کراچی فیسٹیول عرف ادب کا بسنت میلہ

انتظار حسین  اتوار 16 فروری 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

وہ جو پچھلے کالم میں ہم نے ادب کی بسنت کا ذکر چھیڑا تھا وہ تو بیچ ہی میں رہ گیا۔ تو وہ قصہ اصل میں یوں تھا کہ ہم تو یہ سوچ کر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے بلاوے پر کراچی گئے تھے کہ وہاں جا کر اس ادارے کی طرف سے منعقد ہونے والے کراچی لٹریری فیسٹیول میں شرکت کرنی ہے۔ مگر وہاں پہنچے تو بسنت میلہ کا سا سماں تھا۔ ہم نے یہ سوچا اور سوچ کر خوش ہوئے کہ اچھا یہ ادب کا بسنت میلہ ہے۔ تصور کیجیے کہ ادھر دور تک پھیلے سمندر پر سمندری طائر محو پرواز تھے۔ اور کس انداز سے۔ بس یہ لگتا تھا کہ بسنت رت کی ہوا نے ان کے جثے میں، ان کے پروں میںایک تازہ لہر دوڑا دی ہے۔ کس  مستی میں سمندر کی لہروں سے بلند ہوا میں غوطے لگا رہے تھے۔

ساحل سے ہٹ کر ہم نے جلسہ گاہ کی طرف قدم بڑھایا تو یہاں عجب سماں دیکھا۔ جیسے کوئی میلا لگا ہوا ہو‘ تب ہمیں خیال آیا کہ ارے یہ تو بسنت رت ہے۔ ادھر کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی ہے ادھر بھی گل پھول کھل اٹھے ہیں اس رنگ سے کہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ مجمع مردماں تو خیر تھا ہی کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا مگر خواتین بھی قطار اندر قطار چلی آ رہی تھیں۔ بوڑھی‘ جوان‘ نوخیز‘ لڑکیاں‘ بالیاں‘ بچیاں اس رنگ سے کہ دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی ۔ پتہ چلا کہ بسنت بہار اسے کہتے ہیں۔ نرم گرم موسم‘ گلابی جاڑا‘ کھلے آسمان تلے ہنستے مسکراتے شاداب چہروں کی لہر بہر۔

ایوانوں میں قدم رکھا تو دوسرا ہی نقشہ نظر آیا۔ ایک ایک وقت میں چار چار سیشن‘ کہیں اردو کی چہک مہک ہے اور شعر و افسانہ زیر بحث ہے۔ کہیں انگریزی کی چہکار ہے‘ کہیں تاریخ زیر بحث ہے‘ کہیں انگریزی ناول پر گفتگو ہو رہی ہے۔ کسی سیشن میں ایسی ہی کوئی علمی یا ادبی بحث سندھی میں‘ پنجابی میں‘ ایک مباحثہ کو بیچ میں چھوڑا‘ دوسرے میں جا گھسے‘ دوسرے سے تیسرے میں۔ وہاں جس کتاب کو موضوع بحث پایا‘ یا کسی ادیب کو رواں دیکھا تو سیشن ختم ہوتے ہی دوڑے کتابوں کے اسٹالوں کی طرف‘ مطلوبہ کتاب خریدی اور پھر جا پکڑا کتاب کے مصنف کو کہ اس پر اپنے دستخط کیجیے۔ اور خالی دستخط نہیں، ہمارے بیچ کھڑے ہو کر تصویر بھی کھنچوایئے۔ جس ادیب پر نظر گئی وہ مداحوں کے نرغے میں گھرا نظر آیا اور ہر مداح کیمرے سے مسلح ہر فرد کا‘ ہر نوجوانوں کے گروپ کا‘ ہر بی بی کا‘ ہر طالبات کی ٹولی کا تقاضا کہ ایک تصویر ہماری سنگت میں۔

تب ہمیں ان یار و اغیار کا خیال آیا جو اٹھتے بیٹھتے ادیبوں پر جتاتے تھے کہ ادب کی کتاب کی مانگ اب نہیں ہے۔ اور اردو ادب کا خریدار تو نظر ہی نہیں آتا۔ اور ادیب کا معاملہ یہ ہے کہ کَس نمی پُرسد کہ بھیا کیستی۔ ارے وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ذرا مداحوں اور پروانوں کی ان رنگ رنگ کی مردانہ نسوانی ٹولیوں کو دیکھیں مصنفوں سے ان کی کتابوں پر دستخط کرانے والوں سے ذرا آنکھیں چار کریں۔

اور پھر ہم نے اس ہجوم کو دیکھا اور سوچا کہ ادیب تو قریب و دور سے چل کر یہاں پہنچے ہیں مگر یہ ان کے مداح اور ادب کے رسیا تو اسی شہر کی مخلوق ہے اور یہ تو وہ شہر ہے جہاں کب سے بڑے تواتر کے ساتھ موت اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور قاتل مستقل اپنے شغل میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ ادب کے شوق میں ایسے عالم میں گھر سے نکل پڑے ہیں اور کون کونسے پُر خطر رستے سے ہوتے ہوئے اور خونیں حملوں سے بچتے بچاتے یہاں پہنچے ہیں اور کس بے فکری سے اپنے ممدوحوں کو سن رہے ہیں اور داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ شاید انھوں نے اقبالؔؔ سے یہ سن لیا ہے کہ ؎

اگر خواہی حیات اندر خطر زی

زندہ رہنا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ زندگی بسر کرنا سیکھو۔ اور انھوں نے اس سبق کو ذہن نشین کر لیا ہے۔

اور ہاں ادب کے نام پر یہاں جو مہمان آئے ہوئے ہیں کیا وہ سب ا دیب ہیں‘ نہیں یہاں رنگ رنگ کے اہل ہنر اور صاحب فن‘ کوئی مورخ‘ کوئی سیاسی مبصر‘ کوئی مصور‘ کوئی محقق‘ کوئی پروفیسر‘ کوئی دانش ور‘ مطلب یہ کہ یہ ادب کی مجلس ہے۔ اس کے دروازے ہر اس شخص پر کھلے ہیں جو اہل علم ہے‘ صاحب دانش ہے‘ مفکر ہے اور یہ لوگ کہاں کہاں سے آئے ہیں۔ مغرب سے‘ مشرق سے‘ ایران سے‘ ہندوستان سے‘ ہاں ہندوستان سے۔ وہ ہم خیال ہوں یا نہ ہوں‘ ہم زبان تو ہیں۔ جب مہمان خصوصی ڈکٹر راج موہن گاندھی اپنی کلیدی تقریر بزبان انگریزی کر رہے تھے تو کسی نے بصد ادب گزارش کی کہ ہماری آپ کی جو مشترکہ زبان ہے اس میں بھی بات کر سکتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ اب انگریزی بھی ہماری زبانوں میں شامل ہو گئی ہے۔ مگر اس کے بعد یہ ہوا کہ انھوں نے مختلف موقعوں پر بیچ بیچ میں اس زبان کے ٹکڑے لگانے شروع کر دیے جسے آپ اردو بھی کہہ سکتے ہیں اور ہندی بھی کہہ سکتے ہیں۔

راج موہن گاندھی بطور خاص لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اس خصوصی توجہ کا باعث یہ تھا کہ وہ گاندھی جی کے پوتے ہیں۔ اور گاندھی جی سے آپ کو لاکھ سیاسی اختلافات ہوں اور بیشک آپ ان کے اہنسا کے فلسفہ کے قائل نہ ہوں پھر بھی ان کی جادو بھری شخصیت سے آپ بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔ سوراج موہن گاندھی سے کتنے سوالات انھیں کے حوالے سے کیے گئے۔ ان کی دوستیاں بھی زیر بحث آئیں۔ کسی نے ان کی عقیدتمند میرا کے بارے میں بھی سوال کر لیا۔ انھوںنے بڑی رسانیت سے ان کے رشتۂ محبت کی وضاحت کی۔ خاص طور پر یہ وضاحت کہ یہ غیر جنسی رشتۂ محبت تھا۔

بیچ جلسہ میں تو نہیں‘ چائے کی میز پر البتہ ہم نے ان سے پوچھ لیا کہ گاندھی جی کے ایک بگڑے دل دوست کے متعلق تو کسی نے آپ سے پوچھا ہی نہیں۔ مولانا محمد علی کے بارے میں جو ایک وقت میں گاندھی جی پر اتنی جان چھڑکتے تھے کہ بی اماں سے کہہ رکھا تھا کہ گھر میں گوشت کی ہنڈیا نہیں پکے گی۔ جانے کس وقت گاندھی جی یہاں آن براجیں۔ اور ڈاکٹر راج موہن نے کس عقلمندی سے مولانا محمد علی کے نام کو تو گول کر دیا۔ کہا بس اتنا کہ مہاتما گاندھی بی اماں کا بہت احترام کرتے تھے۔

ارے ہاں‘ اس فیسٹیول میں ایک واقعہ اور گزرا۔ نئے ادب کا تو یہاں چرچا ہونا ہی تھا۔ آخر یہ فیسٹیول اکیسویں صدی کے بیچ منعقد ہو رہا تھا۔ اور ہمارا ادب بھی اپنے ادلتے بدلتے رجحانات و نیز جدیدیت ما بعد جدیدیت سے آنکھ مچولی کر کرتا اکیسویں صدی میں آن داخل ہوا ہے۔ سو مہاتما بدھ کی جاتک کتھا سے دہشت گردی تک کیا کچھ زیر بحث نہیں آیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہم نے دیکھا کہ ہندوستان کی سمت سے دو داستان گو نمودار ہوئے ہیں۔وہی انیسویں صدی والے داستان گویوں کی سج دھج‘ وہی ادب آداب اس فرق کے ساتھ کہ سامنے چاندی کی اس کٹوری کی جگہ جس میں افیم گھلی ہوتی تھی، چاندی کا گلاس نخالص پانی سے لبریز رکھا ہے۔ گھونٹ گھونٹ پیتے جاتے ہیں اور داستان سناتے جاتے ہیں۔ اور کیا پرانے لوگ اور کیا انگریزی ادب کی روایت کی تربیت یافتہ خواتین‘ لڑکیاں‘ بالیاں‘ نوجوان‘ انگریزی زدہ‘ اردو کے نئی لسانیاتی تجربوں کے زخم خوردہ طلسم ہوش ربا کی ہوش ربا اردو ڈوب کر سن رہے ہیں اور داد دے رہے ہیں۔

ارے صاحب‘ ڈپٹی نذیر احمد کے وقت سے اب تک زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ داستانی روایت جو اس وقت مردود قرار پائی تھی اور ترقی پسند اور جدیدیت کی تحریکوں تک معتوب رہی تھی اب اس روایت کی تجدید اس رنگ سے ہوئی ہے کہ ان داستانوں کے ترجمے انگریزی میں ہوئے‘ امریکا برطانیہ میں شایع ہوئے اور ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ ادھر اس تجدید کے جلو میں دلی میں دو نوجوان داستان گو نمودار ہوئے ‘ محمود فاروقی اور دانش حسین۔ دلی میں جہاں آخری داستان گو میر باقر علی داستان پر فاتحہ پڑھ کر دنیا سے سدھارے تھے۔ وہاں اب یہ نئے داستان گو دلی کے نئے سامعین پر داستان کا جادو کر رہے تھے اور اب کراچی میں آکر اس نئے لٹریری فیسٹیول میں داستان کا جادو جگا رہے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔