یوکرین تنازع! اب کیا ہوگا؟

سرور منیر راؤ  اتوار 27 فروری 2022

یوکرین اور روس کے درمیان جنگ اس وقت عالمی منظر نامے کا محور ہے۔ دنیا کی معیشت اور عا لمی نفسیات ابھی کرو نا کے دبا سے نہ نکلی تھی کہ یورپ پر جنگ کے بادلوں نے اس صورتحال میں مزید الجھا پیدا کر دیا۔یوکرین اور روس کے درمیان اختلافات اور چپقلش کی کہانی تیس سال سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔

1991میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے سے پہلے یوکرین اس کا اہم اور قریب ترین حصہ تھا۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن بھی دوسری اکائیوں کی طرح ایک خود مختار اور آزاد ملک بن گیا۔ یوکرین روس کی ہمسایہ ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کی ایٹمی توانائی کا اہم مرکز بھی رہاہے، مشہور زمانہ ایٹمی ری ایکٹر چرنویل بھی یوکرین میں ہے۔

خود مختار اور آزاد ملک بننے کے بعد روس کی یہ کوشش رہی کہ یوکرین کی خارجہ حکمت عملی اور پالیسیاں روس سے مطابقت رکھیں اور اس کا جھکا مغرب کی طرف نہ ہو لیکن یوکرین نے روس کی اس ڈکٹیشن کو ماننے سے انکار کیا۔

یوکرائن رقبے کے اعتبارسے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ روس کو یورپ سے زمینی تجارت کے لیے یوکرین کو ہی استعمال گزرنا پڑتا ہے، روس راہداری کی مد میں خطیر رقم یوکرین کو ادا کرتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق یورپی ممالک کی 40 فیصد گیس روس سے یوکرین کے ذریعے سپلائی کی جاتی ہے۔ دوسری طرف امریکا اور مغربی ممالک نے یوکرین کو ابتدا ہی سے یورپی یونین اور نیٹو کا رکن بنانے کا جھانسہ دے رکھا ہے لیکن کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود یوکرین کو نہ تو یورپی یونین کا ممبر بنایا گیا ہے اور نہ ہی نیٹو کے حفاظتی حصار میں لے لیا گیا۔

روس ابتدا ہی سے اس بات کا شاکی رہا ہے کہ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہو گیا تو اس غیر جانبدارانہ اور بفر حیثیت ختم ہو جائے گی۔پیوٹن نے اقتدار میں آنے کے بعد اس کو معاشی اور سیاسی اعتبار سے ایک مستحکم ملک بنالیا اور اب اس کی خواہش ہے کہ سوویت یونین کو دوبارہ اکٹھا کر لے۔ ایک پرعزم باصلاحیت،مضبوط اور سخت گیر حکمران ہونے کے ناطے پیوٹن نے روس کو کافی مستحکم کرلیا ہے۔ پیوٹن کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ یوکرین روس کے ساتھ مل کر چلے لیکن یوکرین کے موجودہ صدر کامغرب کی طرف جھکاو نے روس کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔

پیوٹن کا اندازہ تھا کہ اگر روس نے یوکرین کو قابو نہ کیا تو کچھ عرصہ بعد وہ نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بن جائے گا اور تمام کھیل روس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔امریکا، برطانیہ اور کئی مغربی ممالک کا خیال تھا کہ یوکرین کو جلد از جلد یورپی یونین میں شامل کر کے مغربیت میں ڈھال لیا جائے اور اسے نیٹو کی ڈھال دے کر دفاعی تحفظ فراہم کیا جائے لیکن شنجن کی چند ریاستیں جن میں خاص طور پر ہنگری نے یوکرین کی شمولیت کو ویٹو کر دیا۔ان کا خیال تھا کہ یوکرین کی شمولیت کے بعد ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے وہ ہم سب ریاستوں پر حاوی ہو جائے۔

یوکرین کو ایک پرامن ملک بنانے کے لیے یورپی ریاستوں اور امریکا نے مل کر ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی جسکے تحت سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد یوکرین نے جب خود کو ایک آزاد اور خود مختارملک ہونے کا اعلان کیا تو اسے کہا گیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر لے تاکہ وہ یورپ میں ایک پرامن ملک تصور کیا جا سکے اس طرح وہ یورپ کی ترقی اور ثقافت کا حصہ بن جائے گا۔

یوکرین نے امریکا اور یورپی یونین کے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ایٹمی صلاحیت کو رول بیک کر دیا۔کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود یوکرین نیٹو اور یورپی یونین کا حصہ نہیںبن سکا بلکہ وہ ایٹمی صلاحیت بھی کھو بیٹھا۔ روس نے اس ساری صورتحال کو بھانپتے ہوئے یوکرین کو متنبہ کیا کہ وہ ایک غیر جانبدار بفر اسٹیٹ کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھے اور وہ امریکا اور یورپ کا پٹھو نہ بنے۔پیوٹن نے کہا کہ اگر یوکرین امریکا اور یورپ کی پراکسی بننے کی کوشش کرے گا تو رس اسے ایسا نہ کرنے دے گا۔دوسری طرف یوکرین سالہا سال سے امریکا اور یورپ کے جھانسے میں رہا۔

حتی کہ یہ دن آگیا کہ روس نے یوکرین پر حملہ کر کے اسے بے دست و پا کر دیا ہے۔یوکرین کے لیے اب ’’نہ جائے ماندن نہ ھے پائے رفتن‘‘ والی صورتحال ہے ۔دیکھیں یہ اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔