انتقام نہیں معافی

مرزا ظفر بیگ  اتوار 26 جنوری 2014
جب پہلی بار ایک قیدی سے ملنے جیل گئی تو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا رویہ  کیسا ہوگا، لین  فوٹو : فائل

جب پہلی بار ایک قیدی سے ملنے جیل گئی تو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا رویہ کیسا ہوگا، لین فوٹو : فائل

لین نے جب اپنے 28سالہ بیٹے پال کے کمرے میں منگنی کی انگوٹھیوں والی کیٹیلاگ دیکھی تو وہ سمجھ گئی کہ اس کے بیٹے نے اپنے لیے لڑکی ڈھونڈ لی ہے۔

شام کو اس نے اپنے بیٹے پال کو اس موضوع پر چھیڑا اور لڑکی کے بارے میں پوچھا تو پال نے اسے بتادیا:’’ممی! میں نے لیزی ہیرس کو اپنا جیون ساتھی بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جیولر ہماری منگنی کی انگوٹھی تیار کررہا ہے جو ہم دونوں نے مل کر پسند کی ہے، اس کے بعد میں باقاعدہ منگنی کا اعلان کردوں گا۔‘‘ یہ اگست 2002کا واقعہ ہے۔ یہ لین کے لیے خوشی کی خبر تھی، مگر دو ہفتے بعد ہی اس کی ساری خوشی اس وقت خاک میں مل گئی جب پال کو نشے میں دھت دو افراد نے بغیر کسی وجہ یا مقصد کے ہلاک کردیا اور لین کو اپنے بیٹی کی منگنی کی رسم کے بجائے اس کی آخری رسومات ادا کرنی پڑیں۔ یہ ایک ایسی دل دوز کہانی ہے جو سخت سے سخت دل کو بھی رونے پر مجبور کردے گی۔

لین اپنے بیٹے پال کے قتل کی یہ درد ناک کہانی ساری دنیا کو سنا چکی ہے اور اب تک 70سے زیادہ خطرناک مجرموں کے سامنے اسے دہراچکی ہے۔ وہ اس کہانی کو زیادہ سے زیادہ مجرموں کو سنانا چاہتی ہے۔ کیوں؟ اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہے: ’’تاکہ مجرموں کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کیا کررہے ہیں، کیا کرچکے ہیں اور ان کی اس حرکت کے آگے جاکر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ میں انہیں سیدھے راستے پر لانا چاہتی ہوں۔‘‘

61سالہ لین کا شوہر 63سالہ میک ایک سابق پادری ہے۔ ان دونوں کی ایک بیٹی 41سالہ جوانے بھی ہے۔ دونوں میاں بیوی نے یہ عزم کیا ہے کہ وہ معاف کرنے کی پالیسی کو اپنائیں گے اور ساری دنیا میں اس پیغام کو عام کریں گے کہ اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے بجائے انہیں معاف کردو۔ وہ اس ضمن میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لین نے پال کے قتل کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کردیا تھا:’’ہم اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کرتے ہیں۔‘‘ ادھر انہوں نے یہ اعلان کیا اور اس کے بعد ان کے پاس آنے والے مبارک باد کے پیغامات کا تانتا بندھ گیا جن میں انہیں اس طرز عمل پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اس دردناک واقعے کو سات سال گزر چکے ہیں، اس دوران لین نے بے شمار قیدیوں سے ملاقاتیں کیں، وہ عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں سے بھی ملی، اس نے ان سب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے ’’جرم‘‘ سے اس جیسے عام لوگوں اور خاص طور سے مائوں کے دلوں پر کیا بیتتی ہے۔ اور یہ کہ یہ کام کتنا خراب ہے، مقتول تو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلا جاتا ہے، مگر یہ حرکت قاتل کی روح کو ہمیشہ کے لیے ایسا گھائل کردیتی ہے کہ اسے کسی پل چین نہیں آتا۔ اس کے لیے زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔

ظاہر ہے لین ایک ماں ہے۔ اسے اپنے بیٹے کے ناگہانی قتل پر بہت دکھ ہوا، مگر اس نے خود کو اس دکھ میں ڈبونے کے بجائے دوسری مائوں کو اس دکھ سے بچانے کا فیصلہ کیا اور اپنی زندگی کا مقصد ’’معاف کرنا سیکھو‘‘ بنالیا۔

وہ کہتی ہے:’’جب میں پہلی بار ایسے ہی ایک قیدی سے ملنے جیل گئی تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں قیدیوں کا رویہ میرے ساتھ کیسا ہوگا۔ میں تو ڈر رہی تھی مگر قیدیوں کے جواب نے مجھے حیران کردیا اور میں سوچتی رہ گئی کہ یہ لوگ بھی انسان ہیں، زندہ انسان اور انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی کا سب سے اچھا بدلہ معافی ہے۔ میں نے اپنے بیٹے کے دونوں قاتلوں کو معاف کردیا، جب میں نے ان سے ملنا چاہا تو انہوں نے انکار کردیا۔ انہوں نے مجھ سے اپنے اس عمل پر معذرت بھی نہیں کی، لیکن مجھے اس بات سے سکون مل گیا کہ میری کہانی دوسرے قاتلوں، لڑکیوں کی آبروریزی کرنے والوں اور دہشت گردوں تک ضرور پہنچے گی اور وہ اپنے دل میں شرمندہ ہوگئے تو میں سمجھوں گی کہ میں نے اپنا کام کردیا۔ میرے بیٹے کے قاتل میرے مدد گار ہیں، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں خدا کے بندوں کو بچانے کی اس مہم کو کس طرح شروع کرپاتی۔‘‘

جب لین سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کو بھلا نہیں پارہی جو ہر وقت اس کا ذکر کرتی رہتی ہے تو اس نے جواب دیا:
’’ہاں، میں اسے کبھی نہیں بھلاسکتی، کیوں کہ میرا بیٹا بے مثال تھا۔ پیار اور محبت کے جذبے سے سرشار، ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ بڑا ہونے کے بعد بھی وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے مجھ سے پیار ضرور کراتا تھا۔ وہ معذور بچوں کی نگہ داشت کرتا تھا۔

28اگست 2002کو لین اپنے گھر پہنچی تو اس نے اپنے شوہر کو دو اجنبیوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ وہ دونوں سراغ رساں تھے۔ لین کے شوہر میک کے چہرے پر دکھ کے آثار نمایاں تھے۔ ظاہر ہے وہ لوگ کوئی اچھی خبر نہیں لائے تھے۔ ایک روز پہلے پال نے لین کو بتایا تھا کہ وہ کل کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ جب وہ رات کو دیر تک گھر نہیں پہنچا تو لین نے سوچا کہ شاید وہ اپنے دوست کے گھر رک گیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا، بلکہ انتھونی اور ریان نام کے دو نوجوانوں نے اسے ایک جگہ گھیر لیا تھا۔ دونوں نشے میں دھت تھے۔ جب پال اپنے دوست کے گھر کے قریب ٹیکسی سے اترا تو انتھونی نے پوری قوت سے چاقو سے اس کے سینے میں اتاردیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ وہ دونوں اس کے بعد بے پروائی سے چلے گئے اور پال سڑک پر گرگیا، وہ اپنے خون میں نہاچکا تھا۔

لین کہتی ہے:’’یہ سب سن کر مجھے اس قدر دکھ ہوا کہ میں اپنے حواس کھوبیٹھی، میں اپنے غصے کا اظہار بھی نہیں کرسکی۔ اس کے بعد میرے دن بڑی تکلیف میں گزرے۔ میں راتوں کو جاگتی رہتی تھی۔ میرا بیٹا پال مرچکا ہے، مجھے اس کا یقین نہیں آرہا تھا۔ پھر تو میں اس قدر روئی کہ بیان سے باہر ہے۔‘‘

اپریل 2003 میںلیور پول کرائون کورٹ نے اپنے فیصلے میں انتھونی کو پال کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے اسے عمر قید کی سزا سنائی اور اس کے دوسرے ساتھی کو پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔ 2005 میں ریان رہا ہوگیا لیکن 2011میں ایک کیشیئر کو لوٹنے کے الزام میں پھر جیل چلا گیا۔

اس ٹرائل کے دوران لین بار بار انتھونی اور ریان کی طرف دیکھتی تھی، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کی طرف نہیں دیکھا۔ لیکن لین نے ان کے رویے پر کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ اس کا معاف کرنے کا جذبہ ایک بار بھی ٹھنڈا نہیں پڑا۔ اس کا کہنا ہے:’’یہ ایک مشکل کام تھا، مگر میرا یقین ہے کہ نفرت آپ ہی کو نقصان پہنچاتی ہے، سامنے والے کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا۔‘‘

پھر نیشنل پریزن فیلوشپ چیریٹی نے لین کو یہ پیشکش کی کہ وہ لیور پول پریزن میں جائے اور اپنی کہانی وہاں قید لوگوں کو سنائے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کا جرم کس طرح مرنے والوں کے خاندانوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے اس کہانی کو سن کر دوسرے قیدی اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں اور مستقبل میں ایسی حرکت کا ارادہ کرنے والے راہ راست پر آجائیں۔

لین کا کہنا ہے:’’قید خانے میں ایک قیدی سے ملاقات کے بعد اس نے مجھ سے لپٹتے ہوئے کہا:’’کاش! تم میری ممی ہوتیں۔‘‘
میں نے بھی جواب میں اسے گلے لگاتے ہوئے کہا:’’کاش! تم میرے بیٹے ہوتے!‘‘

اس نے مجھے بتایا کہ اس کی ممی نشے کی عادی تھی جو اسے اس وقت چھوڑ کر چلی گئی تھی جب وہ ننھا منا بچہ تھا۔ ممی کے جانے کے بعد اس کے ڈیڈی نے اسے بہت تنگ کیا جس کے بعد وہ لڑکا بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔

ایک قیدی نے جس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے، میری طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا تو مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ جب میں نے جیل میں پال کے بارے میں بات شروع کی تو میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ پال میرے لیے کیا تھا، جب وہ چھوٹا سا تھا تو کتنا پیارا تھا، مجھ سے کتنا پیار کرتا تھا۔

جب اس نے اپنے میلے کپڑے واشنگ مشین میں ڈال دیے تو میں نے اس سرزنش کرنے کے بعد کس طرح انہیں دھویا اور استری بھی کیا۔ رات کو سونے سے پہلے وہ گھر کا مین دروازہ بند کرتا تھا، مگر اس کی موت کے بعد پہلی رات کو جب میں نے وہ دروازہ بند کیا تو میرا دل کس طرح رویا تھا۔ مجھے پتا تھا کہ اب میرا پال کبھی واپس نہیں آئے گا۔‘‘

لین قیدیوں سے باتیں کرتی رہی اور وہ سب مجسموں کی طرح سنتے رہے، وہ چاہتے تھے کہ یہ عورت اسی طرح بولتی رہے۔ کچھ قیدیوں کی آنکھیں بھی بھر آئیں اور وہ لین کی طرف شرمندگی سے دیکھتے رہے۔ ٹھیک ہے وہ پال کے قاتل نہیں تھے لیکن انہوں نے کسی نہ کسی کو قتل کیا تھا۔ شاید انہیں اپنے ہاتھوں قتل ہونے والے کی ماں یاد آرہی تھی۔ ان کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتے ہیں اور ساری دنیا کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سب لین کے گلے لگ کر رونا چاہتے تھے، اسے تسلی دینا چاہتے تھے۔

لین کہتی ہے:’’میں اس وقت اپنے سامنے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے قیدیوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں کے بوجھ سے ریزہ ریزہ ہورہے تھے۔ میں نے وہاں کم عمر قیدی دیکھے جو یقینی طور پر بھوک کا شکار ہوئے تھے۔ یہ ایسے بچے تھے جنہیں اس وقت اپنے ممی ڈیڈی کے پیار اور توجہ کی ضرورت تھی، مگر وہ جیل میں تھے، ہر چیز سے محروم!‘‘

لین کہتی ہے:’’مجھے پورا یقین ہے کہ جیل میں قید ان قیدیوں کو پہلی بار یہ معلوم ہوا تھا کہ ان کی مجرمانہ کارروائیوں سے مرنے والوں کے خاندانوں پر کیسے سنگین اثرات مرتب ہوئے تھے۔ میں چاہتی تھی کہ انتھونی اور ریان بھی مجھ سے مل لیتے تو میں انہیں شرمندہ کرنے کے بجائے ان سے پال کی باتیں کرتی اور یہ بتاتی کہ اس کے جانے سے میرا کتنا نقصان ہوا ہے۔ بہرحال میرا جیل کا دورہ بہت کامیاب رہا۔ میں نے وہاں بہت سی مائوں کے محروم بچے دیکھے اور انہیں یہ بتایا کہ دنیا اچھی جگہ ہے، یہ محبت کا گہوارہ ہے، نفرت کا نہیں۔ بہر حال میں نے اپنا بیٹا کھونے کے بعد بے شمار بچوں کو راہ راست پر لانے کا کام کیا ہے۔ خدا کرے کہ میری یہ محنت کام یاب ہوجائے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔