آہ ! ڈاکٹر مہدی حسن

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 25 فروری 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بقول شاعر

جنگل میں اتنی خاموشی پہلے کبھی نہ تھی

اے کارواں ٹھہر کوئی ساتھی بچھڑ گیا

ہمارے ہر دلعزیز اُستاد، رہنما اور ترقی پسند لیڈر ڈاکٹر مہدی حسن ہم سے بچھڑ گئے،وہ طویل عرصہ سے علیل تھے، وہ ایک عرصے سے گلے کے سرطان اور امراض قلب میں مبتلا تھے۔ آخر ی بار انھیں چند سال قبل ایک تقریب میں دیکھا تھا، اُس وقت انھیں دیکھ کر دل بجھ گیا تھا۔ بیماری نے انھیں بہت کمزور کردیا تھا۔ وہ احمد مشتاق کے اس شعر کی جیتی جاگتی مثال تھے اور رہیں گے:

تزئینِ کائنات کا باعث وہی بنے

دنیا سے اختلاف کی جرأ ت جنھوں نے کی

جی ہاں!پنجاب یونیورسٹی ہو، کسی احتجاج کی سرپرستی کرنی ہو یا کسی آمر کو للکارنا ہو ، ڈاکٹر مہدی حسن اپنی پوری زندگی جدوجہد کا استعارہ رہے۔ آپ نامور صحافی، مبصر اور سیاسی تجزیہ کار تھے۔ تعلیم صحافت اور انسانی حقوق کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے پر حکومت پاکستان نے 2012 میں انھیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ڈاکٹرصاحب ایک با اصول آدمی تھے، روشن خیال اور سیکولر۔ تشدد اور انتہاپسندی سے انھیں نفرت تھی ۔

ان کے دروازے ہر مکتب فکر کے افراد کے لیے کھلے تھے کیونکہ ان کا مکالمے پر یقین تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی ڈاکٹر مہدی حسن کی محفلوں میں شریک ایک مخبر بھی ان کے اخلاق اور شائستگی سے متاثر ہو کر ان کا گرویدہ ہو گیا۔

ہم نئے نئے یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر صاحب ہمیں بالکل بھی اچھے نہیں لگتے تھے! کیوں کہ ہمیں لگتا تھا کہ وہ زیادہ تر سینئر طلبہ کے جھرمٹ میں اور خاص طور پر طالبات کے جھرمٹ میں گھرے اُن کے مسائل سنتے نظر آتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم نے اُن کے مزاج کو سمجھا اور پھر ہم بھی اُن کے گرویدہ ہوگئے۔اور اس قدر ہوئے کہ ہم اُن کے لیے مار کھانے کے لیے بھی تیار ہوجاتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں پنجاب یونیورسٹی میں تھا تو ایک جماعت کی طرف سے اُن کی بہت زیادہ کردار کشی کی مہم چلائی گئی،ایک دفعہ توانھیں مخصوص جماعت کے چند لڑکے اُن کے ہوسٹل کے باہر انھیں پیٹنے کے لیے کھڑے تھے ، لہٰذا میں بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ اُن کے دفاع میں کھڑا ہوگیا اور مخالف گروپ وہاں سے چلا گیا! وہ طلبہ کو تشدد سے منع کر دیتے۔

وہ اکثر مزاح سے دوسروں کو محظوظ کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مہدی حسن بتاتے ہیں کہ 1964 کی بات ہے۔ طارق(پی ٹی وی کے مشہور پروگرام نیلام گھرکے اناؤنسر طارق عزیز )ریڈیو میں ڈیڑھ سو روپے تنخواہ پر اناؤنسر تھا۔ میں پی پی آئی سے وابستہ تھا اور میری تنخواہ 165 روپے تھی۔

بھاٹی گیٹ لاہورکے قریب ہم ایک کمرے میں رہتے، جس کا کرایہ میں دیتا کیونکہ میری تنخواہ طارق سے زیادہ تھی۔ اس زمانے میں کرائے کے کمروں میں پنکھوں کا رواج نہیں تھا۔ ایک روز گرمی نے طارق کو خاصا زچ کیا تو ہم لاء کالج کے پرنسپل کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ چھٹیوں میں اگر ایک کمرے میں ہمیں رہنے کی اجازت مل جائے تو مہربانی ہو گی، وہ مان گئے۔

برابر کے کمرے میں سوئپرز گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرتے۔ ایک دن ڈیوٹی سے واپس آیا تو طارق جاگ رہا تھا، میں نے کہا سوئے نہیں؟ اور تم میری چارپائی پر کیوں ہو؟ میں نے دیکھا تو ایک سوئپر میری چارپائی پر سو رہا تھا۔ میں نے طارق سے کہا، اسے اٹھاؤ تو اس نے بتایا کہ وہ کوشش کر چکا ہے اور نشے میں دھت اس بندے سے گالیاں کھا چکا ہے۔

میں نے کہا، آؤ اس کی چارپائی الٹاتے ہیں۔ ایسا کرنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور گالیاں دیتا چلا گیا۔ اس پر طارق نے کہا کہ اب تو ہم نے سوئپر سے بھی گالیاں کھالیں، اس سے زیادہ بے عزتی نہیں ہوسکتی تو اب میرے دن بدلیں گے۔ اس کا کہا سچ ثابت ہوا، چند دن بعد پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو طارق کو اناؤنسر کی نوکری ملی، اور اس کی تنخواہ ڈیڑھ سو سے چھ سو روپے ہو گئی۔ لیکن اُس کے بعد ہمارا لائف اسٹائل بدل گیا اور دوبارہ ہمیں کبھی کسی نے گالیاں بھی نہیں دیں!

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا!

بہرکیف ڈاکٹر مہدی حسن روشن دماغ تھے۔ وہ سچ کہنے والے اس قبیلے کے فرد تھے جو اب اس ملک میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ انھوں نے تاریخ، صحافت، ابلاغ عامہ اور سیاسی جماعتوں پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں، ان کی کتاب ’’دی پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘‘ کو صحافی اور پروڈیوسر بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے جامعہ پنجاب سے ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور 1990 میں بولڈر کی یونیورسٹی آف کولوراڈو میں فلبرائٹ اسکالر تھے جس میں ان کی تحقیق کا موضوع ’’امریکی ذرایع ابلاغ میں تیسری دنیا کے ممالک کی کوریج‘‘ تھا، انھوں نے امریکا اور پاکستان میں کئی تحقیقی مقالے بھی شایع کیے۔

ان کا تدریسی کیریئر 50 برسوں پر محیط تھا۔انھوں نے شاندار کیریئر کے دوران انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ پاکستان کی ان ممتاز شخصیات میں سے ایک تھے جنھیں سیاسی تجزیے میں مہارت حاصل تھی اور وہ مختلف ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز سے بھی بطور مبصر وابستہ رہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے بعد ایک نجی یونیورسٹی میں جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بانی ڈین کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دو دفعہ چیئر پرسن منتخب ہوئے۔ پی ایف یو جے سے بھی مختلف حیثیتوں سے ان کی وابستگی رہی۔سابق وزیر  خزانہ اور پیپلز پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن ان کے تایا زاد بھائی تھے۔ پیپلز پارٹی کن حالات میں قائم ہوئی اور اس نے کیسے مقبولیت حاصل کی وہ ان کے سامنے کی بات ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کی بامعنی اور باوقار زندگی ختم ہو گئی، ان کے اس معاشرے کو بہتر بنانے کے خواب بکھر کر رہ گئے۔ وہ روادار، روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے کے خواہاں تھے لیکن ہم نے تنزلی کے راستے پر سفر کیا۔وہ ہم سے بچھڑ تو گئے مگر اصول پسندی کا ایسا سبق دے گئے جو مجھ سمیت ہزاروں طلبہ کی زندگی میں پنپتا بھی رہے گا اور بڑھتا بھی رہے گا!دعا ہے اﷲ تعالیٰ اُن کی اگلی منزلیں آسان کرے(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔