روئیے اور بیانات

محمد سعید آرائیں  پير 11 اپريل 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد 174ووٹوں سے کامیاب ہو گئی اور تحریک انصاف کی حکومت تین سال اور سات ماہ بعد میدان سے باہر ہو گئی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے رویے، بیانات اور الفاظ نے ہمیں حکومت سے دور کیا اور معاملات اس انتہا پر پہنچا دیے گئے کہ فریقین واپس نہیں آسکتے تھے ۔ یہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ سڑکوں پر لے آئے جب کہ معاملہ قومی اسمبلی میں نمبر گیم کا تھا۔ پارلیمنٹ کی لڑائی باہر آنے سے عوام کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔

خالد مگسی کا موقف درست تھا اور حکومتی رویے کی وجہ سے ملک بھر میں سیاسی انتشار بڑھا اور اسلام آباد میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی اور حکومت نے اس اہم مسئلے کو پہلے کرپشن بچانے، این آر او نہ دینے اور بعد میں مذہبی کارڈ کا رنگ دے کر تحریک عدم اعتماد کا مسئلہ سنگین کر دیا، جب اپوزیشن نے متحد ہو کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان کیا تو وفاقی وزیروں نے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا اور بیانات داغنے شروع کر دیے کہ اپوزیشن گیدڑ بھبکیاں دے رہی ہے اس میں جرأت ہے تو ایوان میں تحریک عدم اعتماد پیش کرکے دکھائے۔

لگتا تھا کہ اپوزیشن سے زیادہ فکر وزیروں کو ہے اور وہ اشتعال دلاتے رہے کہ اپوزیشن دیر کیوں کر رہی ہے اور آخر اپنے منصوبے کے تحت اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کردی تو وزیروں نے اسے غیر ملکی سازش قرار دینا شروع کردیا جب کہ یہ آئین کے عین مطابق تھی اور عمران خان اتنی بڑی عالمی سیاسی شخصیت نہیں تھے کہ امریکا اور یورپ کو ان کے خلاف سازش کرنا پڑتی۔ عالمی سطح پر وزیر اعظم عمران خان کی اہمیت یہ تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نے ان کا فون سننا گوارا کیا نہ امریکی صدر جوبائیڈن نے انھیں فون کیا۔ فون کرنے نہ کرنے کی باتیں باہر نہیں آنی چاہیے تھیں۔

یہ باتیں باہر آنے سے سابق وزیر اعظم  عمران خان کی ہی نہیں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ عمران خان اپنے بیانات کی وجہ سے ملک میں سیاسی تنقید کا شکار تھے اور ملک کی اپوزیشن ان پر الزامات لگاتی رہی۔ جس ملک کا وزیر اعظم اپوزیشن سے دور رہتا ہو اور اسے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہ کرے وہ سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت کرانے کی بات کو ملک سے باہر کون سنجیدہ لیتا ؟

نئے امریکی صدر کے آنے کے بعد عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان سے امریکا نے اڈے مانگے مگر میں نے انھیں ایبسلیوٹلی ناٹ کہہ دیا جب کہ وفاقی مشیر معید یوسف کہتے رہے کہ امریکا نے اڈے مانگے ہی نہیں مگر عمران خان اور وزرا ڈٹے رہے اور 27 مارچ کے جلسے میں وزیروں نے پھر کہہ دیا کہ وزیر اعظم کو ایبسلیوٹلی ناٹ کہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد حکومتی سطح سے غیر سنجیدہ بیانات آنا شروع ہوگئے تھے۔ اس موقع پر وزیروں کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے تھا مگر جذباتی بیانات شروع ہوگئے۔

کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن اتحادیوں سے کھلے عام اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان سے خفیہ طور ملی تو وزیروں نے (ق) لیگ پر الزام لگادیا کہ دس صوبائی نشستوں پر (ق) لیگ وزارت اعلیٰ پنجاب کا عہدہ مانگ رہی ہے۔ وفاقی وزیروں ہی نے نہیں بلکہ خود وزیر اعظم کے بیانات ایسے تند تھے کہ انھیں وہ کچھ کرنا پڑا جو وہ نہیں چاہتے تھے۔ پرویز الٰہی کو انھوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی بنایا اور پھر انھیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کی باتیں سامنے آنے لگیں جن کے پاس صرف 10 صوبائی نشستیں تھیں۔

وفاقی وزیروں نے ساڑھے تین سال اور خصوصاً تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں غیر ذمے دارانہ بیانات دیے۔ وفاقی وزرا دس نشستوں والی (ق) لیگ پر طنز کرتے رہے اور عثمان بزدار کو ہٹا کر پرویز الٰہی کی نئی نامزدگی کی باتیں بھی کرتے رہے۔

ساڑھے تین سالوں کے حکومتی رویے، وفاقی وزیروں کے غیر سنجیدہ بیانات نے اپنے ہی وزیر اعظم کو مشکل میں ڈالے رکھا اور جو یقین دہانیاں وزیر اعظم کی طرف سے ہونی تھیں وہ وزیروں نے کرائیں تو وزیر اعظم کی پوزیشن متاثر ہوئی۔

کہتے ہیں ہتھیار سے لگا زخم بھر جاتا ہے زبان سے لگا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ سابق وزیر اعظم ماضی میں جو کچھ کہتے رہے انھیں اس کا الٹ کرنا پڑا۔ عثمان بزدار کو رکھنے پر بھی عمران خان پر تنقید ہوئی اور ہٹانے پر بھی تنقید کا سامنا رہا۔ اگر پہلے ہی محتاط رویہ اختیار کر لیا جاتا تو حکومت کو موجودہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ اتحادیوں سے شکایات ملتیں۔ سیاست میں یہ کہنا درست ہے کہ بولنے سے پہلے تولو پھر بولو تاکہ کسی کی دل شکنی ہو نہ اپنے ہی الفاظ پر شرمندہ ہونا پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔