کنفیوژن نہیں حقائق بتا رہا ہوں

نصرت جاوید  جمعـء 24 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے چند بڑے شہروں اور قصبوں میں دہشت گردی کے مسلسل ہونے والے سنگین واقعات کے بعد ایک بار پھر ہمارے ملک میں سوچنے سمجھنے والوں کی اکثریت ’’آپریشن۔آپریشن‘‘ کی دہائی دینا شروع ہو گئی ہے۔ میری سماجی شناخت ’’لیفٹ/لبرل‘‘ سمجھے جانے والے حلقوں سے وابستہ ہے۔ میں مجوزہ ’’آپریشن‘‘ کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھاتا ہوں تو بجائے کوئی تسلی بخش جواب  فراہم کرنے کے اپنے تئیں اس ملک میں لبرل خیالات کے پرچارک بنے چند دوستوں نے ٹویٹر وغیرہ پر مجھے لوگوں کو ’’کنفیوژ‘‘ کرنے کا مجرم ٹھہرانا شروع کر دیا۔ ایسے الزامات لگانے والے میرے سادہ لوح دوست جانے کب سمجھیں گے کہ ریاستیں ‘‘آپریشن‘‘ وغیرہ کرنے کے لیے میرے جیسے ’’دوٹکے کے صحافیوں‘‘ کی اجازت نہیں لیا کرتیں۔ ان کے اپنے طویل تر مفادات کے حوالے سے کچھ منصوبے اور طے شدہ اہداف ہوتے ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہو چند Do or Die والے اقدامات اٹھانے سے پہلے صرف اور صرف ان کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

سچی بات کہہ دینے کی اجازت ہو تو یاد دلانا چاہوں گا کہ سوات میں ’’آپریشن‘‘ شروع کر دینے کے بعد ہماری ریاست کو اس کا دائرہ کار پھیلاتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ایسا مگر نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ امریکا میں اوبامہ صدر منتخب ہو گئے تھے۔ انھوں نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے نام پر نوجوان بے روزگاروں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے حق میں متحرک کیا تھا۔ یہ نوجوان بڑی شدت سے محسوس کرتے تھے کہ صدر بش کے گرد مجتمع Neo-Cons نے عراق اور افغانستان کی جنگیں برپا کرتے ہوئے امریکی معیشت کو کساد بازاری کا شکار بنا دیا۔ نائن الیون کے بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی کے قیام اور اس کی طرف سے متعارف کردہ ایک وسیع تر جاسوسی اور Counter Terrorism  نظام کے ذریعے امریکا کو ’’محفوظ‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ امریکی افواج کے لیے اب دوسرے ملکوں میں جا کر بے تحاشہ خرچے کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ امریکی ریاست کے جو مالی وسائل بچ گئے ہیں انھیں ملکی معیشت کی بحالی کے لیے صرف کرنا چاہیے تا کہ لوگوں کو روزگار اور خوش حالی میسر ہو سکے۔

اوبامہ نے اپنے ووٹروں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے عراق سے جان چھڑا لی۔ مگر افغانستان کے حوالے سے امریکی جرنیلوں نے انھیں زچ کر دیا۔ بڑی مشکل سے وہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کو Surge کے نام پر بڑھانے کو تیار ہوئے۔ مگر اس اضافے کی منظوری دیتے ہوئے یہ شرط بھی عائد کر دی کہ امریکی افواج افغانستان میں اپنے اہداف تک پہنچ پائیں یا نہیں انھیں ہر صورت 2014ء میں اس ملک سے واپس آنا ہو گا۔ 2014ء کی اس Cut Off Date سے ہماری عسکری قیادت پریشان ہو گئی۔ انھیں خدشہ لاحق ہو گیا کہ 2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد اس ملک میں طاقت کا خلاء پیدا ہو گا جسے ہمارا ’’ازلی دشمن‘‘  پُر کرنے کے منصوبے بنائے بیٹھا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں امریکا کی جگہ لے لی تو پاکستان مشرقی اور مغربی دونوں اطراف سے ’’دشمن کے گھیرے‘‘ میں آ جائے گا۔ یہی خوف ذہن میں رکھتے ہوئے Good Taliban کو بچانے کی خاطر آپریشن کو سوات تک محدود کر دیا گیا۔

صدر آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کو اقتدار میں ہر صورت پانچ سال پورا کرنے تھے۔ میڈیا میں ’’کرپشن کہانیوں‘‘ کے سیاپے ہو رہے تھے اور افتخار چوہدری کا سپریم کورٹ سوموٹو اقدامات کے ذریعے اپنا دائرہ اختیار بڑھائے چلا جا رہا تھا۔ منتخب حکومت نے Kayani Doctrine پر جائز سوالات اٹھانے کی جرأت ہی نہ کی۔ انھیں بلکہ تین سال کی توسیع دے کر زرداری اور گیلانی خود کو محفوظ سمجھنا شروع ہو گئے۔ ’’میمو گیٹ‘‘ نے ان کی آنکھ کھولی تو ان کے پلّے کسی جوابی ضرب کے لیے درکار سیاسی اور اخلاقی قوت ہی موجود نہیں تھی۔ سلالہ واقعہ کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی اور دیگر قوتوں نے یکجا ہو کر جب پاکستانی راستوں سے نیٹو افواج کے لیے جانے والی رسد سات ماہ تک روکے رکھی تو اوبامہ کو پوری طرح سمجھ آ گئی کہ ہمارے ملک میں اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ ان دنوں کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ذریعے اصل اختیار والوں سے بات چیت کے بعد بالآخر افغانستان جانے والی رسد بحال کروا لی گئی مگر پیپلز پارٹی کو Coalition Support Fund کے روکے ہوئے کئی لاکھ ڈالر نہ ملے جسے IPPs کو دے کر یہ جماعت ’’لوڈشیڈنگ ختم‘‘ کرنے کے دعوے کے ساتھ 2013ء کے انتخابات جیتنے کے منصوبے بنائے بیٹھی تھی۔ نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو انھیں یہ رقم ’’سلامی‘‘ کی صورت ادا کر دی گئی۔

ان دنوں معاملہ کچھ یوں ہے کہ ریاست کے دائمی اداروں کو سمجھ آ چکی ہے کہ طالبان طالبان ہوتے ہیں۔ وہ افغانستان میں ہوں یا پاکستان میں انھیں Good اور Bad میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ دریں اثناء سوات آپریشن کے بعد TTP کو جو طویل وقفہ ملا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنےSleepers Cells  پھیلا دیے ہیں۔ اب خدشہ ہے تو صرف اتنا کہ کوئی آپریشن ہوا تو اس کا ہمارے شہروں میں خوفناک Blow Back ہو گا۔ یہ Blow Back ناقابل برداشت ہوتا نظر آیا تو سارا نزلہ منتخب حکومت ہی پر گرے گا۔ اس ’’نزلے‘‘ کی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ کی حالتِ زار پر غور کر لیجیے۔ اپنی میتیں دفنانے کے بجائے سڑکوں پر لیے بیٹھے ہزارہ غمگسار رئیسانی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ ان دنوں ان کے جذبات ڈاکٹر مالک کے بارے میں بھی ویسے ہی ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کراچی میں کسی پولیس افسر کو اپنی مرضی سے تعینات نہیں کر سکتے نہ ہی کسی کا تبادلہ۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے لیے سوچنے اور حکم دینے والا کام ’’بنی گالہ‘‘ منتقل ہو چکا ہے۔ اس ملک میں اب رعب داب رکھنے والا وزیر اعلیٰ رہ گیا ہے تو صرف ایک۔ نام ان کا ہے شہباز شریف اور وہ قائم علی شاہ یا عبدالمالک کی طرح ’’بے بس‘‘ نظر آنے کو ہر گز تیار نہیں ہوں گے۔ میں صرف حقائق بیان کر رہا ہوں۔ کنفیوژن نہیں پھیلارہا۔ ویسے بھی ؔہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے؟!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔