نعش کا خوف

ایم جے گوہر  جمعـء 10 ستمبر 2021

تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی گزشتہ ہفتہ 92 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ گیلانی مرحوم دس سال سے زائد عرصے تک گھر میں نظر بند تھے۔ پیرانہ سالی ، مختلف النوع عوارض اور بار بار قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود علی گیلانی آخری دم تک کشمیریوں کی جدوجہد کی علامت بنے رہے۔

ان کی وفات پر نہ صرف پوری وادیٔ کشمیر بلکہ پاکستان میں بھی سوگ کی فضا طاری رہی۔ وزیر اعظم عمران خان نے مرحوم گیلانی کا سرکاری سطح پر سوگ منانے کا اعلان کیا اور آزاد کشمیر میں تین دن تک سوگ منایا گیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مرحوم گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ کے کئی اجتماعات ہوئے جن میں صدر سے لے کر وفاقی وزرا تک سرکاری حکام سے لے کر سیاستدانوں و عام شہریوں تک لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں کی گئیں۔

سید علی گیلانی جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالے سے ایک واضح اور دو ٹوک موقف رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتا، میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنا پڑا تو میں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا۔‘‘ علی گیلانی نے تحریک آزادی کو مہمیزکرنے میں نہایت فعال اور سرگرم کردار ادا کیا۔

بھارت کے جبر و استبداد کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ انھیں کشمیری رہنماؤں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، جب کہ پاکستان میں بھی حریت رہنما گیلانی کی آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے خدمات کو سراہا جاتا تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں نشان پاکستان کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

مرحوم حریت رہنما علی گیلانی تنازعہ کشمیر کے حل کے ضمن میں کہا کرتے تھے کہ طویل عرصے سے ہم نے دیکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی بار بات چیت ہوئی ، اسی طرح بھارت اور کشمیریوں کے بیچ میں بھی بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

اس لیے ہم کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اولاً اقوام متحدہ کی قراردادیں بنیاد ہیں یا پھر سہ فریقی مذاکرات ہونے چاہئیں جن میں پاکستان بھی شریک ہو۔ پاکستان بھی اسی موقف کا حامی ہے اور سفارتی و سرکاری سطح پر اول دن سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں ان کے مطابق تنازعہ کا حل تلاش کیا جائے لیکن بھارت کا رویہ ہمیشہ منافقانہ رہا ہے۔

مرحوم حریت رہنما علی گیلانی کا پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ اسی محبت و خلوص کے پس منظر میں مرحوم کے اہل خانہ نے ان کی میت کو تدفین کے لیے پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ دیا تھا ، لیکن انتہا پسند مودی سرکار کی وادی میں جبری مسلط انتظامیہ کو گیلانی مرحوم کے اہل خانہ کی یہ ’’جسارت‘‘ پسند نہ آئی انھیں خطرہ ہو گیا کہ اگر گیلانی کی نماز جنازہ اور جلوس جنازہ کی اجازت دے دی گئی تو یہ جلوس تحریک آزادی کو مہمیز کرنے کا سبب بنے گا اور عالمی میڈیا کی کوریج سے پوری دنیا میں اس کی نمایاں تشہیر سے کشمیریوں کے حوصلے بلند جب کہ قابض فوج کے ہرکاروں کے حوصلے پست ہوں گے۔

بھارت علی گیلانی کی لاش اور تدفین کے مراحل کی آزادانہ ادائیگی سے اس قدر خوفزدہ ہو گیا کہ پاکستانی پرچم میں لپٹی ان کی میت کو اہل خانہ سے زبردستی چھین لیا اور رات کی تاریکی میں چند مخصوص قریبی اقارب کی موجودگی میں اہل خانہ کی مزار شہدا میں تدفین کی خواہش کے برخلاف، حیدر پورہ قبرستان میں ان کی تدفین کردی گئی۔

اس موقع پر پورے جموں و کشمیر کو بند کردیا گیا ، مواصلاتی رابطے منقطع اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔ نتیجتاً وادی میں عوامی سطح پر احتجاج کیا گیا ، کشمیری بیٹے، مائیں، بہنیں اور نوجوان اپنے محبوب رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب منعقد کرنے کے خواہاں ہیں لیکن قابض فوج کے ہرکارے کرفیو نافذ کرکے حریت کے متوالوں کو گھروں میں قید رکھنا چاہتے ہیں۔

کیا عالمی برادری کو یہ سب کچھ نظر نہیں آ رہا ہے؟ کیا کسی بڑے سیاسی رہنما کی تدفین اس طرح کرنا عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ غم اور دکھ کے لمحات میں مرحوم کے اہل خانہ پر تشدد کرنا کس ملک کے آئین کی شق میں لکھا ہے؟ کیا مغرب کے کسی سیاسی رہنما کی ماضی قریب میں، تدفین کی ایسی کوئی مثال ہے؟ کیا ظلم و ستم کے بہیمانہ سلسلے کو دراز کرکے بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا سکتا ہے؟ کیا عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی تاریخ میں علی گیلانی کا مقام و مرتبہ کم کرسکتی ہے؟

افسوس کہ ایسے تمام سوالوں کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ قابض بھارتی فوج اور کٹھ پتلی انتظامیہ کو اپنے جرائم کا حساب دینا ہوگا۔ علی گیلانی تاریخ میں امر ہوگئے جب کہ بھارت کے حصے میں رسوائی و بدنامی لکھی جائے گی۔ بھارت کے اول وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں یہ تسلیم کیا کہ وہ واپس جاکر مقبوضہ وادی میں استصواب رائے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں اس ضمن میں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ یہ المیہ اور بدقسمتی ہے کہ نہ صرف نہرو بلکہ اس کے بعد آنے والے کسی بھارتی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اہمیت دینے اور کشمیر میں رائے شماری کرانے کے بجائے الٹا مقبوضہ وادی میں ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کردیا۔

نتیجتاً کشمیری عوام آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے گھروں سے باہر نکلے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی تحریک آزادی ، بھارتی ظلم و ستم کے باوجود ، عروج حاصل کرتی جا رہی ہے اور نہتے کشمیری جوان، مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے خون، جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے کر اس جنگ آزادی کو کامیابی کی منزل کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ بھارت کو ایک نہ ایک دن انھیں آزادی کا حق دینا ہوگا۔

سانحے پر سانحہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسا امن کا ضامن اور عالمی تنازعات حل کروانے کا ذمے دار ادارہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں، سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ناکام چلا آ رہا ہے۔ اس پہ مستزاد عالمی امن کے ٹھیکیدار ممالک جنھیں مذکورہ ادارے میں ویٹو کی پاور حاصل ہے، اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ انھیں مقبوضہ کشمیر میں نہ تو بھارتی قابض فوج کے مظالم نظر آتے ہیں اور نہ ہی کشمیر میں بہتا ہوا لہو اور نہ ہی معصوم کشمیریوں کی آہ و فغاں انھیں سنائی دیتی ہے۔

پاکستان حکومتی و سفارتی سطح پر بارہا عالمی برادری کی توجہ کشمیر کی نازک صورتحال، بھارت کے منفی کردار اور خطے کے مخدوش حالات کی جانب مبذول کروا چکا ہے ، لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ گیلانی مرحوم کی نعش کے خوف نے بھارت کا چہرہ پھر بے نقاب کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔