ادب اور فلم کیا کراچی میں ’بے امنی‘ اور قتل وغارت کے سوا کوئی اور قابل ذکر موضوع نہیں۔۔۔؟

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 اگست 2021
’شہر قائد‘ کے لاتعداد مسائل اور ان گنت ’کہانیاں‘ جوقلم کاروں اور فلم سازوں کی توجہ کی منتظر ہیں۔  فوٹو : فائل

’شہر قائد‘ کے لاتعداد مسائل اور ان گنت ’کہانیاں‘ جوقلم کاروں اور فلم سازوں کی توجہ کی منتظر ہیں۔ فوٹو : فائل

حالیہ ویب سیریز ’کراچی ڈویژن‘ کے ڈائریکٹر اور رائٹر شمعون عباسی نے ایک نجی چینل پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ مثبت چیز دکھانا چاہتے ہیں کہ کراچی برا نہیں ہے، انگریز سمجھتا ہے کہ کراچی میں آج بھی اونٹ گاڑی اور گدھا گاڑیاں چل رہی ہیں وغیرہ۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ’کراچی ڈویژن‘ کے تناظر میں یہ گفتگو کر رہے تھے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کراچی میں دو مقامی ’گینگ‘ نبرد آزما ہیں، جو کراچی میں اہدافی قتل، بم دھماکے اور ساری بے امنی میں ملوث ہیں۔

کراچی آج بھی ملک بھر میں توجہ حاصل کرنے والا ایک موضوع سمجھا جاتا ہے، چناں چہ فلم ساز اس حوالے سے فلمیں بھی بنانے لگے ہیں اور جیسے اکثر کراچی کی بے امنی اور یہاں کے کچھ مسائل قومی منظرنامے پر ذکر ہوتے ہی رہتے ہیں، لگ بھگ ویسے ہی مختلف فلمیں وغیرہ بھی سامنے آرہی ہیں۔۔۔ 2011ء میں ایک فلم ’’بھائی لوگ‘‘ منظر عام پر آئی۔۔۔ پھر 2014ء میں ’’نامعلوم افراد‘‘ اور 2017ء میں ’’نامعلوم افراد ٹو‘‘ بنائی گئی، وہ بھی کراچی کے خراب حالات اور ہنگاموں کے پس منظر میں تھی، جس کے ایک منظر میں ہم نے دیکھا کہ فون پر ایک مخصوص آواز میں بھتّے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

شاید کراچی کا نام ایک حد تک فلموں کی پذیرائی کی ضمانت سمجھا گیا، لیکن افسوس ایک ایسا شہر میں جس میں بقول شخصے ’ہر پتھر کے نیچے ایک کہانی موجود ہے‘، اس کے خلاف مستقل ایک ہی طرح کی پروپیگنڈہ ’اسٹیریو ٹائپ اور ’فارمولا‘ کہانیوں کا بگھار ہی لگایا جا رہا ہے۔

2013-14ء میں چلنے والے ڈراما سیریل ’’پیارے افضل‘‘ میں البتہ کراچی کی کچھ مختلف کہانی ہے، اس کی 32 ویں قسط میں ’افضل‘ (حمزہ علی عباسی) کو ایک عام رکن اسمبلی ذکی احمد کے قتل کے دو کروڑ روپے دیے جاتے ہیں کہ ذکی احمد اسمبلی میں ڈالر لے کر بات کرتے ہیں، لیکن جب وہ قتل کی نیت سے وہاں پہنچتا ہے، تو وہ اپنے کپڑے خود دھو  رہے ہوتے ہیں، تب ’افضل‘ بہت متاثر ہوتا ہے اور الٹا سُپاری دینے والوں کو  دھمکی دیتا ہے کہ اگر ’ذکی احمدکے پاجامے پر ایک سلوٹ بھی آئی، تو وہ سب کو کفن میں لپیٹ دے گا۔۔۔!‘ پھر آخری قسط میں پولیس ’افضل‘ کو قتل کر دیتی ہے۔۔۔!

یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وہ شہر جس کی صرف لیاقت آباد مارکیٹ پورے لاہور شہر سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہے، اس شہر کے زیادہ تر منفی اور تاریک پہلوؤں کو ہی فلموں کا موضوع کیا جا رہا ہے اور فلم ہی کیا ہماری تقدیر میں شاید ایسے ادیب بھی نہیں کہ جو اس شہر کی کچھ آواز تو بن سکتے۔۔۔ کسی طرح سے شہر کی بے چینیوں کو فلموں کا موضوع کر کے فلم بینوں کو یہ دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اس شہر والوں کے ساتھ آخر بنیادی مسئلہ کیا ہے اور اسے کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔۔۔ ایسا کیوں ہے کہ اس شہر کو لوٹا بھی جائے اور پھر اس کی بربادیوں کا تماشا دکھا کر اس کی ’واہ واہ‘ بھی وصول کی جائے۔۔۔!

یہ تو وہ شہر ہے، جو ملک میں کہیں بھی زلزلے، سیلاب اور کسی بھی قدرتی آفت میں ہمیشہ اپنا دل نکال کر رکھ دیتا ہے۔۔۔ جس کی سخاوت کی گواہی ہزاروں میل دور قائم فلاحی ادارے بھی دیتے ہیں۔۔۔ اکتوبر 2005ء میں اس شہر نے کس طرح سیکڑوں میل دور آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں ٹوٹنے والی ایک خوف ناک زمینی آفت کو اپنے کلیجے پر محسوس کیا تھا، اور اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی مدد کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑی تھی۔۔۔ کراچی کے اس کردار پر کتنی فلمیں بنیں اور کتنے ناول اور افسانے لکھے گئے۔۔۔؟ شاید ایک بھی نہیں۔۔۔! صرف عمر شریف کا ایک ’اسٹیج شو‘ بہ عنوان ’’سلام کراچی‘‘ ہی سامنے آیا، جس میں معمول کے پروگرام کے آخر میں اس حوالے سے کراچی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

ایک محفل میں کراچی کی پہچان پوچھی گئی، تو اسلحہ، بوری بند لاشیں، بھتّا، گٹکا اور گندگی کا تذکرہ کیا جانے لگا۔۔۔ ہر چند کہ یہ زمینی حقیقتیں بھی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مطلب کے ہی سچ بولنا اور سننا چاہتے ہیں، یہ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔۔۔ کاش ہم یہ بھی بتا سکیں اس شہر کا چہرہ ڈاکٹر جمیل جالبی، لطف اللہ خان، رئیس امروہوی، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، شوکت صدیقی، احمد جمیل مرزا، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، مشفق خواجہ، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر عطا الرحمن، حکیم محمد سعید، عبدالستار ایدھی، جون ایلیا، شکیل عادل زادہ، فاطمہ ثریا بجیا، ضیا محی الدین،  انور مقصود، پروین شاکر، حنیف محمد، جاوید میاں داد اور ڈاکٹر طاہر شمسی وغیرہ جیسے مشاہیر ہیں۔۔۔

کہتے ہیںکہ پورا ہندوستان اجڑا تو کراچی بسا اور یہاں ہندوستان بھر سے اپنے اپنے شعبے کے صف اول کی شخصیات آکر بسیں۔۔۔ تاریخ کے اِس نادر واقعے پر بھی تو کوئی ناول اور فلم تشکیل پانی چاہیے ناں۔۔۔ یہ واحد شہر ہے، جو ’قیام پاکستان‘ کی ہجرت کو سب سے زیادہ اپنے سینے پر بسا کر مورخین کو اس ملک کے قیام کے ناقابل فراموش ماضی کی یاد دلاتا ہے۔۔۔ لیکن اس پر یہ بَھپتی بھی کسی جاتی ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم نے اپنا ’انتخابی حلقہ‘ بنانے کے لیے جان بوجھ کر مہاجر کراچی میں بسائے۔۔۔! یہ کس قدر خوف ناک بات ہے۔

اچھا چلیے، آپ اسی پر کوئی فلم بنا لیجیے اور پھر اس میں بتائیے کہ 1947ء کے لٹے پٹے قافلے تو یہ کہانی بھی سناتے ہیں کہ وہ جب ہندوستان سے ’پاکستان‘ پہنچے، تو انھیں بتایا گیا پاکستان تو آگے ہے۔ (یہ قطعی سنی سنائی بات نہیں، باقاعدہ اس بات کے گواہ موجود ہیں) پھر اگر آپ پہلے وزیراعظم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں، تو اس کا دوسرا رخ کتنا شرم ناک ہے کہ گویا انھیں لسانی ضرورت کا احساس دلا دیا گیا تھا اور پاکستان بنانے والی ’مسلم لیگ‘ اس قابل نہ تھی کہ اپنے پہلے وزیراعظم کو نئے ملک کی سرزمین پر کوئی انتخاب تک جتوا سکے۔۔۔؟

بہت سے لوگ اس بات پر شاکی ہوتے ہیں کہ یہ لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے اور آج 70 سال بعد بھی اپنی جداگانہ تہذیبی اور ثقافتی شناخت پر مُصر ہیں، اگر انھیں مختلف جگہوں پر بساتے، تو آج یہ مکمل طور پر مقامی ثقافتوں میں ضم ہو چکے ہوتے۔۔۔ کیوں کہ ہجرت کرنے والوں کو نئی زمین کی ثقافت کا حصہ بننا چاہیے۔ چلیے ہم کہتے ہیں کہ کوئی فلم اس موضوع پر بھی بنا ڈالیے اور بات کیجیے کہ کیا ایک نظریاتی مملکت کی جدوجہد کرنے والوں پر دنیا بھر میں رائج عام ’تارکین وطن‘ کا کلیہ لاگو کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

پاکستان کے لیے 56 فی صد ووٹ دینے والوں کو ’اپنے ملک‘ میں یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آبائی اور تہذیبی ورثے کے امین بن کر رہ سکیں، جب کہ وہ اُس اردو کے امین ہیں، جو اس ملک کے قیام کا محرک اور اس ملک کی قومی زبان بھی ہے۔

ہمیں تو ہجرت کرنے والوں کی تہذیبی شناخت کا تحفظ زیادہ یقینی بنانا چاہیے، کیوں کہ پاکستان کے گُل دستے میں یہ رہتی دنیا تک اس ملک کے قیام کی ایک نشانی ہیں، جو قیامت تک اِس دنیا کو یہ بتاتے رہیں گے کہ مسلمانانِ برصغیر نے دنیا کے نقشے پر کیسی نئی تاریخ رقم کی تھی، لیکن شاید کوئی بھی اس طرح نہیں سوچتا۔ ان لوگوں کے طرز زندگی اور جداگانہ ثقافتی رنگوں میں بھی اتنی گہرائی تو ہے کہ انھیں کسی اچھی فلم کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔

کیا اس ملک کو 70 فی صد ریوینیو دینے والا شہر اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ اس کے کلیدی معاشی کردار اور لوگوں کی سیاسی محرومیوں پر بھی کوئی بھرپور فلم بنائی جائے۔۔۔ کوئی متوازن کہانی ایسی بھی تو ہو، جو خاص یہاں کی گلیوں میں پروان چڑھنے والے المیوں کو موضوع کرے۔۔۔ کوئی تحقیقی انداز میں اس دُکھتی رگ پر بھی ہاتھ رکھے کہ اس شہر کے نوجوان ’غیر مقامی پولیس‘ پر مشتعل کیوں ہوئے جاتے ہیں۔۔۔؟

کراچی کے امن وامان کے مسائل کو موضوع بنانے کے نام پر ہمارے ہاں ایسی بھونڈی اور بہت سے حقائق سے برخلاف ’ویب سیریز‘ اور فلمیں بنائی جا رہی ہیں، جس سے یوں لگتا ہے کہ کراچی میں فقط گولیاں ہی چلتی ہیں اور گینگ وار اور قتل وغارت ہی ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اگر آپ پر اسی حوالے سے فلم بنانے کی دُھن سوار ہے، تو کیا اس بے امنی میں زندگی کرنے والوں کے مسائل پر بہترین تحقیقی عکس بندی ممکن نہیں کہ لوگ اس غیر یقینی حالات میں اپنی روزی روٹی، خوشی غمی اور دیگر ضروری معاملات کیسے کرتے ہیں۔۔۔؟

اسکرین پر اگر ’سازشی‘ ٹارگٹ کلنگ پر ہی کچھ دکھانا ہے، تو ان بے نام قاتلوں کے ہاتھوں مرنے والے کسی نوجوان کی زندگی دکھائیے۔۔۔ یہاں کی بے امنی کا ایک رخ ’ماورائے عدالت قتل‘ اور ’جعلی پولیس مقابلے‘ بھی ایک طویل عرصے سے کسی فلم ساز اور قلم کار کی توجہ کے منتظر ہیں۔ بے امنی ہی کی بات ہے، تو کراچی میں اسلحے کی کوئی فیکٹری نہیں، پھر آخر یہاں اتنا اسلحہ کہاں سے آرہا ہے۔۔۔؟ یہاں منشیات کس کس طرح پھیلائی جا رہی ہے۔۔۔؟

دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑے اور ملک کے پہلے دارالحکومت کے سیاسی اور تہذیبی مسائل کو کسی تمثیل میں متوازن طریقے سے موضوع کیوں نہیں کیا جاتا کہ آخر اس شہر کے لوگوں اور باقی ملک کے لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے میں کیا رکاوٹ حائل ہے۔۔۔؟ اِس شہر اور باقی ملک کے باسیوں کے درمیان ایک ’خلا‘ کیوں ہے۔۔۔؟ اِسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟ کہاں پر لچک دکھانی چاہیے اور کہاں پر سمجھوتا کر لینا چاہیے۔۔۔ یہ تو اس شہر کے ساتھ ملک کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے!

آخر ملک بھر سے یہاں روزی روٹی کے لیے آنے والوں کے باوجود کیوں یہ تاثر ہے کہ یہاں انھیں مار دیا جاتا ہے؟ کیوں غریب پرور کراچی کے ایسے مناظر نہیں دکھائے جاتے کہ یہاں ہر زبان بولنے والے مکمل آزادی سے اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں، پورے ملک میں جتنی سیاسی ومذہبی جماعتیں اس شہر میں فعال ہیں اتنی کسی اور شہر میں نہیں۔۔۔

فلم سازوں اور قلم کاروں کو اگر شہرِ قائد کے مسائل اجاگر کرنے میں واقعی دل چسپی ہے، تو وہ کراچی میں سنگین ترین ہونے والے پانی کے بحران پر کوئی فلم کیوں نہیں بناتے۔۔۔؟ کراچی کو آبادی کے لحاظ سے کتنا کم پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہ ناکافی پانی بھی درمیان سے کون چوری کر رہا ہے۔۔۔؟

شہر کی ’ٹینکر مافیا‘ کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟ یہی نہیں شہر میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ’بورنگ‘ کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے، جس سے بھربھری ہونے والی زمین مستقبل میں کراچی کو کس قدر خوف ناک تباہی سے دوچار کر سکتی ہے۔۔۔؟ خاکم بدہن کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں اس شہر میں کتنی بھیانک صورت حال ہو سکتی ہے۔ خدانخواستہ ایک ہلکے سے زلزلے سے کس طرح ایک ایٹم بم پھٹنے سے زیادہ تباہی کا خدشہ ہے۔۔۔! اس شہر میں کسی آفت سے نمٹنے کے لیے کتنے ہنگامی ادارے اور آلات موجود ہیں۔۔۔ آج یہاں اتنے بڑے پیمانے پر فلک بوس عمارتیں قائم کی جا رہی ہیں، اس گنجانیت سے شہر پر کون کون سے ’عذاب‘ نازل ہو رہے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔۔۔؟

جون 2015ء میں کراچی کی قیامت خیز گرمی پر کوئی فلم کیوں نہیں بن سکتی کہ جس میں اس شہر کے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار لوگ لقمۂ اجل بنے تھے۔۔۔ مردہ خانے بھر گئے تھے اورچھوٹے بڑے اسپتالوں اور کلینکوں میں متاثرہ افراد باہر تک پڑے کراہ رہے تھے، ان کی طبی امداد کے لیے عملہ ناکافی اور بستر کم یاب تھے۔۔۔! کبھی تین کروڑ کی آبادی کے لیے میسر طبی اور تعلیمی سہولتوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔۔۔

یہاں تو عام دنوں میں بھی بڑے سرکاری اسپتالوں کی ’ایمرجینسی‘ تک میں مریض طبی امداد کے انتطار میں دیر تک پڑے سسکتے رہتے ہیں۔۔۔ بلوچستان اور سندھ سمیت ملک کے دور دراز علاقوں سے یہاں علاج کے لیے آنے والے بے حال مریضوں کے لواحقین کیسے سڑک کے کنارے پڑے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔۔ ’ایس آئی یو ٹی‘ (SIUT)، کارڈیو (NICVD)، این آئی بی ڈی (NIBD)، ’ایل آر بی ٹی‘ (LRBT) اور ’انڈس‘ اسپتال وغیرہ میں مریضوں کے جم غفیر سے تو شاید ساری زندگی بھی ’ویب سیریز{‘ بناتے رہیے، تب بھی ’کہانیاں‘ ختم نہ ہوں۔۔۔!

کراچی کی ’ٹرانسپورٹ مافیا‘ پر بھی تو کسی فلم میں بات کی جا سکتی ہے کہ کس طرح روشنیوں کے شہر میں ناکافی اور انتہائی نامناسب ٹرانسپورٹ شام ڈھلتے ہی نایاب بھی ہو جاتی ہے اور چند کلو میٹر سفر محال ہوا جاتا ہے۔۔۔ چھینا جھپٹی اور ’راہ زنی‘ کا جن بوتل میں کیوں بند نہیں ہو رہا۔۔۔ اور کراچی میں سرگرم ’قبرستان مافیا‘ بھی ایک توجہ طلب موضوع ہے۔۔۔ لوگوں کو اپنے پیاروں کو دفنانے تک کے لیے کتنی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے، پھر کس طرح کچھ عرصے بعد ان کے پیاروں کی قبریں ’غائب‘ کر دی جاتی ہیں۔۔۔ کس طرح شہر کے بھرے ہوئے قبرستانوں میں مسلسل قبروں پر قبریں بنائی جا رہی ہیں۔۔۔

کراچی میں اپنی چھت حاصل کرنا کس قدر دشوار ہے، پھر عمر بھر کی پونجی سے بنائی گئی چھت ’غیر قانونی‘ قرار پاتی ہے، اس کے پیچھے کتنے ہزار المیے منتظر ہیں کہ کوئی تو انھیں بھی قارئین اور ناظرین کے سامنے پیش کرے۔۔۔ کچھ ’تجاوزات‘ اور ’سرکلر ریلوے‘ کی زمین کے نام پر اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، کچھ گھر ’چائنا کٹنگ‘ کا ’قبضہ‘ قرار پائے، تو کچھ برساتی نالا چوڑا کرنے کے نام پر اپنے لیز گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھے! اس کے سارے ذمہ داران آزاد ہیں، جب کہ جیسے تیسے اپنا گھر بنانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔

اب سرکاری کوارٹرز کے نام پر لوگوں کو گھروں سے بے دخل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔۔۔! ہے کوئی افسانہ نگار جو ان المیوں کو ادب کی دنیا میں روشناس کرائے۔۔۔؟ یا کوئی فلم ساز جو تحقیقی انداز میں کراچی کے لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ سکے اور ان تلخ اور ’غیر مقبول‘ سچائیوں پر مبنی کوئی تخلیق سامنے لا سکے۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔