جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 28 فروری 2022
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

جب سے پی ٹی آئی حکومت برسراقتدارآئی ہے ہماری اپوزیشن اُسے محروم اقتدار کرنے کی جستجواورکوششوں میں لگی ہوئی ہے، مگر چار سال ہونے کو آگئے ہیں وہ اس حکومت اس کاکچھ بگاڑ نہیں سکی ہے۔ حکومت اپنی نااہلیوں اورناکامیوں کے باوجود ابھی مقبولیت میں پہلی نہیں تو کم از کم دوسری بڑی سیاسی جماعت ضرور بنی ہوئی ہے۔ملک بھر میں کیے جانے والے عوامی سروے تو یہی بتاتے ہیں۔

ہماری ساری اپوزیشن جماعتیں ملکر بھی اسے کسی ایک معاملہ میں شکست نہیں دے پائی ہیں،بلکہ سینیٹ میں جہاں عددی اعتبار سے اپوزیشن کاپلڑا بھاری ہے لیکن کسی بھی قانون اوربل کو پاس کروانے میں وہاں  بھی حکومت کو کوئی مشکل درپیش نہیں ہوپائی ہے۔ اپوزیشن آپس میں ہی ایک دوسرے کو الزام دیتی رہی ہیں مگر حکومت کو اپنا کام کرنے سے روک نہیں پائی ہے۔

گیارہ جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد ضرور بنایاگیامگر اس میں دراڑیں بھی خود اپوزیشن نے ہی ڈال کر اُسے کمزور اورناکارہ بناڈالا ہے،وہ اتحاد حکومت سے نبردآزما ہونے کے بجائے آپس میں ہی گتھم گتھا ہوکر اپنے لیے خود ایک مذاق بنکررہ گیا ہے۔

نئے الیکشن میں تقریباً ایک سال کاعرصہ باقی رہ گیاہے تو ایسے میں عدم اعتماد کی تحریک کی باتیں کی جانے لگی ہیں جس  کی کامیابی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔پی ڈی ایم کی ایک بڑی اوراہم جماعت مسلم لیگ (ن) شروع ہی سے ایک ایسے ماحول میں عدم اعتماد کی کسی تحریک کے خلاف تھی جہاں امپائر کی غیر جانبداری ابھی تک مصدقہ اورواضح نہیں ہے، لیکن پاکستان پیپلزپارٹی شروع دن سے اس آپشن کو استعمال کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے اوراس کے لیے وہ مسلم لیگ کو اکسا تی رہی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں اُسے اپوزیشن کی باقی دوسری جماعتوں کی نسبت برتری حاصل ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری اس کام میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے پچھلے دنوں ایک مشن پر کراچی سے نکل کر اسلام آباد بھی پہنچ گئے اورکسی حد تک ساری اپوزیشن کو اس آپشن کے استعمال کرنے پرراضی اوررضامند بھی کرلیا۔

پارلیمنٹ میںاپنی عددی کمی کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی بات چیت کرنا شروع کردی اورایسا لگنے لگا کہ اس بار یہ آپشن شاید کامیاب ہوجائے۔مسلم لیگ (ق) جس کے پاس قومی اسمبلی میں صرف پانچ ارکان ہیں اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے بارگیننگ کرنے لگی اوراپنی حیثیت سے زیادہ حق مانگنے لگی۔غیر مصدقہ خبروں کے مطابق پیپلزپارٹی اُسے اگلے ایک سال کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر بھی متفق ہوچکی ہے مگر شاید مسلم لیگ (ن) ایسا کرنے پر کسی طرح بھی راضی نہیں ہے۔

اُس کے نزدیک ایسا کرنا خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ پرویزالٰہی میں وہ صلاحیتیں ضرور موجود ہیں جن کو استعمال کرکے وہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت کو کم کرسکتے ہیں،لہٰذا مسلم لیگ (ن) یہ غلطی کرنے کو کسی طور راضی نہیں ہوسکتی ہے۔

زرداری صاحب کا تو مشن ہی یہی ہے کہ کسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کاسحرتوڑ سکیں،وہ 2018 میں بھی یہ کہہ چکے تھے کہ اس بار ہم تمہیں پنجاب میں حکومت بنانے نہیں دینگے اورپھر کیا بھی ایسا ہی۔ وہ اپنی اس شاطرانہ حکمت عملی کاکریڈٹ بھی اپنے نام کرتے رہے ہیں۔ موجودہ عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی ارادے اورمقاصد کارفرما ہیں۔ تحریک اگر ناکام ہوجاتی ہے تو پیپلزپارٹی کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے لیکن مسلم لیگ کی ساکھ اور مقبولیت پر کاری ضرب ضرور پڑسکتی ہے۔ چٹ بھی میری اورپٹ بھی میری کے مصداق آصف علی زرداری یہ آپشن استعمال کرکے دونوں صورتوں میں وصول کنندہ ہی رہیں گے۔

سیاست ایک ذہانت اوردور اندیشی کا کھیل ہے ۔ اور اس کھیل کو آصف علی زرداری سے زیادہ کوئی نہیں کھیل سکتا ہے۔آصف علی زرداری کی نظریں اس ایک سال کے بجائے 2023 ء کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں، وہ بلاول بھٹو کو اس ملک کاوزیراعظم بنانا چاہتے ہیںاور اس کام کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو زک پہنچانا عمران خان کوقبل ازوقت معزول کیے جانے سے زیادہ اہم ہے۔انھیںکوئی فرق نہیں پڑے گا اگر عدم اعتماد کے تحریک ناکامی سے دوچار ہوگئی تو سندھ میں اُن کی حکومت جوں کی توں رہے گی اوربالفرض اگرتحریک کامیاب بھی ہوگئی تو وہ مسلم لیگ (ن) کو اس ایک سال کے لیے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی آفر کرکے بظاہر فراخدلی کامظاہرہ کرینگے ۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح اگلے الیکشن تک اس عارضی پیریڈ میں جوبھی حکومت کریگا وہ ایک عذاب میں ہی مبتلا ہوگااورچار سالہ گند کاملبہ بھی اس کے سر تھوپ دیاجائے گا۔مسلم لیگ (ن) کے لیے بہتر یہی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی معیاد پوری کرے اوراپنی ساری نااہلیوں اور ناکامیوں کا حساب کتاب 2023 میں عوام کے سامنے رکھے۔عدم اعتماد کے تحریک سے اُسے کوئی فائدہ نہیںہونے والا۔ بلکہ اُلٹا نقصان ہی ہوگا۔

ویسے بھی حالات کسی طرح بھی تحریک عدم اعتماد کے فیور میں نہیں ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعتیں ابھی تک حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہیں۔کسی نے بھی اپوزیشن کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین نہیں دلایا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کا مؤقف بھی دوٹوک اور واضح نہیں ہے۔

عین موقع پر جہانگیر ترین کا لندن چلے جانے اپنے آپ کو اس معاملے سے الگ تھلگ رکھنے کی دانشمندانہ حکمت عملی قرار دی جاسکتی ہے۔ وہ عمران خان کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیںاور اپوزیشن کو بھی انکار کرکے مایوس کرنا نہیں چاہتے۔دوسری جانب چوہدری برادران بھی اپنی اس بارگیننگ پوزیشن کو خوب انجوائے کررہے ہیں،وہ حکومت کے ساتھ بھی کھڑے ہیں اوراس سے اپنے مطالبات بھی منواتے جارہے ہیںاورساتھ ہی ساتھ اپوزیشن سے بھی روابط جوڑے ہوئے ہیں۔

پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ جہاں چار سال گزار لیے ہیں، اگلا ایک سال بھی گذار لیاجائے ۔ عمران خان صاحب کو قبل ازوقت معزول کرکے سیاسی شہید کا اعزاز دلوانے سے بہتر ہے انھیں 2023 ء میں عوام کی عدالت کے روبرو پیش ہونے دیاجائے ۔عوام اگر اُن کی کارکردگی سے مطمئن ہوئے تو دوبار ہ منتخب کرلیں گے اور اگر مطمئن نہ ہوئے تو رد کردینگے ۔

مروجہ جمہوری طریقہ بھی یہی ہے۔ بلاوجہ چھوٹی جماعتوں سے مدد مانگنے اوراُن کے ناجائز مطالبات کو مان کر خود کو مشکل میں پھنسانے سے بہتر ہے کہ حالات کو ان کے اپنے رحم وکرم پرچھوڑدیاجائے ۔ہاں البتہ خون کو گرم رکھنے کے لیے چھوٹی موٹی سرگرمیاں ضرور کرتے رہیں۔کبھی لانگ مارچ اورکبھی کوئی جلسہ و جلوس۔ اس سے زیادہ کی صلاحیت کا متحمل ہونا کبھی کبھار ملک وقوم کے لیے نقصان دہ ہواکرتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔