ایک اور چیز سستی

سعد اللہ جان برق  جمعرات 23 دسمبر 2021
barq@email.com

[email protected]

اللہ معاف کرے ہم یونہی شک کر رہے تھے، حکومتی کمپنی کی قوالی تو درست نکلی کہ پاکستان میں سستائی آرہی ہے۔شاید دماغ کے ساتھ ساتھ ہماری بینائی میں بھی کوئی فالٹ پیداہوگیاہے یعنی بصیرت عرف آئی کیو کے ساتھ ہماری بصارت یعنی آئی سائٹ بھی متاثرہوگئی ہے کہ ہمیں پڑھنے میں دقت ہوتی ہے مثلاً سرکاری سیاستدان فوارہ ٹائپ دکھائی دیتے ہیں شاید بیانات کی پھواروں کی وجہ سے۔

حکمرانوں کے الفاظ میں حکم تودکھائی دیتاہے لیکن بقایا الفاظ گڈ مڈ ہو کر کچھ عجب سے دکھائی لگتے ہیں۔ خیرکسی دن ماہرچشم وچشمہ کو دکھادیں گے لیکن فی الحال تو گرانی وارزانی یا مہنگائی اور سستائی کی بات کرلیں۔

سنا ہے ’’روپیہ۔۔۔انسانوں اور بیانوں کے بعد ایک اورآئٹم بھی سستا ہوگیا ہے ’’چلغوزے ‘‘

زبان پہ بار خدایا یہ کس کانام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے

مدت ہوئی ہے یارکو مہماں کیے ہوئے بلکہ اس کی شکل دیکھے ہوئے ایک وہ بھی زمانہ تھا جب بازاروں میں ریڑھے کے ریڑھے چلغوزوں کے انبار لیے پھرتے تھے اورآوازلگاتے تھے ۔

دلارے مشغولہ دلارے مشغولہ

یعنی لے لو راستے کی مصروفیت

گویاچلغوزے کی اہمیت راستے کی مشغولیت تھی اورجیبیں بھر کر اس کی مددسے راستہ طے کرتے تھے اوراب …

وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں

کل بیوی نے کہا ٹماٹردوسو روپے کلو ہوگئے تو ہم نے جلدی سے ٹماٹر سامنے رکھ کر فوٹو کھینچ لئے تاکہ کل کلاں بچوں کو دکھائیں اورانھیں ٹماٹروں کے بارے میں بتانا ٹیڑھی کھیر نہ ہو جیسے آج ہم چلغوزوں کے بارے میں بچوں کو صرف الفاظ سے سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔

مدت ہوئی ہے یارکومہماں کیے ہوئے

جوش قدم سے بزم چراغاں کیے ہوئے

اس سلسلے میں ایک پشتو ٹپہ بھی خاصا اشک آورہے۔

اے میرے دورکے یار

تمہاراچہرہ بھول چکاہوں صرف ’’نام‘‘ ہی یاد کرتا ہوں۔خیرتو مژدہ جاں فزا یہ ہے کہ چلغوزے سستے ہوگئے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ہماری طرح اور  بھی بہت سارے لوگ اس کوبھول گئے ہوں اورلوگ یہ جانتے ہی نہ ہوں کہ ایسی کوئی چیز بھی کبھی دنیا میں ہوا کرتی تھی جیسے ’’من وسلویٰ‘‘ کا صرف نام باقی رہ گیا۔

ایک دوست نے بتایاکہ اسے دیسی گھی کی ضرورت ہوئی،دستیاب نہ ہوا توہم نے مکھن خرید کرمسئلہ حل کرناچاہا،گھر میں جب مکھن گرم کرکے گھی نکالنا شروع کیا توبچے سب کے سب منہ پر رومال رکھ کر آخ آخ کرنے لگے کہ کتنی بدبودار چیز ہے حالاں کہ یہی بدبو ایک زمانے میں ہمارے لئے خوشبو تھی۔

آرٹ بک والڈ نے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ میں مدت کے بعد ایک پہاڑی صحت افزامقام پر گیا توطبیعت بگڑگئی ،نیند حرام ہوگئی،کھانا پیناچھوٹ گیا طرح طرح کے عارضے لاحق ہوئے پھرکچھ خیال آیا تو میں ایک قریبی بس اڈے گیا اوربس کے پیچھے کھڑے ہوکر لمبی لمبی سانس کے ساتھ دھواں کھینچنے لگا، خاصا افاقہ ہوا،بازار سے کھانالے کر کھالیا، طبیعت خوش ہوئی پھر اڈے ہی میں گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے ہارنوں اورشوروغل کی لوریاں سن کر میٹھی نیند سوگیا۔

اصل میں چلغوزہ کم بخت کارخانوں میں نہیں بنتا بہت دوردشوار گزار پہاڑوں میں ہوتاہے وہ بھی بہت کم کیوں کہ اس درخت کی لکڑی بھی ’’ایلین‘‘ کو بہت پسند ہے،اس لیے کارخانے سے نکال کر سیدھا سیدھا گوداموں میں نہیں جمع کیاجاتاہے بلکہ لوگ انفرادی طورپر تھوڑے سے چلغوزے لاتے ہیں۔

ویسے پاکستان کے صادق وامین تاجر کوشش تو کرتے ہیں کہ ان کو بھی گودام نشین کر لیں مگر گندم چاول گھی شکر جسا ’’مزہ‘‘ نہیں آتا۔ ویسے ہمارے ذہن میں ایک بہت ہی ’’نیک خیال‘‘ اور مفید مشورہ آیا ہے، حکومتی وزراء کو اس موضوع پر فوکس کرنا چاہیے شاید ’’بہتری‘‘ کی صورت نکل آئے۔لیکن ایک پرابلم ہے کہ چلغوزہ اب عوامی کھاجا نہیں رہاہے، پرتکلف ڈرائنگ روموں میں لحاف کے اندر بیٹھ کر لارج سائزکے ٹی وی پر فلمیں دیکھتے ہوئے ’’خواص‘‘ ہی اسے ٹھونکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔