھوں  نے پین ایم طیارے کے حادثے کے معاملے میں امریکا اور لیبیا کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ اپنے انسانیت نواز نظریات، جدوجہد اور کردار کی وجہ سے نیلسن منڈیلا کو دنیا بھر میں جو محبت اور عزت ملی وہ کم ہی شخصیات کو نصیب ہوئی ہے۔  نیلسن منڈیلا نے تقریباً 250 ایوارڈ اور اعزازات حاصل کیے، جن میں امن کا نوبل انعام بھی شامل ہے جو انھیں 1993 میں دیا گیا۔

 photo Nelsonmandela1_zpsfff049a9.jpg

نیلسن منڈیلا کے اقوال

یوں تو نیلسن منڈیلا کی جنھیں ان کے قبائلی حوالے سے ’’مادیبا‘‘ ہی کہا جاتا ہے جدوجہد سب کے لیے ایک مثال اور سبق کا درجہ رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی کام مشکل یا ناممکن نہیں، لیکن نیلسن منڈیلا نے اپنی جدوجہد، محنت اور ریاضت سے واقعی یہ کر دکھایا کہ انسان سچے دل سے اپنے جائز حق کے لیے جدوجہد کرے تو اسے کام یاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ منڈیلا کا کہنا تھا،’’ہر چیز اس وقت تک ناممکن ہے جب تک وہ ہو نہ جائے۔‘‘ انسان کے بہت جلد مشکل صورت حال میں مایوس ہوجانے اور ہمت ہار جانے کو بھی منڈیلا صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ مشکلات اور مسائل سے لڑنے کا سبق دیا اور عملی طور پر یہ کرکے دکھایا کہ مضبوط عزم کے سامنے مشکلات کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ وہ کہا کرتے تھے،’’میں بنیادی طور پر ایک ایسا شخص ہوں جو ہر وقت اور ہر قسم کے حالات میں پر امید رہتا ہے۔‘‘

ہم یہاں نیلسن منڈیلا کے کچھ اہم فرمودات دے رہے ہیں:

٭زندہ سب رہتے ہیں، لیکن زندگی اس طرح گزارنی چاہیے جس میں دوسروں کی آزادی کا احترام بھی شامل ہو۔

٭کسی کو بھی اس لیے پیدا نہیں کیا گیا کہ وہ زبان، مذہب، رنگ و نسل کی بنیاد پر دوسروں سے نفرت کرے۔ لوگوں کو نفرت کی سمجھ آنی چاہیے، کیوں کہ جب نفرت کا ادراک ہوجاتا ہے تو محبت کا جذبہ خود بخود مضبوطی سے سامنے آتا ہے۔

٭ ایک اونچے پہاڑ کو سر کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تو اس سے زیادہ بلند پہاڑیاں اور بھی ہیں۔

٭ زندگی میں کام یابی یہ نہیں کہ انسان کبھی نہ گر بلکہ اصل کام یابی یہ ہے کہ انسان ہر بار گرکر زیادہ جوش وجذبے کے ساتھ اٹھ جائے۔

٭ اگر آپ امن چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے دشمنوں کے ساتھ کام کرنا ہوگا جب ہی وہ آپ کے ساتھی بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔