کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 17 اکتوبر 2021
جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

غزل
اگلے پَل ہی سامنے پھر کھینچ لاتا ہے مجھے
اتنی جلدی آئنہ کیا بھول جاتا ہے مجھے
وار میرا آج بھی کاری ہے لیکن کیا کروں
بَین کرتی عورتوں سے خوف آتا ہے مجھے
ایک تو ہے وقت کی زد پر فصیلِ جسم بھی
دوسرا اک غم کہیں اندر سے کھاتا ہے مجھے
رات بھر کرتا ہوں اپنے آپ کو تعمیر میں
کون ہے جو صبح دَم پھر سے گراتا ہے مجھے
جاں فشانی کا برا ہو، پوچھتے ہیں لوگ بھی
جُز محبت اور کیا کیا کام آتا ہے مجھے
وصل کی امید پر خود کو بھلا دیتا ہوں میں
ہجر آ کے آخرش مجھ سے ملاتا ہے مجھے
جانتا ہوں موت سے بچنے کا گُر لیکن اسد ؔ
دیر ہو جاتی ہے جب وہ یاد آتا ہے مجھے
(اسد رحمان۔ پپلاں)

۔۔۔
غزل
لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا
یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا
وہ زخم مجھے طوقِ گلو جیسا لگا ہے
جو زخم بھی پیوستِ رگِ جاں نہ ہوا تھا
اس بار ملا کیا کہ جدائی ہی جدائی
ہوتا تھا مگر یوں بھی گریزاں نہ ہوا تھا
قاتل کی جبیں پر بھی پسینے کی شکن ہے
ہیبت سے کبھی ایسی پریشاں نہ ہوا تھا
کچھ بات تو دامن کو لگی گل کی مہک میں
کانٹوں سے یونہی دست و گریباں نہ ہوا تھا
کیوں سیلِ بلا خیز بہا کر نہ گیا غم
کیوں شکوہ کم ظرفیِ طوفاں نہ ہوا تھا
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
کب تھی یہ ہونے پر، مگر ہونا پڑا
راہ کی دیوار کو اس بار در ہونا پڑا
آ گیا تُو بس خدا ہونے کا ہی گُرسیکھ کر
کل کلاں پھر آدمی تجھ کو اگر ہونا پڑا
بانٹ دی اپنی سمجھداری یہاں پر اس لئے
مجھ کو پاگل وقت سے کچھ پیشتر ہونا پڑا
آخرش تھا قیس کی گدی نشینی کا سوال
سو ہوا برباد مجھ کو جس قدر ہونا پڑا
گھر نہیں بس، کاش وہ بھی دیکھ لو اے حاسدو
عمر بھر اس کے عوض جو دربدر ہونا پڑا
مطمئن یوں تو رہا ہوں وقت کے انصاف پر
بس پریشاں درد کی تقسیم پر ہونا پڑا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے ، گجرات)

۔۔۔
غزل
حل اداسی کا بہت خوب نکالا ہم نے
ربط اس بار پرندوں سے بڑھایا ہم نے
بے دلی سے ہمیں جس طرح گزارا تو نے
زندگی کیا تجھے ایسے ہی گزارا ہم نے؟
الجھنیں ہیں کہ الجھتی ہی چلی جاتی ہیں
یاد کی گٹھری کو جس وقت بھی کھولا ہم نے
خود میں کیا دھول اڑی ہے یہ ہمی جانتے ہیں
کس اذیت سے سمیٹا ہے یہ ملبہ ہم نے
کوئی سورج سے کہے، اس کی زیارت کے عوض
آنکھ کا نور بصد شوق گنوایا ہم نے
ایک لمحہ بھی مسرت کا نہ نکلا بلقیسؔ
عمرِ رفتہ کو کئی بار کھنگالا ہم نے
(بلقیس خان۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل
کوئی خوشبو نہیں رکتی،کوئی جھونکا نہیں آتا
تری دہلیز سے مجھ تک،کوئی رستہ نہیں آتا
یہ میری تشنگی مجھ کو تمہارے در پہ لے آئی
وگرنہ پاس چل کر تو،کبھی دریا نہیں آتا
فضائے شہر میں پھیلا یہ کیسا حبس ہے لوگو؟
دریچے کھول کر دیکھا،کوئی جھونکا نہیں آتا
کوئی تتلی کوئی جگنو ہمیشہ ساتھ لاتا ہے
گلاب آثار رستوں سے کوئی تنہا نہیں آتا
مری پلکیں مری آنکھیں، یہ میرے عارض و گیسو!
نظر ان خال و خد میں کیا،کوئی اپنا نہیں آتا
وہ جس کی چاندنی دل میں اُجالا بن کے اُتری ہے
نظر اس بھیڑ میں ہم کو وہی چہرہ نہیں آتا
کچھ ایسی ریت سے نسبت ہوئی ان دشت آنکھوں کو
پلٹ کر دیکھنا اب تو پس ِ صحرا نہیں آتا
مرے افکار کی وادی میں ایسے خار بکھرے ہیں
کہ اس جنگل میں کوئی بھی برہنہ پا نہیں آتا
فقیرِ راہ کی صورت میں جس رستے پہ ہوں اُس پر
سخی تو لاکھ گزرے ہیں،کوئی تم سا نہیں آتا
جو اُس کے دل کو چھو جائے یا اس کی آنکھ بھر آئے
مرے لفظو کوئی جادو، تمہیں ایسا نہیں آتا
خیالِ یار کی چادر اے ایماںؔ اوڑھ لے سر پر
سفر میں دشت و صحرا ہوں تو پھر سایہ نہیں آتا
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
چاند کی چاندنی دیکھتے دیکھتے
رات پھر کٹ گئی سوچتے سوچتے
اجنبی راستوں کے مسافر ہوئے
اجنبی منزلیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
گلستان کا مقدر ہوئیں بارشیں
دھل گئے سب شجر بھیگتے بھیگتے
کون سنتا صدائیں ہماری یہاں
بے زباں ہوگئے بولتے بولتے
جھانکتا ہے وہ اپنے گریبان میں
آئینہ رو برو دیکھتے دیکھتے
کوئی ہمدم نہیں ، کوئی سنتا نہیں
ایک مدت ہوئی چیختے چیختے
بات نکلی زباں سے نہ پھر رک سکی
بات پھیلی مری روکتے روکتے
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
خونِ دل سے دیے جلاتے ہیں
شہرِ جاناں کو یوں سجاتے ہیں
زندگی چاہے کرب میں گزرے
تجھ سے وعدے مگر نبھاتے ہیں
جب سے اُس دل میں ہم مقیم ہوئے
دوست حیرت سے دیکھے جاتے ہیں
جو جلاتے ہیں نفرتوں کی آگ
کب جہاں میں سکون پاتے ہیں
ہیں وہی لوگ لائقِ تحسین
دوسروں کے جو کام آتے ہیں
کیسا موسم ہے شہر پر طاری
دوست پیارے بچھڑتے جاتے ہیں
تیری گفتارِ دل نشیں سن کر
گل خزاں میں بھی مسکراتے ہیں
پھول چاہت کے جس سے کھل جائیں
گیت ہم ایسے گاتے آتے ہیں
وہ جو مسند نشیں کبھی تھے یہاں
خاک گلیوں میں اب اڑاتے ہیں
ہم ترے عشق میں اے جانِ جاں
زخم کھا کر بھی مسکراتے ہیں
(سید فرخ رضا ترمذی۔ کبیروالا)

۔۔۔
غزل
نئی نسلوں میں کوئی تازہ کہانی ہو گی
یہ محبت ہے، محبت نہ پرانی ہو گی
یہ گلابوں بھرے تختے ہیں تمہارے رستے
تم جہاں ہو گی وہاں رات کی رانی ہو گی
آج کے دن تو مناسب ہی نہیں سرخ لباس
تو جو آیا تو تجھے صلح جتانی ہوگی
جنّتی لوگوں کے ساماں کی تلاشی کیسی
کیا محبت بھی یہیں چھوڑ کے جانی ہوگی
جو منافق ہیں وہ دہلیز سے باہر ٹھہریں
دوست آئیں گے تبھی شام سہانی ہو گی
(احمد عطاء اللہ۔ مظفر آباد)

۔۔۔
غزل
گزر جائیں گے روز و شب ستمگر کے خیالوں میں
مجھے رونا ہے یونہی اَب ستمگر کے خیالوں میں
نہ لا گے ہے جیا مورا کسی محفل میں اے یارو
چھپا سکھ چین دل کا سب ستمگر کے خیالوں میں
یہ جسم و جان جا کے تب کہیں پائے ہے راحت ِجاں
کہ ڈُوبے اپنی نس نس جب ستمگر کے خیالوں میں
ملے تھے قافیے جتنے دیے ہیں لکھ سبھی ہم نے
کوئی پیچھے ہے چھوڑا کب ستمگر کے خیالوں میں
سلامت بچ نکل آئیں یہ اب ممکن کہاں راحِلؔ
گئے ہیں ہم تو پورے دب ستمگر کے خیالوں میں
کروںراحِلؔ ستمگر کی میں کوئی بات رد کیسے
ملا ہے مجھ کو میرارب ستمگر کے خیالوں میں
( علی رَاحِلؔ ۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل
کس قدر ہے یہ زندگی کا دکھ
اپنی بستی میں بے گھری کا دکھ
رات جب گاؤں میں اُترتی ہے
پھیل جاتا ہے روشنی کا دکھ
مرنے والے نے یہ نہیں سوچا
ساتھ جائے گا خودکشی کا دکھ
جس طرح سے گزر رہی ہے مری
کون سمجھے گا زندگی کا دکھ
اونچے اونچے مکان والوں نے
کب بھلا جھیلا جھونپڑی کا دکھ
میرے ہاتھوں سے گر پڑا تھا چاند
جانتا ہوں میں چاندنی کا دکھ
جس گھڑی وہ جدا ہوا مجھ سے
روز ملتا ہے اس گھڑی کا دکھ
آسماں کو بھی یہ خبر ہوتی
قید میں کیا ہے بے بسی کا دُکھ
دور پیڑوں سے ہی اُبھرتا ہے
میرے ہاتھوں میں بانسری کا دکھ
میں ہوں شاعر، سو میں سمجھتا ہوں
جان لیوا ہے شاعری کا دکھ
(نذیر حجازی۔ نوشکی)

۔۔۔
غزل
یہ کہنے میں نقصاں نہ خسارا، ’’نہیں معلوم‘‘
معلوم نہ ہو گر تو یہ کہنا، نہیں معلوم
کیا نشۂ ادراکِ کُل اشیا ہے کہ مجھ کو
یہ بھی نہیں معلوم، ہے کیا کیا نہیں معلوم
اک پھول ہی تھا حاصلِ عمر اور مرے بعد
وہ پھول بھی مہکا کہ نہ مہکا، نہیں معلوم
اُس لہر کے اثرات کا تم پوچھ رہے ہو؟
کیا کچھ تھا جو معلوم مجھے تھا؟ نہیں معلوم
اک ہم کہ ہمارا تو گلاس آدھا رہا اور
دنیا کو سمندر کا کنارا نہیں معلوم
جاتا ہوا اک شخص، سڑک، دھول، فقط دھول
آنکھوں کو زبیرؔ اس سے زیادہ نہیں معلوم
(زبیر حمزہ۔ گوجرانوالہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔