پاک بھارت تجارت کیوں ضروری ہے؟ 

علی احمد ڈھلوں  منگل 6 اپريل 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی خبریں گزشتہ ماہ 23مارچ سے ہی گردش کر رہی ہیں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم پاکستان کے موقعے پر پاکستان کے نام تہنیتی پیغام بھیجا، جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی مثبت پیغام دیا، پھر نئے وزیر خزانہ حماد اظہر نے ہمیں پاک بھارت تجارت کھولنے کی خوشخبری بھی سنا ڈالی تو ایسے لگا جیسے دونوں حریف ممالک کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔

لیکن وفاقی کابینہ کی طرف سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز مسترد ہونے سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے خیالات پس منظر میں چلے گئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ہم وہاں کھڑے ہوگئے جسے کشیدگی کے ماحول کی صورتحال قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ بات دنیا جانتی ہے کہ پاکستان بھارت کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں رہے، دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت کئی معاملات حل طلب ہیں، اسی لیے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کئی بار تعطل کا شکار ہوئی ہے، اور شاید یہ دنیا کے واحد ممالک بھی ہیں جن کی آپسی دشمنی اتنی سخت ہے کہ جب یہ لڑتے ہیں تو تجارت بھی ترک کر دیتے ہیں ورنہ دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ جو ممالک آپس میں لڑتے ہیں مگر تجارت کو معطل نہیں ہونے دیتے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، حال ہی میں دیکھ لیں لداخ میں چین اوربھارت میں خوفناک جھڑپ بھی ہو چکی ہے 1962،میں مکمل جنگ بھی ہو چکی اس کے باوجود دونوں ممالک تجارت میں شراکت دار ہیں بہت بڑے حلیف ہیں۔

چین اور امریکا عالمی سیاست کے میدان میںکھلے حریف ہیں، امریکا چین کے عالمی افق کی طرف اٹھتے قدموں کو روکنا چاہتا ہے اس کی عالمی برتری کی راہیں کھوٹی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اس کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے بڑی بڑی امریکی کمپنیاں چین میں قائم ہیں امریکا نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، چین نے کھربوں ڈالر بطور قرض امریکا کو دے رکھے ہیں مفادات بھی چل رہے ہیں اور دشمنی بھی نبھائی جا رہی ہے۔

پھر امریکا میکسیکو کے تعلقات بھی کبھی نارمل نہیں رہے لیکن اُن کے درمیان تجارت کبھی معطل نہیں ہوئی، پھر جرمنی اور فرانس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے، اور یہ نوک جھونک 200سال پرانی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ان دونوں ممالک کی تجارت کبھی معطل ہوئی ہو۔

اس سے پہلے اگر ہم بھارت کے ساتھ تجارت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ زیادہ خوش کن نہیں رہی، آزاد ہونے کے بعد ہماری پہلی جنگ ہی 1948میں ہو ئی ، لیکن ہماری تجارت نہ رکی اور 1948-49میں ہماری 56فیصد ایکسپورٹ انڈیا ہی کو ہوتی تھی ۔ پھر اگلے کئی سال تک پاکستان اور بھارت تجارت کے حوالے سے بڑے پارٹنر کے طور پر جانے جاتے تھے، اور ان 17سالوں(1948-1965) میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 14تجارتی معاہدے ہوئے۔ اس دوران انڈیا کے بینکوں کی 6برانچیں پاکستان میں کھل چکی تھیں۔ پھر 1965 میں ہماری دوبارہ جنگ ہوگئی جس کے بعد 10جنوری 1966 کو ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان تاشقند (ازبکستان) میں جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا،مذاکرات ہوئے۔

طے پایا کہ دونوں اطراف کی فوجیں اگست سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائیں گی اور سفارتی، تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا، اور  دوبارہ تجارت بحال ہوگئی، اُس وقت تجارت کا یہ حجم 6کروڑ روپے تک پہنچا ہی تھا کہ عوامی سطح پر احتجاج اور 1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت محدود ہوگئی اور انڈین بینکوں نے اپنی برانچیں بند کر دیں۔ پھر بھٹو نے پاک بھارت تجارت کا آغاز کرنا چاہا لیکن وہ مذہبی جماعتوں کے دبائو میں آگئے اور ایسا نہ کر سکے، پھر جنرل ضیاء الحق کا دور شروع ہوتا ہے۔ 1980کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔

اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع تھا، اس دوران بھی جنرل ضیاء الحق نے1983 میں بھارت کے ساتھ تجارت کھولی ، تب تجارت کا حجم 50کروڑ تک جا پہنچا تھا، لیکن1989 میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ایک بار پھر بند کر دی گئی ۔

خیر موجودہ حالات میں اگر حکومت نے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی منظوری دی ہی تھی تو اس پر ’’یوٹرن‘‘ کیوں لیا گیا؟ اور ظاہر ہے حماد اظہر نے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر تو اسے نہیں تیار کیا ہوگا۔ لہٰذا پھر ایسا کیا ہوا کہ انھیں اس تجارت کو ترک کرنا پڑا، اور دوسری بات یہ کہ عوامی دبائو کو موجودہ حکومت تو ویسے بھی کسی کھاتے میں نہیں لکھتی تو پھر کہاں سے دبائو آ سکتا ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے! کیا موجودہ حکومت اپنے فیصلوں پر ڈٹے رہنے کے قابل بھی نہیں ہے؟ اور رہی بات کشمیر کی تو مجھے یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ ہماری تو کشمیر پالیسی واضح نہیں، کہ ہم نے کشمیر لینا کیسے ہے؟

ہم وہاں کشمیری لوگوں کو سپورٹ بھی نہیں کرسکتے، پھر آپ کا حق دنیا تسلیم نہیں کرتی کہ آپ کشمیری مجاہدین کی مدد کریں، پھر FATFکی سب سے بڑی شرط بھی یہی ہے کہ پاکستان مجاہدین کی سپورٹ بند کرے۔اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ کیا آپ کی خارجہ پالیسی اتنی مضبوط ہے کہ آپ انڈیا سے کہیں کہ کشمیر چھوڑ دے، تو وہ چھوڑ دے گا؟ اور پھر کیا60، 70لاکھ کشمیری کیا سوا ارب کے انڈیا سے آزادی لے سکتے ہیں؟اگر نہیں تو پھر کشمیر کیسے آزاد ہوسکتا ہے؟میرے خیال میں یہ بہترین خارجہ پالیسی سے آزاد ہوسکتا ہے، بہترین حکمت عملی سے آزاد ہو سکتا ہے، مذاکرات کرنے سے بحال ہو سکتا ہے۔

بہرکیف سوال یہ ہے کہ آپ اپنے سوا ارب کے ہمسائے کے ساتھ اگر تجارت نہیں کرنا چاہتے تو پھر کس سے کرنا چاہتے ہیں؟ کیا افغانستان سے ؟ کیا وہاں کی چند کروڑ آبادی کے لیے ؟ جس کی اکانومی امریکا کے ایماء پر ہے ، کیا چین سے تجارت کریں گے؟ میرے خیال میں چین کی اپنی بہت بڑی مارکیٹ ہے، جو پہلے ہی آپ کی مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے۔ کیا ایران سے تجارت کے خواہاں ہیں ؟

ایران پر تو پہلے ہی ہزارہا پابندیاں عائد ہیں ۔ اس لیے ہمارے پاس پھر سوا ارب کی مارکیٹ ہی رہ جاتی ہے، جہاں ہم کئی منفرد اشیاء بنا کر سیل کر سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں ایسی پالیسی بنانی چاہیے جو اگلے 25،30سالوں کے لیے ہو،ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر عمران خان نے کہا کہ تجارت نہیں ہونی چاہیے تو ڈھائی سال بعد کوئی اور آجائے تو وہ کہہ دے کہ ہم تجارت کریں گے۔ لہٰذا ہماری پالیسیاں کسی بھی طرح متاثر نہیں ہونی چاہیے ایسے معاہدے کرنے چاہییں جو عالمی معیار کے ہوں، ایسا کرنے سے یقیناً دونوں ملکوں کے عوام خوشحال بھی ہوں گے اور آگے بھی بڑھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔