افغانستان میں مغربی افواج کے جنگی جرائم

سید عاصم محمود  اتوار 20 جون 2021
ایک آسٹریلوی ماہر عمرانیات نے اپنے افسروں اور جوانوں کے کالے کرتوت عیاں کر دئیے...خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

ایک آسٹریلوی ماہر عمرانیات نے اپنے افسروں اور جوانوں کے کالے کرتوت عیاں کر دئیے...خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

یہ مئی 2015ء کی بات ہے، انگس کیمپبل آسٹریلوی فوج کے چیف آف آرمی(سربراہ)مقرر ہوئے۔وہ2011ء میں افغانستان میں تعینات آسٹریلوی اسپیشل فورسسز کے کمانڈر رہ چکے تھے۔

انہی دنوں انھیں شکایات ملی تھیں کہ آسٹریلوی اسپیشل فورسز کے اکثر فوجی اور نچلے درجے کے افسر اپنے سینئر کمانڈروں کا کہنا نہیں مانتے۔اور یہ کہ جوانوں اور افسروں کے مابین مختلف معاملات پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔جب انگس کیمپبل آسٹریلیوی فوج کے سربراہ مقرر ہوئے تو انھوں نے درج بالا شکایات کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔

یہ کام مگر انھوں نے کسی فوجی افسر کو تفویض نہ کیا بلکہ ایک ماہر عمرانیات،ڈاکٹر سمنتھا کرامپ ویٹس(Dr Samantha Crompvoets)سے کرایا۔مقصد یہ تھا کہ ان کو اسپیشل فورسسز کے افسر اور جوان بلا کھٹکے اپنے دل کی باتیں بتا سکیں۔ظاہر ہے ان سے کوئی اعلی فوجی افسر تفشیش کرتا تو وہ اس کے سامنے مکمل طور پہ کھل نہ پاتے۔

ڈاکٹر سمنتھا نے عسکری عمرانیات کا بھی مطالعہ کر رکھا تھا۔اس باعث فوجی جوانوں اور افسروں سے ملاقاتیں ان کے لیے نئی بات نہ تھی۔پھر وہ جنگی فنون حرب سے بھی واقف تھیں۔وہ ستمبر 2015ء میں افغانستان پہنچ گئیں جہاں آسٹریلوی اسپیشل فورسسز کے دستے تعینات تھے۔وہاں امریکا اور برطانیہ کے بعد آسٹریلیا ہی کے سب سے زیادہ فوجی موجود تھے۔

جب 2001ء میں امریکا نے افغانستان پہ دھاوا بولا تب بھی آسٹریلوی فوجہ امریکیوں کی مدد کے واسطے ان کے ساتھ تھے۔ویسے بھی کوئی بھی معاملہ ہو، عام طور پہ امریکا،برطانیہ،کینیڈا اور آسٹریلیا ایک ہی موقف اپناتے ہیں۔نیوزی لینڈ خاص طور پہ انسانی حقوق کے معاملے میں ان سے الگ راہ اختیار کرتا ہے۔2015ء میں پچھلے چودہ سال کے دوران ’’چھبیس ہزار‘‘سے زائد آسٹریلوی فوجی افغانستان میں مختلف خدمات انجام دے چکے تھے۔امریکا کی طرح آسٹریلیا کے لیے بھی افغان جنگ اس کی عسکری تاریخ کی طویل ترین جنگ بن رہی تھی۔

سنگین اور غیر انسانی انکشاف

سرزمین ِافغانان پہنچ کر ڈاکٹر سمنتھا پروگرام کے مطابق اپنے ہم وطن فوجی افسروں اور جوانوں سے انٹرویو کرنے لگیں۔مدعا یہی تھا کہ فوج کے دونوں طبقوں کے مابین جس قسم کے بھی اختلافات ہیں ،وہ نمایاں ہو سکیں۔دوران تحقیق مگر ایک ایسا پہلو سامنے آ گیا جو آسٹریلوی خاتون محققہ کے لیے بڑا خوفناک ،سنگین اور غیر انسانی معاملہ ثابت ہوا۔بہت سے ہم وطن فوجیوں نے ڈاکٹر سمنتھا کو بتایا کہ افغانستان میں تعینات مغربی ممالک کی سبھی افواج کے کئی افسر وجوان افغان شہریوں پہ تشدد کرنے میں ملوث ہیں۔وہ ان سے اذیت ناک اور وحشیانہ سلوک کرتے ہیں۔حتی کہ وہ ایسے روح فرسا واقعات بھی انجام دے چکے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

آسٹریلوی جوانوں کے انکشافات نے ڈاکٹر سمنتھا کو ششدر کر دیا۔وہ تو ایک عمرانی مسئلہ حل کرنے دیار غیر آئی تھیں،یہاں تو معاملہ ظلم ونفرت جیسے حیوانی جذبات کا نکل آیا۔بہرحال انھیں جو بتایا گیا،وہ انھوں نے لکھ لیا۔ماہر عمرانیات تقریباً ڈیرھ برس تک افغانستان آتی جاتی رہیں۔انھوں نے کئی سو حاضر اور سابق افسروں اور جوانوں کے انٹرویو کیے۔جب کام ختم ہو گیا تو انھوں نے اس مسئلے پر ایک رپورٹ مرتب کر لی جس کی انھیں تحقیق کرنا تھی۔وہ چیف آف آرمی،جنرل کیمپبل کو بھجوا دی۔رپورٹ میں عمرانی ونفسیاتی نقطہ نگاہ سے افسروں اور جوانوں کے تعلقات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔

ایک خفیہ خط

ڈاکٹر سمنتھا نے مگر ایک اور کام بھی کیا ۔اپنے ہم وطنوں سے انھوں نے افغانوں پر ظلم وستم کی جو داستانیں سنی تھیں،وہ انھیں فراموش نہیں کر سکیں۔ ان کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ انھیں پس پشت ڈال دیا جائے۔چناں چہ ڈاکٹر سمنتھا نے جنرل انگس کیمپبل کے نام ایک خفیہ خط بھی لکھا۔اس خط میں انھوں نے افغان شہریوں پہ ہوئے مظالم کی تفصیل بیان کر دی اور چیف آف آرمی سے مطالبہ کیا کہ ان کی تحقیقات کرائی جائیں۔جنرل کیمپبل ایک اصول پسند افسر ہیں۔انھیں بھی اپنے افسروں اور جوانوں کی قانون شکنی اور بے رحمی پسند نہیں آئی۔

وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ بھی اصول وقواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے لڑنی چاہیے۔لہذا انھوں نے انسپکٹر جنرل آف دی آسٹریلین ڈیفنس فورس ،پال بریریٹن(Paul Brereton) کو حکم دیا کہ ڈاکٹر سمنتھا نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے،ان کی پوری تحقیق کی جائے۔یوں پال بریریٹن اور ان کا عملہ ان افسروں اور جوانوں سے ملاقاتیں کرنے لگا جو افغانستان میں تعینات رہے تھے۔یہ تفشیش چار برس جاری رہی۔پچھلے سال ماہ نومبر میں اس کی انکوائری رپورٹ(The Inspector-General of the Australian Defence Force Afghanistan Inquiry Report) سامنے آئی۔

مغربی افواج کا حقیقی چہرہ

آسٹریلو ی فوج کی اس تحقیقی رپورٹ کے اکثر مندرجات خفیہ رکھے گئے ہیں۔تاہم میڈیا رفتہ رفتہ انھیں عیاں کر رہا ہے۔دراصل اس انکشافاتی رپورٹ نے افغانستان جانے والی مغربی افواج کا حقیقی چہرہ دنیا والوں کو دکھا دیا۔یہ افواج ایک مملکت میں امن وامان قائم کرنے آئی تھیں جو کئی عشروں سے خانہ جنگی اور جنگوں کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ان مغربی افواج کے افسر اور جوان امیر،ترقی یافتہ اور سو فیصد شرح تعلیم رکھنے والے ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ان ملکوں میں بظاہر انسانی حقوق،جمہوریت ،عدل وانصاف اور قانون پسندی کا بول بالا ہے۔

ان ترقی یافتہ مغربی ممالک کے مگر بہت سے فوجی افسر اور جوان افغانستان پہنچ کر نسل پرست،معتصب،مسلم دشمن اور ظالم بن گئے۔انھیں جب بھی موقع ملا،انھوں نے عام افغانوں کے ساتھ وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کیا۔ان کو سرعام بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور ایسی شقاوت و بے حسی دکھائی کہ افغان بچوں پر بھی رحم نہیں کھایا،انھیں قتل کر کے ہی دم لیا۔غرض افغانستان میں نام نہاد مہذب و تعلیم یافتہ مغربی فوجیوں نے اپنے کرتوتوں سے شیطان کو بھی سر چھپانے پہ مجبور کر دیا۔

افغانستان میں مغربی افواج کے افسر و جوان اس لیے بھی مادر پدر آزاد ہوئے کہ طالبان کے بعد وہاں جس حکمران طبقے نے افغان حکومت سنبھالی،وہ نہایت کرپٹ تھا۔امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے جو اربوں ڈالر موصول ہوئے،ان میں سے بیشتر رقم افغان حکمران طبقہ ہڑپ کر گیا۔بہت کم رقم افغان عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ ہوئی۔اس باعث آج بھی افغان عوام کی اکثریت غریب،مفلس،ناخواندہ اور زندگی کی بنیادی سہولتوں مثلاً صاف پانی اور بجلی سے بھی محروم ہے۔جبکہ حکمران طبقے کے وزیر،مشیر اور سرکاری افسر دولت مند بن گئے۔غرض کرپٹ افغان حکومت کی وجہ سے بھی مغربی افواج کے افسر و جوان فرعون بن بیٹھے اور عام افغانوں سے غلاموں جیسا سلوک کرنے لگے۔

سائکو،سر تا پا سائیکو!

جب انسپکٹر جنرل کی انکوائری رپورٹ عام ہوئی اور ڈاکٹر سمنتھا کی تحقیق بھی منظرعام پہ آئی تو آسٹریلیا میں مختلف نیوز سائٹس نے ان سے انٹرویو لیے۔ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا:’’جب میں افغانستان پہنچی تو پروگرام کے مطابق افسروں اور جوانوں سے انٹرویو کرنے لگی۔دوران گفتگو اکثر مجھے وہ وہاں جنگ کی صورت حال بھی بتانے لگتے۔انھیں علم تھا کہ مجھے چیف آف آرمی نے بھجوایا ہے۔لہذا ان کی باتیں چیف تک ضرور پہنچ جائیں گی۔یوں وہ میدان جنگ میں رونما ہونے والے واقعات اعلی ترین افسر تک پہنچانا چاہتے تھے…وہ حقائق جنھیں نچلے درجے کے افسر اوپر نہ جانے دیتے اور انھیں دبا دیتے۔

’’مجھے ایک جوان نے بتایا :’’میڈم!یہاں اکثر فوجی جوان خون کے پیاسے ہیں۔وہ نفسیاتی مریض ہیں…سائکو،سر تا پا سائیکو!اور یہ آسٹریلوی قوم ہے جس نے انھیں پیدا کیا۔‘‘‘

شقاوت کی انتہا

بہت سے جوانوں نے پھر ڈاکر سمنتھا کو اسپیشل فورسسز کی عسکری کارروائیوں کے بارے میں بتایا۔اکثر ایسا ہوتا کہ اس فورس کا کوئی دستہ کسی افغان گاؤں کو گھیر لیتا۔وہ پھر ہر گھر کی تلاشی لیتے۔جتنے بھی مرد اور لڑکے ملتے،انھیں ایک جگہ جمع کر لیا جاتا۔ وہیں انھیں پھر رسیوں سے باندھ کر مارا پیٹا جاتا۔یہ ظلم وتشدد بعض اوقات اگلے دن تک جاری رہتا۔جب گاؤں سے رخصت ہونے کا وقت آتا، تو اسپیشل فورس کے جوان تقریباً تمام مردوں اور لڑکوں کو گولیاں مار دیتے۔چناں چہ جب خواتین وہاں پہنچتیں تو انھیں اپنے پیاروں کی لاشیں ہی ملتیں۔مقتولین کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوتے اور عموماً گلے بھی کاٹ دئیے جاتے۔

ایک جوان نے ڈاکٹر سمنتھا کو بتایا:’’ایک بار اسیشل فورسسز کے جوانوں نے دو افغان لڑکوں کو پکڑ لیا۔ان کی عمر تیرہ چودہ سال ہو گی۔جوانوں نے ان کی تلاشی لی اور پھر قرار دیا کہ وہ طالبان کے مخبر ہیں۔چناں چہ سب کے سامنے لڑکوں کے گلے خنجروں سے کاٹ دئیے گئے۔جوان پھر چلے گئے۔عام آسٹریلوی فوجیوں کو ان کا پھیلایا گند صاف کرنا پڑا۔ہم نے افغان بچوں کو لاتیں قریبی دریا میں پھینک دیں۔‘‘

آسٹریلیا کے مشہور اخبار، دی ایج کو سب سے پہلا انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر سمنتھا نے انکشاف کیا:’’میرے لیے پریشان کن بات یہ تھی کہ میری جتنے بھی ’’وسل بلوئرز‘‘ اور ’’ان سائڈرز‘‘(insiders)سے گفتگو ہوئی، سبھی کا یہ کہنا تھا …یہ سب کچھ ہر وقت ہوتا رہا( ‘it happened all the time’)۔‘‘گویا افغانوں پہ ظلم وستم اکا دکا واقعات نہیں تھے بلکہ انھیں اکثر اور منظم طریقے سے انجام دیا گیا۔

اسپیشل فورسسز کا تقدس پاش پاش
ڈاکٹر سمنتھا نے ایک نیوز سائٹ کو بتایا:’’شروع میں سبھی جوان مجھے کچھ بتانے سے ہچکچا رہے تھے۔یہی وجہ ہے،خاص طور پہ اسپیشل فورسسز نے افغانستان میں لوگوں پہ جو مظالم ڈھائے،ان کی بابت انھوں نے صرف اشارے دئیے۔میں متجسس ہو گئی۔ان کو کریدا تو منکشف ہوا،انھیں خوف ہے،اگر سچ بول دیا تو افسر ان کو نہیں چھوڑیں گے۔وہ ان کا کیرئر تباہ کر سکتے ہیں۔میں نے انھیں یقین دلایا کہ رپورٹ میں یہ باتیں درج نہیں ہوں گی۔لہذا ان کی شخصیت بھی عیاں نہیں ہو سکتی۔

’’جب میں نے بڑی کوششوں سے ان کا اعتماد پا لیا تب ہی وہ روح فرسا حقائق دھیرے دھیرے اگلنے لگے۔ان کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی باتیں سن کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آئی۔میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور میں سوچتی کہ ایک انسان آخر اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟آسٹریلیا میں خصوصاً اسپیشل فورسسز کے افسر و جوان دیوتا سمجھے جاتے ہیں۔مگر افغانستان میں ان کے غیر انسانی کرتوتوں اور گناہوں نے آسٹریلیا میں اسپیشل فورسسز کا تقدس پاش پاش کر دیا۔‘‘

اسی طرح ایک سابق آسٹریلوی فوجی افسر نے دوران انٹرویو ڈاکٹر سمنتھا کو بتایا:’’ہم نے جو کیا ،وہ کیا…لیکن میں حلفیہ کہتا ہوں کہ امریکی اور برطانوی (افغان عوام پہ ظلم و ستم کرنے میں)ہم سے کہیں زیادہ ،بہت زیادہ بدتر ثابت ہوئے۔میں نے دیکھا کہ جب وہ(امریکی و برطانوی)افغانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرتے تو ہمارے (آسٹریلوی)جوان انھیں بڑی قدرومنزلت سے دیکھ رہے ہوتے۔اِدھر میں کھڑا پیچ وتاب کھاتا رہتا کیونکہ میں کچھ نہیں کر پاتا تھا۔‘‘

درج بالا آسٹریلوی فوجی افسر کے علاوہ دیگر کئی جوانوں نے ڈاکٹر سمنتھا اور اپنے انسپکٹر جنرل کے عملے کو بتایاکہ مغربی افواج کے بیشتر افسر اور جوان افغان باشندوں پہ ظلم وتشدد کرتے رہے۔انھوں نے بلاکھٹکے اور بے خوف ہو کر جنگی جرائم انجام دئیے۔بہت سے بے گناہ شہری صرف اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر مار ڈالے۔قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا۔غرض ہر وہ اقدام کیا جو جنگی جرائم میں شامل ہے۔انسپکٹر جنرل پال بریریٹن کی تہکلہ خیز رپورٹ کے اہم اکشافات درج ذیل ہیں۔

افغان شہریوں کا قتل
جب افغان شہری آسٹریلوی فوجیوں کی حراست یا قید میں تھے،تو انھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے درجنوں افغان قتل کر دئیے…اور بعد ازاں انکشاف ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی جنگجو نہ تھا۔یہ انکشاف تحقیق سے سامنے آیا۔پال بریریٹن رپورٹ کی رو سے ایسا ہر قتل جنگی جرم قرار پاتا ہے۔رپورٹ میں ایک واقعہ کو آسٹریلیا کی عسکری تاریخ کا سب سے بدترین اور خوفناک واقعہ قرار دیا گیا۔مگر عوامی طور پہ دستیاب رپورٹ میں وہ واقعہ سنسر شدہ ہے۔شاید مستقبل میں سامنے آ جائے۔

لاشوں پر اسلحہ رکھنا
جب آسٹریلوی فوجی کسی جگہ حملہ کرنے جاتے تو ان کے پاس ایسی رائفلیں اور عسکری آلات ہوتے جو انھیں سرکاری اسلحہ ڈپو سے جاری نہیں کیے جاتے تھے۔ایسے اسلحے کو ’’تھروڈائونز‘‘(Throwdowns)کا نام دیا گیا ۔یہ غیر سرکاری اسلحہ دراصل خاص مقصد کے لیے ساتھ رکھا جاتا۔جب حملے میں افغان قتل ہو جاتے اور ان سے کسی قسم کا اسلحہ برامد نہ ہوتا تو ساتھ لائی رائفلیں،پستولیں ،گرینڈ وغیرہ افغانوں کی لاشوں پہ رکھ دئیے جاتے۔پھر ان کی اہتمام سے تصویریں کھینچی جاتیں۔مدعا یہ ظاہر کرنا ہوتا تھا کہ مقتول افغان مسلح اور جنگجو تھے۔وہ فوجیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔

پال بریریٹن رپورٹ میں درج ہے کہ افغانستان میں ’’تھروڈائونز‘‘ کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی رسم کا آغاز اس وقت ہوا جب مغربی افواج کے فوجیوں کو مارے گئے افغانوں کے پاس سے کوئی اسلحہ نہیں ملا۔اس کا مطلب تھا کہ وہ جنگجو نہیں تھے۔چناں چہ ان کی اموات قانونی بنانے کے لیے اپنے پاس سے ہتھیار افغانوں کی لاشوں پر رکھے جانے لگے۔بعد ازاں مغربی فوجیوں میں یہ چلن عام ہو گیا۔وہ کسی گائوں میں چلے جاتے ،وہاں افغان مردوں،خواتین حتی کہ بچوں کو مار ڈالتے۔پھر اپنا جرم و گناہ چھپانے کے لیے ان کے مردہ اجسام پہ اسلحہ پھینک دیتے۔

درج بالا انکشاف سے عیاں ہے کہ آسٹریلوی سمیت مغربی ممالک کی تمام افواج میں بعض افسراور جوان افغان مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔وہ انتہائی درجے کے مذہبی و نسلی تعصب میں مبتلا تھے۔اسی لیے انھوں نے افغان بچوں کو مارتے ہوئے بھی اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا۔یہی نہیں اپنا خوفناک جرم پوشیدہ رکھنے کی خاطر وہ عیّاری، دھوکے بازی اور فراڈ کا سہارا لینے لگے۔

مزا چکھ لو
جب کسی حملے میں مشکوک افغان پکڑے جاتے تو آسٹریلوی اسیشل فورسسز کے دستے کا کمانڈر نوخیز و نوآمد جوانوں کو اپنے پاس بلا لیتا۔کمانڈر پھر انھیں تحریک دیتا کہ ہر کوئی ایک ایک افغان کو گولیاں مار دے۔مدعا یہ تھا کہ نوآمد فوجی بھی اپنے پہلے شکار کو مار کر قتل کرنے کا مزا لے سکے۔ڈاکتر سمنتھا کی رو سے سبھی مغربی افواج میں یہ وحشیانہ رسم جڑ پکڑ چکی تھی۔اس کو ’’بلڈنگ‘‘(Blooding)کا نام دیا گیا تھا۔جب افغان مارا جاتا تو حسب معمول اس پہ ’’تھروڈائونز‘‘پھینک دئیے جاتے تاکہ اپنا گناہ پوشیدہ رکھا جا سکے۔

راز چھپانے کا کلچر
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں آسٹریلیا سمیت تمام مغربی افواج کے بہت سے افسر و جوان غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔اسی لیے ان افواج میں خصوصاً افسروں کے جنگی جرائم چھپانے کے لیے اخفائے راز کا کلچر پیدا ہو گیا۔اس افسوس ناک کلچر پہ پال بریریٹن رپورٹ میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس مجرمانہ کلچر کو آسٹریلیا،امریکا،برطانیہ،فرانس سمیت دیگر مغربی افواج کے سینئر افسروں نے جنم دیا کیونکہ وہ اپنے ماتحتوں کے خونریز اور خوفناک جنگی جرائم اور گناہوں پہ پردہ ڈالنے چاہتے تھے۔

رپورٹ میں درج ہے کہ جب کسی حملے میں افغان شہری قتل ہوتے تو اس کی آپریشنل کارروائی بہت مختصر اور پیچیدہ زبان میں تحریر کی جاتی۔اس آپریشنل رپورٹ سے تفصیل عنقا ہوتی۔الفاظ کم سے کم رکھے جاتے تاکہ ہیڈ کوارٹر میں کسی قسم کا شک وشبہ جنم نہ لے سکے۔دستے کا کمانڈر رپورٹ تیار کرتے ہوئے اپنے مجرم جوانوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتا اور خود کو بھی معصوم ثابت کر دیتا۔

احساس برتری
پال بریریٹن رپورٹ کی رو سے آسٹریلوی (اور دیگر مغربی افواج)کے بہت سے افسر اور جوان خود کو افغانوں سے برتر و اعلی سمجھتے تھے۔اسی لیے وہ احساس برتری،غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گئے۔اور یہی وجہ ہے،وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر بھی سمجھنے لگے۔انھیں یقین ہو گیا کہ چونکہ وہ دشمن سے حالت جنگ میں ہیں، لہذا انسانی معاشروں میں جو اخلاقیات اور قانون کے اصول مروج ہیں،وہ ان پر لاگو نہیں ہوتے۔

رورٹ میں درج ہے کہ آسٹریلیا سمیت سبھی مغربی افواج کے جوان اپنے کمانڈروں کو ’’دیوتا‘‘سمجھتے تھے۔انھیں یہ بھی خوف تھا کہ اگر کمانڈر کا حکم نہیں مانا جاتا تو وہ ان کا کیرئر تباہ کر دے گا۔

شکایات ردی کی ٹوکری میں
رپورٹ نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں اور عام شہریوں نے بھی آسٹریلوی (اور دیگر مغربی افواج)کے اعلی کمانڈروں کو یہ شکایات بھجوائیں کہ ان کے افسر اور جوان افغان عوام پہ ظلم ڈھا رہے ہیں۔مگر اعلی کمانڈروں نے یہ شکایات طالبان کا پروپیگنڈہ سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور ان پہ کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا۔بعض مواقع پر یہ سمجھا گیا کہ شکایت کنندہ تاوان کا طلبگار ہے۔

آسٹریلین ڈیفنس فورس کا اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل ،ڈیوڈ ولیتھم بریریٹن رپورٹ میں لکھتا ہے:’’(آسٹریلوی)فوج کے اعلی کمانڈروں کو اپنے ماتحت افسروں اور جوانوں پہ حد سے زیادہ اعتماد تھا۔انھیں یقین تھا کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتے۔اسی لیے اکثراوقات وہ ماتحتوں کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی خاطر بہت آگے چلے گئے۔یہ عیاں ہے کہ فوج کے بعض افسر و جوان سنگین غیر انسانی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔مگر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔‘‘

رپورٹ میں درج ہے کہ اعلی کمانڈروں کے حکم پہ بعض سنگین نوعیت کی شکایات پر چھان بین ضرور ہوئی مگر آسٹریلوی تفشیش کاروں کا مائنڈ سیٹ یا ذہنی رویّہ یہ تھا کہ شکایت غلط ہے۔اسی لیے وہ عدل وانصاف پہ مبنی تفشیش نہ کرتے بلکہ انھیں ایسے ثبوتوں اور عوامل کی کھوج ہوتی جن سے شکایت کو نہ درست ثابت کیا جا سکے۔

جنرل کیمپبل کی معافی
پال بریریٹن کی رپورٹ نومبر2020ء میں منظرعام پر آئی تو آسٹریلیا کے غیرجانب دار میڈیا نے اسے شہ سرخیوں کے ساتھ پیش کیا۔تبھی آسٹریلوی فوج کے سربراہ،جنرل انگس کیمپبل نے افغانستان میں اپنے افسروں اور جوانوں کے ہاتھوں انسانیت سوز جرائم انجام دینے پر افغان قوم اور اپنے عوام سے معافی طلب کی۔انھوں نے اپنی افواج کے عمل و کردار کو ’’شرمناک‘‘اور ’’انتہائی پریشان کن‘‘ اور ’’عقل دنگ کر دینے والا‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ آسٹریلوی فواج جب اعلی نظریات پر یقین رکھتی ہیں،یہ عمل ان سے بالکل مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’’آسٹریلوی افواج کا ’’اخلاقی کمپاس‘‘درست کیا جائے گا تاکہ وہ مکمل طور پہ پیشہ وارانہ بن سکیں۔‘‘

جنرل انگس نے اعلان کیا کہ جن افغان خاندانوں پہ ظلم ہوا ہے،انھیں معقول ہرجانہ ملے گا۔نیز جنرل نے ان سے اظہار افسوس بھی کیا۔مذید براں اسپیشل فورسسز کی جو یونٹیں جنگی جرائم میں ملوث پائی گئیں ،ان سے وہ اعزازات واپس لے لیے گئے جو انھیں افغان جنگ میں شمولیت کی وجہ سے ملے تھے۔نیز یہ بھی کہا گیا کہ جنگی جرائم میں ملوث تمام افسروں اور جوانوں پہ مقدمے چلائے جائیں گے۔یا انھیں فوج سے برخاست کر دیا جائے گا۔

منفی ذہنیت کارفرما رہی
ڈاکٹر سمنتھاکا کہنا ہے:’’ایک جنگ کے دوران افسروں یا جوانوں سے جو جنگی جرائم جنم لیں،ان کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ کوئی تنہا آدمی انھیں انجام نہیں دے سکتا۔بلکہ افسر و جوان مل جل کر، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انھیں انجام دیتے ہیں۔‘‘

اسی طرح انسپکٹر جنرل پال بریریٹن نے اپنی رپورٹ میں لکھا :’’افغانستان میں زیادہ تر مغربی افواج نے جنگی جرائم انجام دئیے اور ان میں ملوث پائی گئیں۔‘‘

درج بالا دونوں گواہیوں سے عیاں ہے کہ افغانستان میں مغربی افواج کے کافی افسر و جوان عام افغانوںپہ مظالم ڈھانے میں ملوث پائے گئے اور ان سے سنگین جنگی جرائم سرزد ہوئے۔اس سلسلے میں امریکا،برطانیہ اور یورپ کا غیر سرکاری اور غیر جانب دار میڈیا بھی پچھلے بیس برس کے دوران وقتاً فوقتاً یہ رپورٹیں دیتا رہا ہے کہ افغانستان میں مغربی افواج جنگی جرائم انجام دے رہی ہیں۔امریکا میں بے گناہ افغانوں کو قتل کرنے کے جرم میں کچھ امریکی فوجیوں کو سزائیں بھی ملیں مگر ایسے واقعات کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔

فوجی الٹا قاتل بن گئے
2019ء میں مشہور سماجی تنظیم،ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محققوں نے اپنی ایک رپورٹ میں افشا کیا تھا کہ 2009ء تا 2013ء کے عرصے میں افغانستان میں مغربی افواج نے کم از کم اٹھارہ سو افغان شہری مار ڈالے۔ان میں بیشتر غیر مسلح تھے۔یہ صرف چار برس کی تعداد ہے۔بیس سالہ جنگ کے عرصے میں تو یہ عدد ’’ہزارہا‘‘تک پہنچ جاتا ہے۔گویا افغانستان کو بظاہر آزاد کرانے آنے والے مغربی فوجی الٹا افغانوں کے قاتل بن گئے۔

عالمی میڈیا کی رپورٹوں سے منکشف ہے کہ کئی بار امریکی و دیگر مغربی فوجیوں نے غلط انٹیلی جنس اطلاعات کی وجہ سے بے گناہ افغان باشندے مار ڈالے۔ مقتولین میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہوتیں۔لیکن چند مثالوں کو چھوڑ کر کسی مغربی فوجی افسر یا جوان کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔یہی وجہ ہے، افغانستان میں مصروف عمل معتصب و نفرت سے بھرے مغربی فوجی افسروں اور جوانوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھ کر بلا تفریق افغانوں پہ بہیمانہ تشدد کرنے اور مارنے لگے۔

ڈاکٹر سمنتھا نے آسٹریلوی آرمی چیف کے نام اپنے تاریخی خط میں لکھا:’’جب آسٹریلوی فوجی کسی گائوں پر حملہ کرتے اور وہاں کسی کو بھاگتے دیکھتے تو اس کی کمر پہ گولیاں برسا دیتے۔بھاگنے والوں میں کوئی تمیز نہ کی جاتی۔اگر خواتین اور بچے بھاگ رہے ہوتے تو انھیں بھی گولیاں مار دی جاتیں۔ان فوجیوں کا استدلال یہ تھا کہ بھاگنے والے مجرم ہوتے ہیں ،اسی لیے بھاگ اٹھتے ہیں۔یا پھر وہ اسلحہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر جب گائوں یا گھر کی تلاشی سے اسلحہ نہ ملتا تو بیچارے افغانوں کی لاشوں پہ ساتھ لائے ہوئے ہتھیار پھینک دئیے جاتے۔‘‘

ٹرمپ حکومت کی حرکت بد
2015ء میں آئی سی سی (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ)کی وکیل،فاتو بن سودہ نے عالمی عدالت کو یہ درخواست دی کہ افغانستان میں مغربی افواج نے جو جنگی جرائم انجام دئیے ہیں،ان کی تحقیقات ہونی چاہیں۔عالمی عدالت نے یہ درخوست قبول کر لی۔چناں چہ فاتو بن سودہ نے اپنی تفشیش کا آغاز کر دیا۔

ستمبر 2019ء میں مگر امریکی ٹرمپ حکومت نے فاتو بن سودہ کو امریکا آنے سے روک دیا۔ٹرمپ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وہ افغانستان میں امریکی افواج کے جنگی جرائم کی تحقیق کر سکیں۔یہی نہیں، صدر ٹرمپ نے آئی سی سی کے کسی افسر کو ویزہ جاری نہیں کیا۔مذید براں سزائوں کے منتظر امریکی افسروں اور جوانوں کو معافی دے دی گئی۔غرض امریکی حکمران طبقے نے عدل وانصاف کو پیروں تلے روند ڈالا۔

قتل وغارت گری کا کلچر
افغانستان میں برطانیہ،کینیڈا،نیوزی لینڈ،جرمنی،اٹلی،ہالینڈ اور ناروے کے فوجی افسر اور جوان بھی جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔برطانوی میجر کرس گرین (Chris Green)سابق افسر ہے۔وہ طویل عرصہ افغانستان کے ضلع ہلمند میں تعنیات رہا۔اس کا کہنا ہے:’’افغانستان میں تشدد اور قتل وغارت گری کے کلچر کو امریکی فوجیوں نے رواج دیا۔چونکہ امریکی وہاں لیڈر تھے،ان کے منفی کلچر کو دیگر مغربی افواج نے بھی اختیار کر لیا۔ویسے بھی انسانی تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ دوران جنگ جو فوجی جنگی جرائم انجام دیں،وہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ وہ درست ہیں۔‘‘

فرینک لیڈویج(Frank Ledwidge) برطانیہ کا سبق ملٹری انٹیلی جنس افسر ہے۔افغانستان،عراق اور لیبیا میں تعینات رہا۔جنگوں پر کتب بھی لکھ چکا۔وہ کہتا ہے:’’افغان جنگ کے دوران خاص طور پہ مغربی افواج کی اسپیشل فورسسز کے مابین یہ کلچر پیدا ہو گیا کہ ظلم وتشدد کو بڑھا چڑھا کر بیان کرو اور زیادہ سے زیادہ افغان مارو۔یوں وہ پیشہ ور فوجی نہ رہے اور ان میں تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی خرابیاں در آئیں۔‘‘

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ مغربی افواج افغانستان میں نہ صرف اپنے ٹارگٹ پانے میں ناکام رہیں بلکہ انھوں نے افغان عوام پہ نئے عذاب نازل کر دئیے۔معتصب افسروں اور جوانوں سے کئی جنگی جرائم سرزد ہوئے۔یوں مغربی استعمار کا خوفناک چہرہ پھر سامنے آ گیا۔لیکن دنیائے مغرب میں ڈاکٹر سمنتھا،جنرل کیمپبل اور جنرل پال بریریٹن جیسے منصف مزاج مردوزن بھی موجود ہیں۔جب انھیں اپنے ہی فوجیوں کے جرائم کا پتا چلا تو وہ خاموش نہیں رہے اور ان کو طشت از بام کر دیا۔ایسے ہی انسانوں کے دم قدم سے دنیا میں انصاف وعدل،نیکی اور سچائی کی شمع روشن رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔