منحرف پی ٹی آئی اراکین پنجاب اسمبلی کی بازیابی کی درخواست پولیس رپورٹ عدالت میں جمع
کسی ایم پی اے کو اغوا کرنے کی شکایت موصول نہیں ہوئی، قائم مقام سی سی پی او
لاہور ہائیکورٹ نے درخواست پر کارروائی 18اپریل تک ملتوی کر دی۔
تحریک انصاف کے 24 منحرف اراکین اسمبلی کو بازیاب کروانے سے متعلق کیس میں قائم مقام سی سی پی او لاہور نے رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروا دی۔
جمع کروائی گئی رپورٹ میں قائم مقام سی سی پی او لاہور نے بتایا کہ پولیس کو کسی ایم پی اے کے اغوا یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی، جیسے ہی کسی ممبر صوبائی اسمبلی یا اسکی فیملی سمیت دیگر کی کوئی شکایت موصول ہوئی تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ایم پی ایز کو بذریعہ فون پوچھا گیا لیکن انہوں نے اغوا یا غیر قانونی حراست کی تردید کی، ایم پی اے عظمیٰ کاردار اور اعجاز آنگسٹن نے اغوا کی تردید کی اس لیے مزید ممبران صوبائی اسمبلی سے رابطے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس وحید خان نے صوبائی وزیر سبطین خان کی درخواست پر کارروائی 18اپریل تک ملتوی کر دی۔
صوبائی وزیر کی درخواست
واضح رہے کہ سبطین خان نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت سی سی پی او لاہور کو 24 صوبائی اسمبلی ممبران کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے تحریک انصاف کے ممبران کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، ممبران صوبائی اسمبلی کو اغوا کرتے سب نے دیکھا الیکٹرانک میڈیا پر بھی نجی یوٹل میں انکو دیکھایا گیا، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی اپنے گھروں کو جانے کے لیے اسمبلی کے احاطے سے نکلے تو انہیں اغوا کیا گیا۔
درخواستگزار کے مطبق 3 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی ممبران اکٹھے ہوئے لیکن صوبائی اسمبلی کا اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کر دیا گیا، حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے ان پر حملہ کیا گیا۔ 7 مارچ کو بیرونی سازش کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔
مؤقف اپنایا گیا کہ اغوا ہونے والوں میں سے کچھ پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر ہیں، ارکان صوبائی اسمبلی پنجاب کے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ اور مینڈیٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔
ایڈوکیٹ رانا مدثر نے مؤقف اپنایا تھا کہ تحریک انصاف ایم پی اے ہیں اور انہیں اپوزیشن لیڈر نے ہوٹل میں حراست میں لیا ہے اور میری درخواست ہے کہ یہ فوری نوعیت کا معاملہ ہے۔
جمع کروائی گئی رپورٹ میں قائم مقام سی سی پی او لاہور نے بتایا کہ پولیس کو کسی ایم پی اے کے اغوا یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی، جیسے ہی کسی ممبر صوبائی اسمبلی یا اسکی فیملی سمیت دیگر کی کوئی شکایت موصول ہوئی تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ایم پی ایز کو بذریعہ فون پوچھا گیا لیکن انہوں نے اغوا یا غیر قانونی حراست کی تردید کی، ایم پی اے عظمیٰ کاردار اور اعجاز آنگسٹن نے اغوا کی تردید کی اس لیے مزید ممبران صوبائی اسمبلی سے رابطے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس وحید خان نے صوبائی وزیر سبطین خان کی درخواست پر کارروائی 18اپریل تک ملتوی کر دی۔
صوبائی وزیر کی درخواست
واضح رہے کہ سبطین خان نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت سی سی پی او لاہور کو 24 صوبائی اسمبلی ممبران کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے تحریک انصاف کے ممبران کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، ممبران صوبائی اسمبلی کو اغوا کرتے سب نے دیکھا الیکٹرانک میڈیا پر بھی نجی یوٹل میں انکو دیکھایا گیا، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی اپنے گھروں کو جانے کے لیے اسمبلی کے احاطے سے نکلے تو انہیں اغوا کیا گیا۔
درخواستگزار کے مطبق 3 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی ممبران اکٹھے ہوئے لیکن صوبائی اسمبلی کا اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کر دیا گیا، حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے ان پر حملہ کیا گیا۔ 7 مارچ کو بیرونی سازش کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔
مؤقف اپنایا گیا کہ اغوا ہونے والوں میں سے کچھ پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر ہیں، ارکان صوبائی اسمبلی پنجاب کے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ اور مینڈیٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔
ایڈوکیٹ رانا مدثر نے مؤقف اپنایا تھا کہ تحریک انصاف ایم پی اے ہیں اور انہیں اپوزیشن لیڈر نے ہوٹل میں حراست میں لیا ہے اور میری درخواست ہے کہ یہ فوری نوعیت کا معاملہ ہے۔