ہم بھی دوسروں کے لیےمثال بنیں!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 11 فروری 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

اس دنیا میں جو مزاحمت کی علامت بن جائے وہ امر ہو جاتا ہے، بھارت کی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی مسکان نامی مسلم لڑکی بھی اسی راہ پر ہے۔ گزشتہ روز وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں مسکان کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی سکوٹی پر باحجاب کالج کے پارکنگ ایریا میں داخل ہوتی ہے تو وہاں درجنوں ہندوتوا کے حامی زغفرانی جھنڈے اُٹھائے پہلے ہی حجاب کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

مسکان کو برقع میں آتے دیکھ کر وہ سب نعرے لگاتے ہیں، مشکان کی طرف دوڑے اور اُسے ہراساں کرنے لگے لیکن اس نے کمال جرأت کے ساتھ اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے کہ سب دنگ رہ گئے۔ وہ نعرے لگاتی بڑے آرام سے کالج میں داخل ہو گئی۔ اس بچی کی وڈیو چند گھنٹوں میں پوری دنیا میں وائرل ہوگئی ہے ۔

خیر حیرت اور خوشی اس بات پر بھی ہے کہ 90 فیصد بھارتی مسکان کو سپورٹ کر رہے ہیں، وہاں کا میڈیا بھی مسکان کو سپورٹ کر رہا ہے، اگر کوئی سپورٹ نہیں کر رہا تو مٹھی بھر افراد کا طبقہ جسے ہم انتہا پسند کہہ سکتے ہیں وہ سپورٹ نہیں کر رہا۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابھی تک بھارت سے جتنی بھی وڈیوز یا نیوز آرہی ہیں وہ اس دلیر طالبہ کے حق میں ہی آرہی ہیں۔

آپ ہزار اختلافات کے باوجود یہ دیکھیں کہ بھارت کے میڈیا نے بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے ، بھارتی میڈیا کا یہ رویہ دیکھ کر بھارتی حکمران اور انتہا پسند طبقہ پریشان ہے۔ حالانکہ ہمارا میڈیا مشال خان کیس میں مشال خان کے حق میں کھل کر نہیں بولا تھا اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت پر واویلا مچایا تھا، اور نہ ہی ہمارا میڈیا یہاں اقلیتوں پرہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے۔

لہٰذامسکان کے معاملے پر جس طرح بھارتی میڈیا، عوام اور سول سوسائٹی اُس کے حق میں کھڑی ہے۔ کیا ہمارا اتنا حوصلہ ہے کہ ہم اسی طرح کسی غیر مسلم لڑکی کے ساتھ کھڑے ہوں؟ زیادہ لوگوں کا جواب شاید ناں میں ہو! کیوں کہ ہمارے حالات اس حوالے سے اجازت نہیں دیتے شاید! لہٰذاسب سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں اختلاف رائے کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے! تبھی ہم تقاضا کر سکتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بند کیا جانا چاہیے۔

کیوں کہ معذرت کے ساتھ اس وقت دنیا ہمیں جس عینک سے دیکھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم انتہا پسند بھی ہیں، ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے، ہم کرپٹ بھی ہیں، ہم انصاف کرنے سے بھی گریزاں ہیں، ہم فضول خرچ بھی ہیں، ہمیں جینے کا سلیقہ بھی نہیں آتا اور ہم جھوٹوں میں بھی بہترین رینکنگ رکھتے ہیں۔ حالانکہ بقول شاعر

کھلا ہے جھوٹ کا بازار ، آؤ سچ بولیں

نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر

یہی ہے موقع اظہار، آؤ سچ بولیں

لہٰذاہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارا حکمران طبقہ اور اشرافیہ کمزوروں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، ہم تو آج تک کسی غیرمسلم کھلاڑی کو ٹیم کا کپتان تک نہیں بنا سکے، ہمارے تو آئین میں ہے کہ غیر مسلم کو وزیر اعظم یا صدر نہیں بنا سکتے، یعنی اقلیتیں بھی تو اسی ملک میں پیدا ہوئی ہیںوہ اپنا حق لینے کہاں جائیں؟ اگر ہم انھیں برابر کے حقوق دینے کے روادار نہیں ہیں تو پھر ہمیں خوش ہونے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔

الغرض جب ہم اقلیتوں یا اپنے سے کمتر لوگوں کو اُن کے حقوق دینا شروع کردیں گے تو پھر ہمیں اس طرح کے واقعات کے لیے اپنے ملک میں آواز اُٹھانے کا بھی حق ہے اور دور بیٹھ کر خوش ہونے کا بھی حق حاصل ہے ۔

مزہ تو تب آئے گا، جب دنیا کہے یا خاص طور پر بھارت کہے کہ دیکھو! پاکستان اقلیتوں سے کتنا پیار کرتا ہے، یعنی ہم کسی کام میں تو مثال بن جائیں، دنیا کے لیے ۔ لیکن فی الووقت تو کبھی ہم امریکا پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں، کبھی اسرائیل پر، کبھی روس پر، کبھی یورپ پر،کبھی سعودی عرب پر تو کبھی بھارت پر۔ لیکن اپنے گھر کو نہیں دیکھتے کہ ہم میں کتنی خامیاں ہیں۔

ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ریاست مدینہ یا فلاحی ریاست سے ہم کتنا دور ہیں؟ ترقی یافتہ قومیں ہم سے آگے کیوں ہیں؟ وہ کیوں انصاف، معیشت اور اپنی پالیسیوں میں ہم سے بالاتر ہیں؟ جب کہ اس کے برعکس ہمارے ملک میں تو انصاف کا یہ عالم ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے والے اور حالیہ تاریخ میں ہو نے والے سانحات سے ہم نظریں چرا رہے ہیں۔

ہمارے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ ساہیوال، سانحہ سیالکوٹ، سانحہ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ جیسے سیکڑوں واقعات ہیں جن کے متاثرین آج بھی انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں ۔ یعنی یہاں سے یہ بات بھی اخذ کی جا سکتی ہے، کہ ہم تو ’’اکثریت‘‘ کو حق نہیں دے پارہے تو یہ اقلیتیں کہاں سے آگئیں، پاکستان میں تو طاقتور اور امیر آدمی جس کو چاہے مار دے، ناظم جوکھیو یا نور مقدم کیس ہم سب کے سامنے ہے۔ جس میں طاقتور جلد ہی چھوٹ جائے گا اور اس میں بھی سابقہ کیسوں کی طرح ریاست پیچھے ہٹ جائے گی اور متاثرین دباؤ میں آکر ’’دیت‘‘ کے تحت صلح کر لیں گے۔

یعنی ہم تو غریب مسلمان کو تحفظ نہیں دے سکتے تو غریب اقلیتوں کو کیسے حقوق دے سکتے ہیں ؟ اب تو ہم نے یہ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ قوم ٹھیک ہو یا قوم کو ٹھیک کیا جائے، بلکہ اب تو یہ کہنا چاہیے کہ ہر بندہ انفرادی طور پر ٹھیک ہو گا تو یہ نظام بہتر ہو سکے گا۔ کیوں کہ یہ ہماری لڑائی ہے، ہم نے لڑنی ہے، ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کسی بھی استحصالی طبقے کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمیں آج تک بہترین قیادت میسر نہیں آسکی۔ حکومت سے، سیاستدانوں سے، فیصلہ کرنے والی طاقتوں سے کوئی اُمید نہیں ہے، لہٰذافی الوقت ہمیں اُمیدیں آپس میں ایک دوسرے سے لگانی چاہیئں، تاکہ ملک بھی ترقی کرے اور ہم ایک بہترین قوم بن جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔