خوئے غلامی

نصرت جاوید  جمعـء 10 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چیک ریپبلک یورپ کا ایک نسبتاَ چھوٹا ملک ہے۔ مگر اس کے دارالحکومت پراگ میں نہ جانے کیا بات ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ’’وکھری ٹائپ‘‘ کا ادب پیدا کرنے پر ہمیشہ اُکساتی رہتی ہے۔ کسی زمانے کی آسٹرو ہنگرین ایمپائر کے صدیوں تک زیر نگین رہنے کی وجہ سے انتہا پسند جرمن قوم پرست، چیک لوگوں کے جداگانہ تشخص کو ابھی تک دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو سٹالن اور اس کے بعد والے حکمرانوں نے اس ملک کو اپنی سوویٹ ایمپائرکے تسلط میں جکڑ لیا۔ اپنے ہمسایے میں بڑی طاقتور اور توسیع پسند قوتوں کی موجودگی کے باوجود چیک لوگوں نے اپنے آزادانہ تشخص کو ہمیشہ بڑی جرأت کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ آزاد رہنے کی اسی تڑپ کے باعث پراگ میں ایسا ماحول پیدا ہوا جس نے عالمی ادب کو کافکا جیسا لکھاری بخشا۔ کافکا ذات کا یہودی اور بچپن سے ٹی بی کا مریض تھا۔ اسے چیک زبان لکھنا بھی نہیں آتی تھی۔ وہ لکھتا جرمن زبان میں رہا۔ مگر اس کے مرجانے کے کئی برس بعد اس کے ناول شایع ہوئے تو دُنیا حیران ہو گئی۔ آج دُنیا کی کسی بھی زبان میں لکھنے والا کوئی ادیب اس کی تحریروں کو پڑھے بغیر کوئی شاہکار لکھنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔

کافکا کی متعارف کردہ روایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میلان کندیرا نے 1980ء کی دہائی میں چند ناول لکھے جو آپ کو اس ’’خوئے غلامی‘‘ سے دل دہلادینے کی حد تک آگاہ کر دیتے ہیں جو ’’نظریات‘‘کی بنیاد پر قائم آمریتیں اپنے محکوم بنائے لوگوں کے دل ودماغ میں پوری طرح بسادیتی ہیں۔ کندیرا کا مگر ایمان یہ بھی ہے کہ ایک سوچنے سمجھنے والے دماغ اور دھڑکتے دل کا مالک کوئی فرد اپنے ارد گرد پھیلی خوئے غلامی کا مسلسل عادی بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ اپنی بات کے ثبوت میں وہ ہمیشہ بہت ہی عام لوگوں کی روزمرہّ زندگیوں سے وہ ڈرامائی لمحے تراش لیتا ہے جو خوے غلامی کو انکار کے تیشے سے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ کندیرا ناولوں کو صرف داستانوں کی صورت نہیں لکھتا۔ اپنے کرداروں کی روزمرہّ زندگی کو بیان کرتے ہوئے وہ اچانک ان کی تحلیل نفسی کرتا ہوا کچھ فلسفیانہ نکتے بھی دریافت کر لیتا ہے۔ ان نکتوں کا بیان کبھی کبھار اس کے ناولوں کو اجتماعی نفسیات پر لکھا ایک تجزیاتی مضمون بھی بنا دیتے ہیں۔

کندیرا کی تحریروں میں سب سے زیادہ زور اس نکتے پر دیا جاتا ہے کہ لوگوں پر مسلط آمریتیں برسوں تک قائم رہتی ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اپنی اجتماعی تاریخ کو یاد نہیں رکھتے۔ اپنے روزمرہّ کے مسائل میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ان کی نگاہ صرف ’’موجود‘‘ پر مرکوز رہتی ہے۔ ’’موجود‘‘ اور اس کی حالیہ تاریخ چونکہ بڑی طاقتور رہی ہوتی ہے اس لیے کوئی فرد اس کا مقابلہ کرنے کی اپنے میں جرأت نہیں پاتا۔ جرأت کر بھی لے تو اس کے دوست احباب اپنی سہولت بھری زندگیوں کو برقرار رکھنے کی خاطر اسے تنہاء چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے مراحل میں ایک لکھنے والے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی آزاد فکری کی وجہ سے تنہا اور پریشان ہوئے فرد کو اپنی تحریروں کے ذریعے حوصلہ بخشے۔ ان دنوں جب پاکستان میں ہر طرف ’’مشرف مشرف‘‘ ہورہی ہے تو مجھے میلان کندیرا بہت یاد آ رہا ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والوں میں معدودے چند ’’ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ والی حقیقت کو سمجھ کر لوگوں کے سامنے کہہ ڈالنے کا حوصلہ کر پا رہے ہیں۔

مشرف صاحب کو عدالت کے سامنے پیش ہونا تھا۔ وہ گھر سے نکلے مگر سیدھا پاک فوج کے زیر کنٹرول اسپتال جا پہنچے۔ یہ کالم لکھنے تک وہیں موجود تھے۔ خدا انھیں شفا دے۔ لمبی عمر عطا فرمائے۔ ہمارے بہت سارے لوگوں کو اگرچہ یاد نہیں ہو گا لیکن میں 1981ء کے ابتدائی ایام کے ان لمحوں سے پوری طرح واقف ہوں جب میں لندن میں تھا اور وہاں ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی دوست اور دانتوں کے معالج ڈاکٹر ظفر نیازی اذیت ناک تنہائی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو کئی ماہ سے کراچی میں نظر بند تھیں۔

نظر بندی کے دوران وہ شدید بیمار ہو گئیں۔ بڑی منت سماجت کے بعد ضیا حکومت نے ان کو چند لمحوں کے لیے اسپتال بھجوا کر کچھ ٹیسٹ کرانے کی اجازت دی۔ ڈاکٹروں نے ان کی مکمل ٹیسٹوں کی رپورٹ دیکھی تو اس خدشے کا اظہار کیا کہ بیگم نصرت بھٹو کے ایک پھیپھڑے کو سرطان کا موذی مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ان دنوں ڈاکٹروں کے ایسے خدشے کے مکمل تجزیے کا انتظام متعارف نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ بیگم نصرت بھٹو کو بیرون ملک جا کر ہی اپنی بیماری کی مکمل تشخیص کرانا ہو گی۔ جنرل ضیاء الحق کے دربار میں ڈاکٹروں کی یہ رائے پیش کی گئی تو انھوں نے بجائے فائل پر کوئی حکم صادر فرمانے کے پبلک میں آ کر بڑی سفاکی سے یہ بیان دے دیا کہ پاکستان میں کافی جدید اور ترقی یافتہ اسپتال بھی موجود ہیں۔ بیگم بھٹو کا خاندان ان سے رجوع کیوں نہیں کرتا۔ ایسے اسپتالوں نے کہا تو ’’مجھے بیگم صاحبہ کو کسی غیر ملک چھٹیاں گزارنے کے لیے بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘۔

ڈاکٹر ظفر نیازی کے پاس بیگم بھٹو کے ٹیسٹ کی رپورٹیں کسی نہ کسی طرح پہنچ چکی تھیں۔ انھوں نے بڑی مشکلوں سے لندن کے مشہور پکاڈلی چوک کے قریب ’’جرمن اسٹریٹ‘‘ کی ایک بوسیدہ عمارت کی تیسری منزل پر ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر وہاں  Save Begum Bhutto کا دفتر بنا دیا۔ دل کے مریض ہوتے ہوئے بھی وہ ہانپتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اس دفتر آتے اور سارا دن تقریباَ اکیلے بیٹھ کر امریکا اور یورپ کے اہم وزیروں اور قانون سازوں کو درد بھری چٹھیاں ہاتھ سے ٹائپ کرنے کے بعد ٹیسٹ رپورٹوں کی نقول کے ساتھ لگا کر لفافوں میں ڈالتے رہتے۔ میں پیپلز پارٹی کا کبھی کارکن نہیں رہا تھا۔ ڈاکٹر ظفر نیازی سے ذاتی شناسائی تھی۔ مجھے ان کے حال پر رحم آ گیا۔ جب بھی فارغ ہوتا ان کے دفتر جا کر لفافے بنانے اور ان پر ڈاک کے ٹکٹ چسپاں کرنے میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیتا۔ جنرل ضیا کے دل میں رحم آنے کی مگر دور تک کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی تھی۔

بیگم بھٹو کی خوش نصیبی کہ ایک صبح میں نے لندن کے گارڈین میں وہاں کی کینسر کے حوالے سے مشہور ایک ڈاکٹر کا ایک بیان دیکھا۔ اس بیان کے ذریعے اس ڈاکٹر نے اخبار نویسوں کو اس خبر کی تصدیق کر دی کہ ایک زمانے کی بڑی مشہور اداکارہ انگرڈ برگمین اب سرطان کی مریض ہے۔ یہ بیان پڑھنے کے بعد میں نے ڈاکٹر نیازی کو مشورہ دیا کہ وہ کسی صورت اسی ڈاکٹر کو بیگم بھٹو کی رپورٹیں دکھا کر کوئی بیان حاصل کریں۔ دس دن کی مسلسل کاوشوں کے بعد ظفر نیازی نے بالآخر یہ بیان حاصل کر لیا۔ ان دنوں کے فرانسیسی صدر تک وہ بیان کسی طرح پہنچا تو اس نے ڈاکٹر ظفر نیازی کو پیرس بلوا کر حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ وہ مطمئن ہو گیا تو صدر ریگن کو فون کے ذریعے درخواست کی کہ وہ بیگم بھٹو کو تشخیص کے لیے پاکستان سے باہر نکلوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ریگن قائل ہو گئے تو ضیا نے اس کی بات مان لینے میں ذرا دیر بھی نہ لگائی۔

مشرف اور بیگم بھٹو کی بیماری کے درمیان ’’فرق‘‘ کے حوالے سے جُڑی یادوں نے مجھے ایک بار پھر اپنی ’’خوئے غلامی‘‘ خوب سمجھا دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔