کیا یہ ’ڈریگن مین‘ جدید انسان کا قریب ترین ’ارتقائی رشتہ دار‘ تھا؟

ویب ڈیسک  منگل 29 جون 2021
ہومو لونگی، المعروف ’ڈریگن مین‘ شاید جدید انسان سے قریب ترین ارتقائی نوع بھی تھی۔ (تصاویر: سیل پریس/ انوویشن)

ہومو لونگی، المعروف ’ڈریگن مین‘ شاید جدید انسان سے قریب ترین ارتقائی نوع بھی تھی۔ (تصاویر: سیل پریس/ انوویشن)

پرتھ / بیجنگ: آج سے 88 سال پہلے چین سے ملنے والی ایک انسان نما کھوپڑی کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جدید انسان کا قریب ترین ارتقائی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، یہ کھوپڑی 1933 میں چینی صوبے ہیلونگجیانگ کے شہر ہربن سے دریافت ہوئی تھی۔ ایک طویل مدت تک مختلف افراد کی نجی تحویل میں رہنے کے بعد اسے 2017 میں چین کی ہیبے جیو یونیورسٹی کے سپرد کردیا گیا اور اس پر سائنسی تحقیق کا آغاز ہوا۔

پہلے اسے انسان سے ملتی جلتی ایک معدوم نوع ’’ہومو ہائیڈلبرگنسس‘‘ سمجھا گیا جس کے جبڑے کا اوّلین رکاز 1907 میں جرمن شہر ہیڈلبرگ کے ایک قریبی مقام سے دریافت ہوا تھا۔

لیکن تازہ تحقیق میں ہومو ہائیڈلبرگنسس اور اس کھوپڑی میں کئی حوالوں سے بہت فرق سامنے آیا جس کی بناء پر اسے ’’ہومو لونگی‘‘ (Homo longi) کا نام دیتے ہوئے ایک نئی انسانی نوع قرار دیا گیا ہے۔

انسانی ارتقاء کے ذیل میں یہ ایک اہم دریافت ہے جس کی تفصیلات تین الگ الگ مقالہ جات کے طور پر آن لائن ریسرچ جرنل ’’دی انوویشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔ (مقالہ نمبر 1، مقالہ نمبر 2، مقالہ نمبر 3)

مغربی میڈیا میں اسے ’ہربن فوسل‘ اور ’ڈریگن مین‘ جیسے عوامی نام بھی دیئے گئے ہیں۔

تحقیق کے جدید طریقے اور جدید ترین آلات استعمال کرتے ہوئے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ ’ڈریگن مین‘ کی کھوپڑی میں دماغ کی گنجائش تقریباً اتنی ہی تھی کہ جتنی موجودہ انسان کی کھوپڑی میں ہوتی ہے۔

ممکنہ طور پر یہ ’ہومو لونگی‘ نوع کا کوئی مرد تھا جس کی عمر لگ بھگ 50 سال تھی۔ یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ سال پہلے گھنے جنگلات میں رہا کرتا تھا جہاں خوب بارش ہوتی تھی اور اکثر سیلاب جیسی کیفیت بھی رہتی تھی۔

آج یہ علاقہ چینی شہر ہربن کے قریب واقع ہے جو اپنی شدید سردیوں اور برفباری کی وجہ سے ’’برفیلے شہر‘‘ کے طور پر بھی مشہور ہے۔

’ہومو لونگی‘ کی کھوپڑی میں آنکھوں والے سوراخ چوڑے ہیں جبکہ دیگر خد و خال کی بنیاد پر یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کی بھنویں موٹی تھیں، اس کا جبڑا چوڑا تھا اور دانت خاصے بڑے تھے۔

یہ اور دوسری خصوصیات اب تک دریافت ہونے والی کسی بھی دوسری معدوم انسانی نوع سے مختلف ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ جدید انسان (ہومو سیپیئنز) سے قریب ترین بھی ہیں، جن کی بناء پر ’ہومو لونگی‘ المعروف ’ڈریگن مین‘ کو جدید انسان کا ’سب سے قریبی ارتقائی رشتہ دار‘ بھی سمجھا جارہا ہے۔

اس دریافت سے ارتقائی ماہرین بہت پرجوش ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ قدیم انسان کی نقل مکانی سے متعلق کچھ نئے سوال بھی پیدا ہوگئے ہیں۔

مثلاً یہ کہ آج سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے کے زمانے میں انسان کی مختلف انواع نے بڑے پیمانے پر دنیا کے مختلف حصوں تک نقل مکانی کی تھی۔

تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس زمانے میں ہومو لونگی اور ہومو سیپیئنز (جدید انسان) کا ایک دوسرے سے سامنا رہا ہو؟ اگر ہاں، تو کیا نینڈرتھل (ہالینڈ سے ملنے والی ایک اور معدوم انسانی نوع) کی طرح ہومو لونگی میں کوئی تعلق بنا ہو؟

اسی طرح اگر ہم مزید ماضی میں چلے جائیں تو یہ امکان بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہومو لونگی خود بھی نینڈرتھل ہی سے ارتقاء پذیر ہوا ہو۔ البتہ اس کےلیے ہمیں مزید جامع، وسیع اور محتاط تحقیق کرنا ہوگی۔

اگر نینڈرتھل کے مقابلے میں انسان سے ہومو لونگی کی زیادہ مماثلت کا مفروضہ آئندہ تحقیق سے درست ثابت ہوگیا تو شاید ہمیں انسانی ارتقاء کی تاریخ نئے سرے سے لکھنی پڑ جائے؛ یا پھر اس میں خاصا ردّ و بدل ضرور کرنا پڑجائے۔

تاہم انسانی ارتقاء کے بارے میں دریافتوں کا تاریخی ریکارڈ دیکھتے ہوئے ہمیں اس بارے میں محتاط رہنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ہوسکتا مستقبل کی تحقیقات سے ہومو لونگی بھی بیسویں صدی کے ’پِلٹ ڈاؤن مین‘ اور ’نبراسکا مین‘ کی طرح کوئی فراڈ یا غلط فہمی ثابت ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔