آئین ساز اور آئین شکن …کتنا فرق ہے دونوں میں

ایاز خان  پير 6 جنوری 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

حالات اتنی تیزی سے بدل جاتے ہیں کہ یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ایک دن یا چند گھنٹے پہلے کیا ایشو تھا۔ نجی ٹی وی چینل اور ان کے اینکر حالات کی تبدیلی کے اس کاروبار سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کا راز بھی یہی کاروبار ہے۔ گزشتہ ہفتہ بھی یہ کاروبار عروج پر رہا۔ نیا سال شروع ہوتے ہی پرویز مشرف کا مقدمہ اور ان کی اچانک دل کی تکلیف میڈیا پر چھا گئی۔ موصوف کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ عدالت میں پیشی کے لیے چک شہزاد سے نکلے اور راستے میں اچانک ان کے دل نے گڑبڑ کر دی اور انھیں وہاں سے سیدھا فوجی اسپتال پہنچا دیا گیا۔ ان کے تمام ٹیسٹ لیے گئے۔ آئی سی یو میں خوب دیکھ بھال کی گئی اور پھر کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ مشرف بہترین اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ باقی سب تو ٹھیک ہے صرف یہ طے کیا جانا باقی ہے کہ ان کاعلاج اندرون ملک کیا جانا ہے یا لندن کے کسی بہترین اسپتال میں۔ سابق ہی سہی وہ اس ملک کے حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ مقامی اسپتالوں میں علاج نہیں کراتا۔ اپنے اسپتالوں اور ڈاکٹروں پر انھیں اعتماد نہیں ہے۔ صہبا مشرف نے غالباً اسی غرض سے چوتھی بار اپنے شوہر کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی مگر وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ سابق آرمی چیف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پرویز مشرف کے ایشو پر بعد میں آئیں گے فی الحال ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے اچانک مطالبے کی بات کر لیتے ہیں۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبے کے قیام کے مطالبات کا سلسلہ چل رہا تھا تو الطاف حسین بڑی شدو مد سے ان مطالبات کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہو سکے البتہ الطاف حسین نے اردو بولنے والے سندھیوں کے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کر کے دیگر دو مجوزہ صوبوں کی حمایت کا صلہ مانگ لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں کسی طرف سے حمایت نہیں ملی۔ الطاف حسین نے یہاں تک دھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر ففٹی ففٹی پر بات نہ بنی تو پھر بات ملک تک بھی جا سکتی ہے۔ یعنی الگ صوبے کا مطالبہ نہ مانا گیا تو الگ ملک کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ پیپلز پارٹی سندھ کے لیڈروں نے اس مطالبے پر شدید رد عمل ظاہر کیا۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ صرف کراچی کو ہی سندھ سے الگ کر دیا جائے تو پھر سندھیوں کے پاس باقی کیا بچے گا۔ کراچی میں بھی کئی قومیتیں رہائش پذیر ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق وہاں اردو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 45 سے 50 لاکھ تک پشتون‘ 20 لاکھ سے زاید پنجابی موجود ہیں جب کہ سندھی اور بلوچ بھی 40 لاکھ سے زیادہ ہیں۔ مردم شماری جب تک نہیں ہوتی قومیتوں کی اصل تعداد کا پتہ لگانا ممکن نہیں‘ محض اندازوں سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ الطاف حسین کے اس مطالبے کو کچھ لوگ پرویز مشرف کی حمایت کے زمرے میں بھی ڈال رہے ہیں جب کہ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ الطاف حسین کے لیے برطانوی پولیس مشکلات کا باعث بن رہی ہے اس لیے انھیں یہ مطالبہ کرنا پڑا۔ اتوار کو اس کہانی میں البتہ ایک نیا موڑ آ گیا جب الطاف حسین نے کچھ وضاحتیں‘ کچھ شکوے اور کچھ نئے مطالبات کر دیے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پہلے خطاب کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ساری  بات if اور but کے ساتھ کی تھی۔ اب پتہ نہیں پورے میڈیا کو ہی غلط فہمی کیوں ہو گئی۔ کالا باغ ڈیم اور دیگر حوالوں سے بھی انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس کو بھی ایسے ہی دیکھا جانا چاہیے جس تناظر میں وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں۔ ان کا تازہ فرمان یہ ہے کہ سندھ ون اور سندھ ٹو بنا دیں۔ یاد رہے کہ یہ مطالبہ بھی اگر مگر کے بغیر نہیں ہے۔ بلاول اور حمزہ کا اس بیان پر رد عمل بھی بے کار ہی جائے گا۔

واپس پرویز مشرف کے ایشو پر آتے ہیں۔خصوصی عدالت سابق آرمی چیف کو چار مرتبہ طلب کر چکی ہے۔دو مرتبہ راستے سے بارود برآمد ہو گیا۔ تیسری طلبی کے موقع پر دل کی دھڑکنیں مشرف کی ضمانت بن گئیں اور وہ پیشی سے بچ گئے۔ چوتھی طلبی پر وہ اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ عدالت نے آج گیارہ بجے تک ان کی میڈیکل رپورٹس مانگی ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ سرکاری وکیل اکرم شیخ نے ایک اور استثنا دینے پر احتجاج بھی کیا ہے لیکن عدالت نے بیمار کے وکیلوں کا موقف مان لیا ہے۔ اکرم شیخ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مشرف عدالتی فیصلے تک باہر نہیں جا سکیں گے لیکن ممکن ہے سابق کمانڈو کا بیمار دل ان کے لیے ’’ویزہ‘‘ بن جائے اور وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ نواز شریف کی سب سے بڑی اپوزیشن پیپلز پارٹی پرویز مشرف پر 12 اکتوبر 1999ء سے غداری کا مقدمہ چلانے کامطالبہ کر رہی ہے۔ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ 12اکتوبر نہ ہوتا تو 3 نومبر کی نوبت بھی نہ آتی۔ یہ جواز تو بالکل درست ہے لیکن کیا کیا جائے کہ 12 اکتوبر کے ایکشن کو سپریم کورٹ بھی جائز قرار دے چکی ہے اور اس پارلیمنٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی تھی جس میں پیپلز پارٹی شامل تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر پیپلز پارٹی کا اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ انھی کے وزیر اعظم نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے افتخار چوہدری کو بحال کیا تھا۔ خورشیدہ شاہ کہتے ہیں 12اکتوبر کو ایک ڈکٹیٹر نے منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹا اور اسے جیل میں ڈال دیا۔ حضورجب جیل جانے والے وزیر اعظم کو اعتراض نہیں تو آپ بلا وجہ اس کے وکیل کیوں بنے ہوئے ہیں۔

آئین معطل کرنے والے ڈکٹیٹر کو ابھی تک خصوصی عدالت میں  پیش ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔ دو دن پہلے 5جنوری کو ایک ایسے وزیر اعظم کی 86ویں سالگرہ تھی جس نے وہ آئین بنایا تھا جسے پہلے ضیاء الحق اور پھر پرویز مشرف نے معطل کیا۔ اس وزیر اعظم یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس آئین ساز وزیر اعظم کے بارے میں کرنل رفیع کی کتاب سے چند اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔

’’بھٹو کے آخری 323 دن‘‘ان ایام کی ردواد ہے، جو ذوالفقار علی بھٹو نے سنٹرل جیل راولپنڈی میں گزارے۔ کرنل(ر) رفیع الدین کو مارشل لاء حکام نے اسپیشل سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا تھا۔

’’6 فروری1979ء کو سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کی اپیل مسترد کر دی تھی، اس دن سے بھٹو صاحب کے بارے میں اسٹاف کا رویہ بدلنے لگا۔ جب رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی تو ہر شخص کا رویہ بالکل بدل گیا۔ اس کے بعد میں جب بھی بھٹو صاحب سے ملا، انھوں نے یہی گلہ کیا کہ ان کی بے عزتی ہو رہی ہے۔ میں نے کوشش کی کہ جیل حکام اتنی سختی نہ کریں لیکن سب نے آنکھیں پھیر لی تھیں۔‘‘

کرنل(ر)رفیع الدین ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد جب پھانسی کی سزا کا حکم پڑھ کر سنا رہا تھا تو بھٹو صاحب بغیر کسی گھبراہٹ یا پریشانی کے لیٹے رہے۔ بلکہ ان کے جسم اور چہرے پر نرم نازک ڈھیلا پن اور مسکراہٹ نمودار ہوئی۔‘‘

کرنل (ر) رفیع الدین نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول سے بھٹو کی موت سے ایک دن قبل جو گفتگو ہوئی، اسے   یوں نقل کیا ہے۔ ’’ڈپٹی صاحب! آپ لوگوں کو ایسا لیڈرکہاں سے ملے گا۔ مگر آپ کو ضرورت ہی کیا ہے۔ ضرورت تو غریبوں کو تھی۔ میں موچی دروازے میں موچیوں کے سامنے تقریریں کیا کرتا تھا کیوں کہ میں خود موچی ہوں۔ تم لوگ غریبوں کا لیڈر چھین رہے ہو۔ میں انقلابی آدمی ہوں۔ غریبوں کا حامی ہوں۔ یارمجھے مارنا ہی تھا تو دو سال خراب کیوں کیا۔ میری عزت کیوں نہیں کی جو ساری دنیا میں ہے۔ مجھے کسی ریسٹ ہاؤس یا کسی کوٹھی میں رکھتے اور عزت سے مار دیتے۔ آج اسلامی کانفرنس کے چیئرمین کو جسے ساری دنیا کے مسلمانوں نے منتخب کیا ہے، شیو کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ میرے ساتھ کھڑے ہو تاکہ بلیڈ سے خود کو ضرب نہ لگا لوں۔‘‘

آئین بنانے والے وزیر اعظم کے ساتھ جیل میں جو کچھ ہوا یہ اس کی ایک جھلک ہے۔ آئین ساز نے پھانسی کی سزا کا حکم کسی گھبراہٹ کے بغیر سنا اور آئین توڑنے والا محض عدالت میں طلبی پر بیمار ہو گیا۔ آئین معطل کرنے والے ڈکٹیٹر کو ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ جمہوریت واقعی ’’مضبوط‘‘ ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔