شہداد کوٹ گندگی کا شاہ کار

دیدار سومرو  جمعـء 21 فروری 2014
 منشیات فروشی، جرائم اور سودی کاروبار کی جنت۔ فوٹو : فائل

منشیات فروشی، جرائم اور سودی کاروبار کی جنت۔ فوٹو : فائل

سیاسی اہمیت کا حامل شہداد کوٹ، جہاں سیاسی طور پر لا وارث اور اس کے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، وہیں دیگر اخلاقی و سماجی برائیوں کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں۔

میونسپل کمیٹی جو کسی دور میں فعال ادارہ تھا اس وقت لوگوں کے لیے سوہان روح ہے۔ پورا شہر گندگی کا شاہکار بن گیا ہے، راستوں پر نالیوں اور گٹروں کا گندا اور بد بودار پانی کھڑا ہے، جس کی وجہ سے جہاں لوگ آمد و رفت میں تکالیف میں مبتلا ہیں، وہیں اس کی وجہ سے کئی وبائی بیماریوں نے جنم لے کر شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ لیکن حکم ران، منتخب نمایندے اور متعلقہ انتظامیہ اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ جس کی وجہ سے یہ مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ صحت و صفائی کے ادارے کرپشن کا گڑھ بن گئے ہیں، افسران اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ترقیاتی فنڈز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے میونسپل کمیٹی نے ایک روپے کا ترقیاتی کام کرانا تو در کنار، راستوں اور گلیوں سے گندگی کے ڈھیر اٹھانا بھی گوارا نہیں کیا۔ لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

شہریوں کے لیے دوسری اذیت جواری، منشیات فروش اور سود خور ہیں۔ جس کی وجہ سے شہری نہ صرف پریشان، بلکہ کئی کنگال ہو کر روپوشی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اب تو سود خوروں کی جانب سے تنگ کیے جانے کی وجہ سے پریشان حال لوگوں نے خودکشیاں بھی شروع کردی ہیں۔ شہداد کوٹ اے سیکشن تھانے کی حدود اکبر شاہ محلے کے 30 سالہ نوجوان خادم حسین کارڑو نے گزشتہ دنوں زہریلی دوا پی کر خودکشی کرلی۔ تفصیلات کے مطابق اس نوجوان سے ایک سود خور نے اپنی رقم سود سمیت لوٹانے کا تقاضا کیا اور نہ دینے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ خادم حسین گھر کا واحد کفیل تھا، اس کے اقدام سے معصوم بچے یتیم اور بے سہارا ہوگئے۔ متوفی کے بارے میں ان کے قریبی دوستوں اور رشتے داروں نے بتایاکہ وہ مقامی پٹرول پمپ پر ملازم تھا اور بہت ہی خوش اخلاق اور ملن سار نوجوان تھا، تاہم کسی مجبوری کے تحت سود خوروں کے جال میں پھنس گیا، چند ہزار روپے قرض کی رقم پر لاکھوں روپے کا سود چڑھ گیا تھا، جو وہ ادا نہ کرسکا اور خود کشی کرلی۔ یہ تو ایک واقعہ ہے جو لوگوں اور میڈیا کے سامنے آیا، تاہم بے شمار ایسے واقعات ہیں نظروں سے اوجھل ہیں۔

ایکسپریس سروے کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں شہداد کوٹ میں سود پر رقوم فراہم کرنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ یہاں سود کی کئی قسمیں ہیں اور سود خور انہیں میٹر، کمیشن اور ندرانہ کا نام دیتے ہیں۔ سود خور پریشان حال اور مجبور لوگوں کو سود پر نقد رقوم دینے کے ساتھ کاریں، موٹر سائیکلیں اور دیگر چیزیں کئی گنا زیادہ قیمت پر دیتے ہیں اور ان کی جگہیں اور دکانیں گروی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث اکثر لوگوں پر سود پر سود چڑھتا جاتاہے اور نتیجتاً لوگ اپنی ملکیت سے ہاتھ دھو کر در بدر اور کنگال ہو جاتے ہیں، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بعض تو اپنی بیٹیوں کو فروخت بھی کردیتے ہیں۔

سود خوروں میں سے بعض نے شرافت کے نقاب اوڑھے رکھے ہیں اور کئی نے میڈیا جیسے طاقت ور شعبے کا سہارا لیا ہوا ہے۔ ایسے کاروبار والے بالخصوص پولیس کی بھی بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ نئے پولیس افسران کا استقبال نوٹوں کے ہار پہنا کر کرتے ہیں، جب کہ ان کے بنگلے میں بھی آرائش و ضرویات کی تمام چیزیں بروقت پہنچا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے سود کی رقم کبھی نہیں ڈوبتی۔ اگر کوئی سود کی رقم نہیں دیتا، تو پولیس نمک حلالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مجبور اور لاچار شخص کو قانون کی لاٹھی سے سود کی رقم ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی طرح جوا اور منشیات بھی ناسور کی صورت اختیار کرچکی ہے۔

جہاں لوگ دو اطرف سے لٹتے ہیں۔ ایک طرف جوا میں رقوم ہارتے ہیں تو دوسری جانب مزید کھیلنے کے لیے وہاں موجود سود خوروں سے سود پر رقم لیتے ہیں۔ حال ہی میں ایس ایس پی قمبر شہداد کوٹ کا عہدہ سنبھالنے والے ملک ظفر اقبال نے پورے ضلع کے افسران کو جوا اور منشیات کے اڈے ختم کرنے کی سختی سے ہدایات جاری کیں۔ ان کے احکامات کی روشنی میں شہداد کوٹ پولیس نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گنجان آباد علاقے لنگاہ مارکیٹ سے متصل جوئے کے اڈے پر چھاپہ مار کر اڈے کے مالک سمیت 23 قمار بازوں کو گرفتار کرلیا، لیکن لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب ان سود خوروں کے کہنے پر اڈے کے مالک سمیت 3 افراد کو چھوڑ کر 19قمار بازوں کے خلاف جوا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اڈہ گنجان آباد علاقے میں چل رہا تھا لیکن ایف آئی آر میں اس علاقے کے بجائے مقامی قبرستان سے متصل سنسان علاقہ دکھایا گیا۔ اس کے متعلق جب پولیس سے استفسار کیا گیا تو ڈیوٹی پر موجود ہیڈ محرر کا کہنا تھا کہ اگر جہاں چھاپہ مارا گیا تھا اگر وہ اڈہ دکھاتے تو پولیس کے ساتھ مجسٹریٹ کا ہونا ضروری تھا۔ پولیس کے اس اقدام سے لگ رہا ہے کہ وہ ایس ایس پی کے دباؤ پر صرف خانہ پوری کر رہی ہے۔ اسی طرح منشیات کے اڈے اور کاروبار بھی جاری ہے۔ شہداد کوٹ کے عوام نے توقع ظاہر کی ہے کہ نئے آنے والے ایس ایس پی ملک ظفر اقبال خاص طور پر ایسی معاشرتی برائیوں کے سخت خلاف ہیں اور وہ کسی صورت میں بھی منشیات، جوا اور سود کے کاروبار اور اڈوں کو چلنے نہیں دیں گے۔

کیوں کہ یہی برائیاں کئی جرائم کو جنم دیتی ہیں۔ جب ایس ایس پی قمبر شہداد کوٹ ملک ظفر اقبال سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ضلع میں امن و امان کی بحالی، جرائم، منشیات، جوا اور دیگر برائیوں کا خاتمہ اولین ترجیح ہے اور جس علاقے میں بھی جرائم، منشیات اور جوا کے اڈے پائے گئے وہاں کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آئے ہوئے دو ہفتے ہوئے ہیں لیکن اس دوران جرائم پیشہ افراد، منشیات فروشوں اور جوئے کے اڈوں کے خلاف جاری آپریشن میں بڑی کامیابی ہوئی ہے۔

انھوں نے کہاکہ یہ برائیاں معاشرے میں سرطان کی طرح پھیل گئی ہیں۔ اگر ہم انہیں سو فیصد ختم نہ بھی کرسکے تو لوگوں کو بڑی حد تک ان سے نجات دلائیں گے، پولیس اپنا کردار ادا کرے گی تاہم سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ محکمہ سے کالی بھیڑوں کے اخراج کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں اور مختلف ذرائع سے معلومات جمع کی جارہی ہے اگر کوئی پولیس آفیسر یا اہلکار بالواسطہ یا بلا واسطہ ان جرائم میں ملوث پایا گیا یا جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کی تو نہ صرف وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔