جھوٹ اور سیاست

محمد سعید آرائیں  پير 2 اگست 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

ایک وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ حکومتیں اپوزیشن کے بڑے جلسوں کو چھوٹا ہی قرار دیتی رہی ہیں اور اپوزیشن اپنے چھوٹے جلسوں کو بڑا اور حکومتی جلسوں کو چھوٹا اور ناکام قرار دیتی آئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

بعض حلقے سیاست کو جھوٹ ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ سیاست کی بنیاد جھوٹ پر ہی قائم کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں خواہ وہ مذہبی سیاسی ہوں یا صرف سیاسی سب ایک جیسی ہوچکی ہیں کیونکہ اب یہ حال ہو گیا ہے کہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جاسکتی۔ ماضی کی تمام حکومتوں میں جھوٹ بولا جاتا تھا اور جب تک ملک میں صرف ایک نشریاتی چینل ہی تھا جو جنرل ایوب کے دور میں قائم ہوا تھا تب سے اب تک حکومتی خبروں کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔

بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی خبریں بالکل نہیں آتی تھیں مگر بعد میں سیاسی حکومتوں نے مجبور ہو کرکچھ پالیسی بدلی اور سرکاری نشریاتی اداروں نے اپوزیشن کی خبریں دینی شروع توکی تھیں مگر ان میں بھی ڈنڈی ماری جاتی تھی اور سرکاری جلسوں کی کوریج اس طرح ہوتی تھی کہ سرکاری جلسوں میں عوام زیادہ اور اپوزیشن جلسوں میں کم نظر آئے اور اپوزیشن کے بڑے جلسے منفی طور پر ایسے دکھائے جائیں جہاں جگہ خالی نظر آئے یا آنے والے لوگوں کو واپس جاتا نظر آتا ہو۔ بھٹو دور میں عوام کا سرکاری اداروں سے اعتماد ختم کیا جاتا تھا اور ان کی خبروں پر رش لگا رہتا تھا۔

قومی اسمبلی کے حکام تو چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی براہ راست دکھائی جائے تاکہ عوام کو اپنے نمایندوں کی کارکردگی کا علم ہو سکے۔ سیاسی حکومتوں میں یہ ضرور ہوا ہے کہ سرکاری نشریاتی اداروں پر ایک حصہ پارلیمنٹ کی مکمل کارروائی دکھانے لگے ہیں مگر پھر بھی ایوانوں میں اکثر خالی رہنے والی نشستیں نہیں دکھائی جاتیں اور فاضل ممبران کی تقاریر ضرور دکھائی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا اپنی مرضی کی تقاریر دکھاتا رہتا ہے۔

پارلیمنٹ میں جو بھی بولا جائے اسے آئینی تحفظ حاصل ہے جس کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ پارلیمنٹ میں بھی جھوٹ تو بولا جاتا ہے مگر اب پارلیمنٹ سے باہر بولا جانے والا عروج پر ہے جس میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں جس میں بعض عدالتوں میں چیلنج بھی ہوتے ہیں۔ ہتک عزت کے نوٹس دیے جاتے ہیں مگر عدالتوں تک جانے کی نوبت کم آتی ہے کیونکہ متاثرہ فریق سمجھتا ہے کہ ملکی عدالتوں میں برطانوی عدالتوں کی طرح جلد فیصلے نہیں ہوتے جس کا ایک بڑا ثبوت عمران خان کے خلاف میاں شہباز شریف کا الزام لگانے کا ایک کیس ہے جو سالوں سیچل رہا ہے اور عمران خان اپنے وکیل تبدیل کرتے آ رہے ہیں۔ سماعت آگے نہیں بڑھ رہی جب کہ برطانوی عدالت اس دوران شہباز شریف کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔

الزامات پر سیاستدان عدالتوں میں جلد فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے جانے سے گریز کرتے ہیں اور الزامات کا جواب میڈیا یا جلسوں میں مزید جھوٹوں سے دیتے ہیں کیونکہ ان کی جھوٹوں پر کوئی گرفت نہیں ہوتی اس لیے ملکی سیاست میں ایک دہائی سے جھوٹوں کی سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے اور جاوید ہاشمی جیسے شاید چند ہی سیاستدان ہوں جو جھوٹ نہ بولتے ہوں۔ ملک میں اب تو جھوٹ بولنے کے مقابلے ہو رہے ہیں جو عوام میڈیا اور جلسوں میں متواتر دیکھ رہے ہیں اور بولے جانے والے جھوٹوں پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اب قوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور ان کا پسندیدہ رہنما جتنا جھوٹ بولے، مخالفین پر جیسے چاہے جھوٹے الزامات لگائے وہ اس کو سچا اور درست سمجھتے ہیں اور ناپسندیدہ رہنما اگر سچ بھی بولے تو اس پر اعتبار نہیں کیا جاتا ہے اور کوئی بھی اپنے پسندیدہ رہنما کے عیاں جھوٹ کو بھی جھوٹ نہیں سمجھتا۔ موجودہ حالات میں اپوزیشن اور حکومتی رہنماؤں کے درمیان ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔

ایک دوسرے پر کرپشن، دھاندلی، نااہلی اور جھوٹ پہ جھوٹ بولنے کا سلسلہ کامیابی سے چل رہا ہے اور فیصلہ کرنے پر صرف عوام کا اختیار ہے اور وہ صرف اپنے پسندیدہ رہنما کو سچا سمجھتے ہیں۔ ملک میں عدلیہ سمیت کوئی ادارہ ایسا نہیں جو جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کرسکے یا جھوٹ بولنے والوں کو اپنی گرفت میں لا سکے۔

ملکی سیاست جھوٹوں میں دھنس چکی ہے جس سے صرف محب وطن اور جھوٹ نہ بولنے والے پریشان ہیں اور ملکی سیاست سے دور ہیں کیونکہ وہ جھوٹ کی سیاست کو غلط سمجھتے ہیں اور ہمارے مذہب میں بھی جھوٹ کی ممانعت ہے مگر عمل کوئی نہیں کر رہا بلکہ رہنماؤں کے ساتھ عوام بھی جھوٹ بولنے اور سننے کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ جھوٹ سیاست ہی نہیں ملک کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔