’’ وفاقی محتسب ہی غریبوں کا واحد آسرا ہے ‘‘

پاکستان میں سرکاری اداروں کے بارے میں شکایت کرنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان سرکاری اداروں سے متعلق شکایات کا ازالہ فوری اور نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔

اس کے لئے وفاقی محتسب اور صوبائی محتسب جیسے ادارے موجود ہیں لیکن شعور نہ ہونے کے باعث ، کم ہی لوگ ان اداروں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔جو دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ، انھیں فوری انصاف ملتا ہے۔

مثلاً وفاقی محتسب کے احکامات پر اکا د می ادبیا ت پا کستان کے 63 ریٹا ئرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کی گئی۔ پا ک پی ڈبلیو ڈی کو دوران ملا زمت وفات پا نے والے ملا زم کی بیوہ کو وزیر اعظم پیکج کے تحت 55 لا کھ روپے کی رقم ادا کرنا پڑی۔ لودھراں کے ایک گا ؤں کو بجلی فرا ہم کر نے میں تا خیر پر MEPCO کے خلا ف نو ٹس لیتے ہوئے45 دن میں پو رے گا ؤ ں کو بجلی فرا ہم کرا ئی گئی۔ ایف بی آر نے شکا یت گزار کمپنی کے ما لک کو وفا قی محتسب کی مد اخلت پر ٹھیکے کے بقا یا پو نے چھ کروڑ سے زائد رقم ادا کی۔ پا کستان پوسٹ سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو88 لا کھ روپے کے بقا یا جات ادا کرائے گئے۔

نیب سے ایک فرم کے ما لک کو چھ سال پرا نی سا ڑ ھے 14 لا کھ کی ادا ئیگی کرا ئی گئی۔ این ٹی ڈی سی نے ایک پرا جیکٹ کے تحت جام شو رو سے رحیم یا ر خان تک ہا ئی ٹینشن لا ئن نصب کی تھی جس سے متا ثر ہو نے والی فصلوں کے ما لکان کو گز شتہ تین سال سے ادائیگی میں تا خیر کی جا رہی تھی۔ وفاقی محتسب کی مداخلت پر 60 زمین ما لکان کو متعلقہ محکمے کی طرف سے فصلوں کا معاوضہ ادا ہوا۔

وفاقی محتسب میں ایسی تمام وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں سے متعلق شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں جو وفاقی ہوں جبکہ صوبائی محتسب میں صوبائی وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں سے متعلق شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔یہ ادارے سائل یا شکایت کنندہ کی توقع سے بھی بہت کم عرصہ میں انصاف دلاتے ہیں۔

وفاقی محتسب کا ادارہ اسلا م آباد میں 1983 ء سے کام کر رہا ہے جب کہ چا روں صو بوں اور مختلف شہروں میں قا ئم کئے گئے اس کے 13 علاقائی دفا تر بھی جلد انصا ف فرا ہم کر نے اور و فاقی حکو مت کے دو سو سے زائد اداروں کی بدانتظا می ، نااہلی اور کاہلی کے سبب عام افراد سے ہو نے والی ناانصافیوں کے خلا ف شکایات کا ازالہ کر نے میں شب وروز کو شاں ہیں۔ اسے ایشیا ء میں پہلا ادارہ ہو نے کا اعزاز بھی حا صل ہے۔

یہاں وکیل کی ضرورت ہوتی ہے نہ فیس کی ، نہ ہی کسی اور نو عیت کے اخراجات کی۔ شکایت کنندہ سادہ کا غذ پر بذ ریعہ ڈاک یا آن لائن درخواست دے،24 گھنٹوںکے اندر کارروائی شروع ہوگی اور زیادہ سے زیا دہ 60 دن کے اندر ہر شکا یت کا فیصلہ کر دیا جا تا ہے۔

ان دنوں وفاقی محتسب جناب اعجاز احمد قریشی ہیں۔ وہ چیف سیکرٹری سندھ اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کے علاوہ سیکرٹری ریلوے ، سیکرٹری ماحولیات سمیت اہم مناصب پر فائز رہ کر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ موجودہ عہدہ پر متمکن ہونے سے پہلے جناب اعجاز احمد قریشی وفاقی محتسب کے سیکرٹریٹ میں سینئر ایڈوائزر اور قومی کمشنر برائے اطفال کے طور پر بھی کام کر رہے تھے۔

سن 2005ء کے زلزلہ کے دوران میں بطور چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا غیرمعمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ، جس پر انھیں ’’ تمغہ ایثار ‘‘ سے نوازا گیا۔ عدالتی اور انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔اسی طرح وہ کینیڈا میں ٹریڈ کمشنر اوراقوام متحدہ کے ادارے ’ انٹرنیشنل ایوی ایشن آرگنائزیشن ‘ میں پاکستان کے نمائندے کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔

وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں پہلے سینئر ایڈوائزر کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ وفاقی محتسب کے فیصلوں کے معیار اور قانونی حیثیت کا جائزہ (Appraisal) لینے والی ٹیم کے سربراہ بھی رہے۔

جس کے نتیجے میں وفاقی محتسب کے فیصلوں کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کرنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہوگئی۔سپریم کورٹ کی ہدایت پر سرکاری اداروں کے نظام کی اصلاح کے لئے وفاقی محتسب کی 27 سے زیادہ مطالعاتی رپورٹوں کی تیاری میں بھی سرگرم کردار ادا کیا جن میں جیلوں کی اصلاح ، تھانوں کی اصلاح ، تعلیم ، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، پنشن ، نیشنل سیونگز اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے رپورٹیں قابل ذکر ہیں۔

وفاقی اور صوبائی اداروں میں اپنے وسیع تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے جناب اعجاز احمد قریشی نے وفاقی محتسب کو تمام معاملات جیسے ایڈوائزرز کا میرٹ پر انتخاب ، ان کی کارکردگی کا جائزہ ، شفافیت اور وفاقی محتسب کو صحیح معنوں میں غریبوں کی عدالت بنانے جیسے امور میں قابل قدر معاونت فراہم کی۔

جناب اعجاز احمد قریشی کہہ رہے تھے :

’’ جب میں وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں آیا تو پتہ چلا کہ یہاں تو غریبوں کے لئے بہت کام ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی ادارہ غریبوں کے لئے ایک آسرا ہے۔ ان کے کیسز ہوتے ہیں، وہ عدالتوں میں جاسکتے ہیں نہ وکیل کرسکتے ہیں ، کیونکہ وہ پیسے خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ فاروقی صاحب اور طاہر شہباز صاحب نے اس سیکرٹریٹ کو مزید وسیع کیا، اس سے پہلے اس وفاقی محتسب سے رجوع کرنے والوں کی تعداد تقریباً20 ہزار ہوتی تھی لیکن پھر یہ اچانک 60 ہزار تک پہنچ گئی۔ یہاں افسری نہیں ہوتی ، کام ہوتا ہے۔

ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح سے غریبوں کی امداد کی جائے۔ یہاں تو سارے غریب اور مستحق لوگ آتے ہیں۔ کوئی سیاسی دباؤ ہوتا ہے نہ ہی ٹھیکے ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد ادارہ ہے کہ جس کے بارے میں کوئی سکینڈل نہیں ہے۔ اس میں غریبوں کی براہ راست مدد ہوتی ہے۔ شکایت کنندہ کی بات سنی، متعلقہ ایجنسی یعنی محکمے کو بلایا ، ان کی بات سنی، قواعد و ضوابط دیکھے ، اور فیصلہ دیدیا۔‘‘

٭ وفاقی محتسب میں کیسے فوری اور مفت انصاف ملتا ہے؟

’’ بس! شکایت کنندہ کسی بھی طریقے سے وفاقی محتسب کو شکایت کردے۔ہیلپ لائن موجود ہے، ٹیلی فون، آن لائن سسٹم بھی موجود ہے، ہماری ایک ایپلیکیشن موجود ہے۔ خط کی صورت میں شکایت کردیں ، ای میل بھیج دیں۔ جونہی ہمیں شکایت موصول ہوتی ہے ، ہمارا رجسٹرار آفس اسے چیک کرتا ہے ۔

اگرسروس اور پرائیویٹ معاملہ ہے یا امور خارجہ اور دفاع کے محکمے سے متعلق شکایت ہو تو ہم اسے نہیں لیتے ۔ اس کے علاوہ سارے کے سارے کیسز ہمارے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، 200کے قریب وفاقی محکمے ہیں۔ ان سے متعلق شکایت کو فوراً قبول کیا جاتا ہے، اور شکایت کنندہ کو شکایت درج ہونے کی اطلاع 24سے 48گھنٹوں کے دوران میں ایس ایم ایس کے ذریعے ہوجاتی ہے۔

پھر یہ شکایت ہمارے ایک ایڈوائزر کے پاس چلی جاتی ہے۔ وہ اگلے دو روز میں شکایت کے ساتھ ایک خط لکھ کر متعلقہ ایجنسی/ محکمہ کو بھیج دیتا ہے اور سات سے دس دن کے اندر جواب طلب کرتا ہے۔

دور دراز کا علاقہ ہو تو مزید کچھ وقت دے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایڈوائزر ایک تاریخ طے کرکے کیس کی سماعت کرتا ہے۔ ہمارے ایڈوائزرز گریڈ 21 یا 22 کے افسر ہوتے ہیں، وہ ریٹائرڈ ججز ہوتے ہیں ، انھیں قانون اور ضابطوں کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ وہ ایجنسی سے پوچھتے ہیں کہ آپ یہ کام کیوں نہیں کررہے؟ ہمیں اپنے قواعد و ضوابط دکھائیں اور پھر نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ فریقین کی بات سن کر فیصلہ دیدیتے ہیں۔

ایڈوائزر فیصلہ لکھتا ہے اور محتسب کو بھیج دیتا ہے۔ میرے ساتھ پانچ ، چھ سینئیر ایڈوائزر ہیں جو فیصلے کو قانونی ، اخلاقی ہر زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ فیصلے کو ایک ہفتہ تک اپنے پاس رکھتے ہیں ، پھر مجھے بھیج دیتے ہیں اور میں دستخط کرتا ہوں۔ جب تک اس فیصلے پر محتسب دستخط نہیںکرتا ، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ محتسب کے پاس بہت زیادہ کیسز ہوتے ہیں۔ مجھے ایک روز میں500 کیسز دیکھنے ہوتے ہیں۔‘‘

٭محتسب کے فیصلوں پر عمل درآمد

’’ ہر سال فیصلوں پر عمل درآمدکی شرح92 فیصد سے 96 فیصد تک رہتی ہے۔ 60 سے 70 فیصد کیسز ثالثی کے انداز میں حل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک فرد کہتا ہے کہ اس کا ہر ماہ پانچ یا چھ ہزار روپے بل آتا ہے۔کوارٹر میں رہتا ہے، جہاں ایک پنکھا، دو یا چار بلب ہیں ۔ یک دم 60 ہزار روپے کا بل بھیج دیاگیا، وہ کہاں سے ادا کرے؟ اس کی تین مہینے کی تنخواہ صرف اس ایک بل کی ادائیگی میں چلی جائے گی۔

ہم چیک کرتے ہیں ، محکمے سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیںکہ غلطی ہوگئی، ہم اسے درست کردیتے ہیں اور جو پچھلے سال سے اوسط آرہی ہے، اسی کے مطابق بل بھیج دیتے ہیں۔ دونوں فریق محتسب کے سامنے مان گئے تو عمل درآمد ہوجاتا ہے۔

عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں محتسب کے پاس ہر قسم کا اختیار ہوتا ہے، سول کورٹ والی پاور بھی اور سپریم کورٹ کے جج والی بھی۔ ہم محکمے کے افسر کو توہین کا مرتکب بھی قرار دے سکتے ہیں ، اس کی تنخواہ روکنے کا حکم دے سکتے ہیں لیکن عموماً ایسا نہیں کرتے۔ ہم ڈائریکٹر ، ڈی جی یا سیکرٹری کو شوکاز نوٹس بھیجتے ہیں، اسے بتادیتے ہیں کہ یہ شوکاز نوٹس آپ کے ریکارڈ میں لگ جائے گا۔

ہم صدر کو بھی بھیج دیں گے کہ وہ تمھارے خلاف انکوائری شروع کروائیں۔ ہاں ! اگر اس فیصلے کے خلاف صدر مملکت کے پاس اپیل کرنی ہے تو ٹھیک ورنہ اس پر عمل درآمد کرو ۔ صدر مملکت کے پاس ایک فیصد سے بھی کم اپیلیں جاتی ہیں۔ 90 فیصد اپیلوں میں ہمارے فیصلے برقرار رہتے ہیں ۔ محکمے کے افسر کو ڈر ہوتا ہے کہ عمل درآمد نہ کیا تو شوکاز نوٹس اس کے ریکارڈ میں شامل ہوجائے گا ، اس کے خلاف انکوائری شروع ہوسکتی ہے، تنخواہ رک سکتی ہے ۔ ایک سرکاری ملازم کے لئے یہی کافی ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ چار ، پانچ فیصد کیسز کیسے ہوتے ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ مثلاً کسی کی زمین کا مسئلہ ہے۔ اسی علاقے میں مزید ایسے ہی لوگوں کے کیسز ہوتے ہیں ، وہ عدالت چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پھر کوئی محکمہ اس میں کچھ نہیں کرسکتا ۔ ہمارا قانون ہے کہ کوئی پارٹی عدالت چلی جائے تو آپ اپنی کارروائی روک دیں، ایسا نہ ہو کہ آپ ایک فیصلہ کریں اور عدالت دوسرا فیصلہ کرے ۔

زمین بڑی قیمتی ہوتی ہے، کروڑوں روپوں مالیت کی بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر اکثر لوگ وکیل کرکے ہائی کورٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے کیسز بہ امر مجبوری التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بصورت دیگر ہم عمل درآمد کروالیتے ہیںکیونکہ عمل درآمد کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ قانون انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے نہ ہی پالیسی اور قواعد و ضوابط ۔ اگر کسی کیس کا معاملہ پالیسی سے متعلق ہوتا ہے تو ہم اس میں مداخلت نہیں کرتے۔ مثلاً کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ بیلٹنگ یا ’ پہلے آئیے ، پہلے پائیے ‘ کی بنیاد پر ملنا ہو، اس میں ہم مداخلت نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ جس طرح باقی لوگوں کو پلاٹ دے رہے ہو ، ویسے اس بندے کو بھی دو۔ وہاں سکروٹنی بورڈز بنے ہوتے ہیں مثلاً سی ڈی اے وغیرہ کا بھی بورڈ ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس بندے کا مسئلہ بھی سکروٹنی بورڈ میں حل کرو۔ ایسے کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ‘‘

٭محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل

’’ سن 2013ء میں ہم نے اپنے قانون میں ترمیم کی ، جس کے مطابق اب شکایت کنندہ یا محکمہ ہمارے فیصلے کے خلاف محتسب کے سامنے نظرثانی کی اپیل کرسکتا ہے۔ اس کے بعد محتسب دوسرے سینئر ایڈوائزر کے ذریعے اس کیس پر نظرثانی کرواتا ہے ۔

وہ دیکھتا ہے کہ فیصلے میں کوئی غلطی ہے یا نہیں۔ نظر ثانی کے بعد جو بھی فیصلہ آئے ، شکایت کنندہ یا محکمہ ، اس فیصلے کے خلاف صدر ملکت کے سامنے اپیل کرسکتا ہے۔ صدر مملکت بھی تین ، چار ماہ میں فیصلہ کرتے ہیں۔ پہلے اپیل کا فیصلہ ہونے میں سال بھی لگ جاتا ہے۔

تاہم قانون میں ترمیم کے بعد صدر مملکت کے ہاں ایک قانونی مشیر مقرر ہوا جو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے برابر ہوتا ہے۔ وہ ان اپیلوں کو دیکھتا ہے، اپنی سفارش کے ساتھ صدر مملکت کو بھیج دیتا ہے ۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد فیصلہ جاری ہوجاتا ہے۔‘‘

٭زیادہ تر کن اداروں کے خلاف کیس آتے ہیں؟

سب سے زیادہ شکایات بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف آتی ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ان کے صارفین زیادہ ہیں۔ بجلی لاکھوں ، کروڑوں گھروں میں گئی ہوئی ہے۔ ان کا نظام بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے، میٹر ریڈنگ کا نظام ٹھیک نہیں۔ چوری بھی ہوتی ہے۔ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بل ہی نہیں دیا جاتا۔ دوسرے نمبر پر زیادہ شکایات سوئی گیس کے خلاف ہوتی ہیں۔ تیسرے نمبر پر ’ احساس پروگرام ‘ کے خلاف ۔ اس کے بعد پوسٹل کا محکمہ ۔ اس میں دو قسم کے مسئلے ہوتے ہیں۔کچھ مسئلے تو ڈاک سے متعلقہ ہوتے ہیں اور کچھ لائف انشورنس پالیسی کے بارے میں۔ ’ نادرا ‘ کے خلاف بھی شکایات آتی ہیں۔

اس کا نظام بھی کافی پھیل گیا ہے۔ کروڑوں لوگ اس سے متعلق ہیں۔ مثلاً فیملی ٹری میں کسی دوسرے کو شامل کردیا گیا ہے یا کسی کو شامل نہیں کیا گیا ۔ باقی وزارتوں اور حکومتی شعبہ جات ، کارپوریشنز مثلاً پی آئی اے کے خلاف بھی کیسز آتے ہیں۔

کے الیٹرک کے خلاف، پی ٹی سی ایل کے خلاف بھی ۔ پہلے اُن اداروں پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا تھا جن کی نجکاری ہوچکی ہو۔2013کے ترمیمی قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ادارے میں حکومت کا ایک فیصد بھی شئیر ہے تو محتسب اس سے متعلقہ شکایات سن سکتا ہے۔ کے الیکٹرک اور پی ٹی سی ایل اداروں میں کم ازکم 25 فیصد شئیر حکومت کے ہیں۔ اسی طرح ان اداروں کے خلاف شکایات سنتے ہیں جن کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔‘‘

٭ وفاقی محتسب ازخود نوٹس بھی لیتے ہیں؟

’’ ہم سوموٹو نوٹس بھی لیتے ہیں۔ ماضی میں جو از خود نوٹس لئے گئے، ان میں سے دو کی مثال دیتا ہوں۔ اسلام آباد میں ایک سرجن تھے، انھیں دن دیہاڑے گولی مار دی گئی۔ فوری طور پر پمز منتقل کیا گیا ، وہاں سہولیات نہ ہونے کے سبب پرائیویٹ ہسپتال میں لے جایا گیا۔ اس سارے چکر میں دو ، ڈھائی گھنٹے لگ گئے اور زخمی ڈاکٹر ہلاک ہوگیا ۔ اخبار میںخبر شائع ہوئی۔

اس وقت کے وفاقی محتسب نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے ہسپتالوںکا یہ حال ہے تو باقی کا کیا عالم ہوگا ؟ چنانچہ انھوں نے سوموٹو نوٹس لیا اور کہا کہ وہ پمز کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔

محتسب صاحب نے اس کام کے لئے دو ایڈوائزر مقرر کیے، سابق وفاقی سیکرٹریز صحت کو بھی شامل کیا ، پمز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو بھی شامل کیا گیا جو نیک نام تھے۔ آغا خان ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر فرحت عباس کو بھی شامل کیا گیا۔ سرجن جنرل جو فوج کے تمام ہسپتالوں کو کنٹرول کرتا ہے، اسے بھی شامل کیا گیا۔ دس ، بارہ افراد کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انھوں نے پمز کا دورہ کیا ، پیرامیڈیکس اور لوئرکلاس ملازمین کے ساتھ الگ سے میٹنگ کی، جونئیر ڈاکٹروں سے الگ ، سینئر ڈاکٹروں اور سرجنز سے الگ ، اسی طرح مینجمنٹ والوں سے بھی۔ سب کی بات سن کر اپنی ایک رپورٹ بنائی۔

پتہ چلا کہ ہسپتال نے محکمے سے بارہ یا اٹھارہ ڈاکٹروں کی ہائرنگ کی درخواست کر رکھی تھی۔ چنانچہ محتسب نے سب سے پہلے فنانس سیکرٹری سے کہہ کر ان کا التوا میں پڑا ہوا کیس کلئیر کروایا۔ غریب لوگوں کی ادویات کے لئے ہسپتال کا بجٹ کم تھا ، تین چار ماہ میں ختم ہوجاتا تھا ، اس میں اضافہ کروایا۔ اس کے بعد محتسب صاحب نے صدرمملکت کے ساتھ میٹنگ کی۔ رپورٹ پیش کی گئی، سب ممبرز وہاں موجود تھے۔

صدر مملکت نے ممبران کو خراج تحسین پیش کیا کہ یہ ساری خدمت بغیر پیسوں کے تھی۔ پھر صدر صاحب نے عمل درآمد کے لئے سفارشات وزارت صحت کو بھیج دیں۔ اگلے دوماہ میں اس پر مرحلہ وار عمل درآمد شروع کردیا گیا۔ پھر حکومت تبدیل ہوئی۔ نئی حکومت نے پمز کو بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی بنادیا۔ اب ایک نئی کھینچاتانی شروع ہوگئی، سٹرکچر پر تنازعہ شروع ہوگیا۔ ملازمین خفا ہوگئے۔ نتیجتاً سفارشات پر مکمل عمل نہ ہوسکا۔

دوسری مثال ، ’ نیشنل سیونگز ‘ میں ہزاروں، لاکھوں لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں۔ اس کے بدلے میں ان بے چاروں کو ماہانہ کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔ وہاں لوگوں کو کافی مسائل کا سامنا تھا۔ اس نے بنکوں کی طرح اپنے آپ کو جدید نہیں بنایا تھا۔ بس! رجسٹر وغیرہ ہی تھے۔ ہم نے اس کی سٹڈی کروائی۔

فنانس سیکرٹری جو نیشنل سیونگز کو کنٹرول کرتے تھے ، انھیں بھی اس میں بطور ممبر شامل کیا، فنانشل ایکسپرٹس کو بھی اور آڈیٹر جنرل کو بھی۔ آٹھ ، دس افراد کی ایک کمیٹی بنائی تاکہ اکاؤنٹس وغیرہ کا نظام ٹھیک ہو۔ کمیٹی نے دو تین ماہ اس پر محنت کی۔ ایک ایک چیز کا جائزہ لیا۔ اور پھر ایک رپورٹ بناکر دی۔

دوسری طرف اس ازخود نوٹس کا کیا اثر پڑا ؟ اس کا ڈی جی نہیں ہوتا تھا۔ حکومت نے ڈی جی کی پوسٹ کے لئے اشتہار دیدیا۔ ایک اچھا افسر ڈی جی بن گیا۔ جب ہم نے اسے بلایا تو اس نے کہا کہ آپ نے میرے لئے کام آسان کردیا ہے ورنہ مجھے پانچ چھ ماہ تک یہی بات سمجھنے میں لگ جاتے کہ یہاں مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ مجھے تو ایک ٹھوس چیز مل گئی ہے۔ اس نے کام شروع کیا ، پھر حکومت تبدیل ہوگئی۔

اس ڈی جی کو ایک بنک کے صدر بننے کی پیشکش ہوئی، وہ ادھر چلاگیا۔ یہ بندہ تھا ظفر مسعود ، وہ آدمی جو پی آئی اے کے اس طیارے کا مسافر تھا جو کراچی میں تباہ ہوا لیکن یہ اس میں زندہ بچ گیا۔ اب بھی ہم نیشنل سیونگز کا ہر دوسرے تیسرے مہینے جائزہ لیتے ہیں۔ہم نے انھیںکہا کہ آپ لوگوں کے اربوں روپے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ، آپ کو ایک جدید بنک کی طرح ہونا چاہیے۔ آن لائن نظام ہو تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ ایسا نظام بنادیا ہے کہ لوگوں کا منافع سیدھا ان کے بنک اکاؤنٹ میں منتقل ہوجائے گا، لوگ اے ٹی ایم سے پیسے نکال سکتے ہیں۔ اب اسے ڈیجٹلائز کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ ماڈرن بنکوں کی طرح اپنا کام کرے۔

پاکستان میں پنشنرز کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ پنشن کے حوالے سے بھی ہم نے چار پانچ سال پہلے ایک رپورٹ بنائی تھی ۔ اب ہمیں پنشنرز کی طرف سے شکایات آرہی تھیں۔ اس کے لئے ہم نے ایک میٹنگ کی ، سارے سٹیک ہولڈرز کو بلایا اور ان سے کہا کہ آپ نے ان سفارشات پر عمل کرنا ہے اور ہر دو ماہ بعد ہم جائزہ لیا کریں گے۔ اگر ہمیں نظر آیا کہ آپ اس پر کام نہیں کر رہے اور لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے تو ہم آپ کے خلاف ایکشن لیں گے۔ ہم نے انھیں جو سفارشات دیں ، وہ آپ ہماری ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں، آپ پڑھ سکتے ہیں۔

ہم نے ایسی ہی27 رپورٹس بنائیں۔ ان میں سے ایک مارگلہ کی پہاڑیوں پر لگنے والی آگ سے متعلق تھی۔ جو سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کا ہم پر اعتماد تھا ۔ انھوں نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے: ’ تعلیم سب کے لئے ‘ لیکن اس پر عمل نہیں ہورہا ، آپ ہمیں سٹڈی کرکے اور قابل عمل سفارشات فراہم کریں۔

ہماری ان رپورٹس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وہ لوگ بناتے ہیں جو پہلے ان سے متعلقہ شعبوں میں کام کرچکے ہیں۔کبھی ایسی سفارشات پیش نہیں کرتے جو ناقابل عمل ہوں۔ باہر سے آپ جو کنسلٹنٹس لیتے ہیں، وہ کروڑوں روپے لیتے ہیں، ایک خوبصورت سی رپورٹ بناکر دیتے ہیں لیکن اس میں موجود کئی چیزوں پر ہمارے حالات کے سبب عمل درآمد نہیں ہوسکتا مثلاً انفراسٹرکچر اور ہیومن ریسورسز کے مسائل ۔ چنانچہ ان رپورٹوں کا ہمیں فائدہ نہیں ہوتا۔

٭مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ بھڑکنے کے واقعات

اس معاملے میں بہت سے لوگ ذمہ دار تھے۔ کارپوریشن ، سی ڈی اے ، وائلڈ لائف بورڈ اور وزارت ماحولیات۔ سب کی اپنی اپنی ڈیوٹی تھی لیکن یہ مل کر کام نہیں کرتے تھے۔ یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے۔ ہم نے انھیں اکٹھے بٹھایا، بتایا کہ کیا کرنا چاہیے، ان کی کیا کیا ڈیوٹیز ہیں ۔ ہم نے انھیں ایس او پیز بنا کر دیے کہ آگ بھڑکنے کے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کرنے ہیں، پھر ہم نے اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیا ۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب حکومت بدلتی ہے تو سارا سٹرکچر ہی بدل دیتی ہے۔ جب آپ سٹرکچر ہی بدل دیں گے تو پھر عمل درآمد کے لئے ہم کس سے پوچھیں ۔ سٹرکچر بدلنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اندر جو چیزیں ہیں ، وہ تو وہی ہیں۔ میرٹ نہیں ہے، اقربا پروری ہے ، کرپشن ہے۔ آپ بوتلوں کے سائز بدلتے رہتے ہیں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ، لیکوڈ تو اندر پرانا ہی ہے۔ تاثیر تو اندر والی چیز نے دینی ہے۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

٭ آپ مزید کیا کرنا چاہتے ہیں؟

میرے پیش روئوں نے بہت کام کیا ہے۔ پہلے سال میں بیس ، بائیس ہزار شکایات ہوتی تھیں ، وہ پھر60 ہزار تک پہنچیں،گزشتہ برس ایک لاکھ دس ہزار تک پہنچ گئیں۔ اس وسعت میں دو ، تین عوامل کارفرما ہیں۔ اول: ہمارے ایڈوائزرز سب ڈویژن اور ضلع کی سطح پر جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو طویل مسافت طے نہ کرنی پڑے۔ ہم اسے’ آئوٹ ریچ پروگرام ‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ وہاں جاکر مہینے میں دو تین بار لوگوں کی شکایات سنتے ہیں۔

ساتھ ہی متعلقہ ایجنسی( محکمے کے لوگوں ) کو بلالیتے ہیں۔ کورونا میں ہم نے لوگوں سے کہا کہ وہ دفاتر میں نہ آئیں۔ ان دنوں عدالتیں اور دفاتربند تھے لیکن ہم نے بند نہیں کیا تھا ،ہمارے ہاں کام ہو رہا تھا ۔

ہم نے لوگوں کو آن لائن بلانا شروع کردیا۔ ہم ایک تاریخ طے کرتے تھے کہ فلاں دن آپ کے مسئلے کی سماعت ہے۔ ایڈوائزر اور متعلقہ محکمے ڈائریکٹر یا ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر میں بیٹھ جاتا تھا۔ اور شکایت کنندہ کو ویڈیو کال پر سن لیتے تھے۔ دونوں کی بات سن کر ایڈوائزر اپنا فیصلہ تیارکرتا تھا۔ نتیجتاً کورونا میں شکایات کی کمی واقع نہیں ہوئی۔

دور دراز جگہوں پر جہاں ہم نے دفاتر کھولے ، وہاں سے ہمیں بہت رسپانس آیا۔ ان دفاتر میں پہلے ہی مہینے میں سینکڑوںکی تعداد میں شکایات جمع ہوئیں۔ پھر ہم نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں جیسے سبی اور خضدار میں بھی شکایات دفتر بنائے۔

ہمیں محسوس ہوا کہ دوردراز علاقوں میں چھوٹے، چھوٹے دفاتر کھولنے کی ضرورت ہے ۔ ہم آزادکشمیر میں بھی دفاتر کھولنا چاہتے ہیں ، بلوچستان میں بھی اور قبائلی علاقوں میں بھی جو اب ضم ہوئے ہیں، اسی طرح اندرون سندھ میں بھی۔ اس کے لئے بجٹ کا اہتمام ، صاف ستھرے سٹاف کی بھرتی ہماری ترجیح ہے۔ صحیح افراد کو منتخب کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہمیں دور دراز کے علاقوں میں اچھے افسر نہیں ملتے۔ ہم ایسا سٹاف لینا چاہتے ہیں جس کا کوئی سکینڈل نہ بنے۔

ہم یہ بھی منصوبہ بنا رہے ہیں کہ لوگ اپنے باہمی چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے عدالتوں کا رخ کرنے کے بجائے ہمارے پاس آئیں، ہم بالکل مفت میں ان کے فوری فیصلے کرنے کے لئے تیار ہیں، بشرطیکہ دونوں پارٹیاں مشترکہ طور پر ہمارے پاس آئیں تاکہ وہ وکیل پر خرچہ کریں نہ ہی عدالتوں میں جا کر برس ہا برس تک انتظار کریں۔ ہم اپنے سکوپ آف سروسز کو بھی بڑھا رہے ہیں۔

٭وفاقی محتسب کے بارے میں لوگوں کی معلومات

لوگوں کو وفاقی محتسب کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ بعض اوقات بڑے شہروں میں ہمیں اپنے ساتھی ملتے ہیں، جب ہم انھیں بتاتے ہیں کہ ہم یہ کام کر رہے ہیں تو وہ حیران ہوکر کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس کا علم ہی نہیں ہے۔

بریکنگ نیوز اور سنسنی خیز خبروں میں ہماری خبریں دب جاتی ہیں، تاہم جن کی شکایات لے رہے ہیں، ان کے لئے یہ ادارہ بہت اہم ہے۔ اس اعتبار سے شعور کا بڑا ایشو ہے۔ ہمارے پاس تشہیر کے لئے فنڈز نہیںہیں چنانچہ ہم نے کھلی کچہری کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے ایڈوائزر چھوٹے مقامات پر جائیں گے اور کھلی کچہری کریں گے۔

وہ لوگوں کو پہلے سے اطلاع کرکے پہلے سے حاصل ہونے والی شکایات پر فیصلہ کریں گے۔ متعلقہ محکمے کے لوگوں کو بھی ساتھ رکھیں گے۔ وفاقی محکموں کے خلاف شکایات پہلے ہی سنتے ہیں ، اب دیگر کئی محکموں کے بارے میں بھی شکایات سنیں گے۔

وفاقی محتسب ہر بد انتظا می اور مفا د عا مہ کے معا ملا ت پر کا رروائی کر سکتے ہیں۔ وفا قی محتسب ایکٹ مجریہ 1983ء کے آرٹیکل 17 اور 33 کے مطا بق Informal Dispute Resolution کے تحت عام لو گوں کے با ہمی تنازعات کا جرگہ یا پنچایت کی طرز پر حل تلا ش کرنے کے سلسلے میں بھی اس ادارے کی خد مات کو بروئے کار لائیں گے نیز یہ کہ ممتاز ما ہر ین قا نون، نا مور سما جی شخصیات ، تعلیمی شعبے کے سرکردہ افراد اور سو ل سو سا ئٹی کے نامور ممبران پر مشتمل ایڈ وائز ری کو نسل بھی تر تیب دی جا رہی ہے جو ’’ تھنک ٹینکز‘‘سے بھی رابطہ رکھے گی اور باہمی مشا ورت سے وفاقی محتسب کو اپنا دائرہ کار بڑھانے اور نئے اقدا مات کے حوا لے سے تجا ویز پیش کر ے گی تا کہ عا م آدمی اس ادارے سے زیا دہ سے زیا دہ مستفید ہو سکے۔

٭محکمہ دفاع میں مداخلت نہیں کرسکتے لیکن ۔۔۔۔۔

اگرچہ ہم دفاع کے محکمے میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ تاہم متعدد بار فوجی بھی شکایت لے کر آئے ، کسی کا پنشن کا مسئلہ تھا یا پھر کوئی دوسرا ، تیسرا مسئلہ تو یہاں سے بندہ محکمے کے پاس گیا ، وہاں جاکر کہا کہ اس فوجی کا یہ مسئلہ حل کردیں، وہ کردیتے ہیں ۔ ویسے اگر وہ خود دفاتر کے چکر لگائے تو کلرک کیس آگے جانے ہی نہیں دیتا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے دفتر کا کردار اس طرح بڑھائیںگے کہ دیگر معاملات میں بھی لوگوں کی مدد کرسکیں۔ جتنا ہم کام بڑھائیں گے، اپنی صلاحیت بھی بڑھانی ہوگی۔‘‘

چند مثالیں

ویسے تو وفاقی محتسب اعلیٰ کی مدا خلت سے ہزاروں افراد مختلف النو ع مسا ئل کے سلسلے میں ریلیف حا صل کر رہے ہیں تاہم نمو نے کے طور پر حال ہی میں دوچار شکایات پر ہو نے والے فیصلوں کا حوا لہ دینا یہاں بے جا نہ ہوگا مثلاًملتان میں سائلین کی شکا یت پر پوسٹل لا ئف انشو رنس سے فوری طور پر تقر یباًایک کروڑ روپے سے زیا دہ ما لیت کے چیک جا ری کر ائے گئے۔

عمران خان نا می ورکر سعودی عر ب میں اگست 2021 ء میں وفات پا گیا تھا مگر اسٹیٹ لا ئف انشو رنس والے کراچی میں مقیم اس کی بیوہ کو کلیم کی مطلوبہ رقم کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے ، جس پر وفاقی محتسب کے علا قا ئی دفتر کرا چی کی مد اخلت پر بالآخر بیوہ کو دس لا کھ روپے کا چیک مل گیا۔

جیکب آ باد انسٹی ٹیوٹ آف میڈ یکل سا ئنس ، عام لوگوں کو عا لمی معیار کی مفت طبی سہو لیات فرا ہم کرنے کا ایک نجی ادارہ ہے جسے SEPCO نے 11 ملین سے زائد بجلی کا بل بھیج کر غیر منصفانہ بلنگ کا نشانہ بنایا ۔ شکایت موصول ہو نے پر وفاقی محتسب کے علا قا ئی دفتر سکھر نے متعلقہ حکام کو دفتر طلب کر کے کیس کی سما عت کی جس کے نتیجے میں متعلقہ محکمے کے سر براہان نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور انہیں بل درست کر نے کے احکامات جا ری کئے گئے۔

وفاقی محتسب کی بابت چند اہم معلومات

وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ کے قیام 1983 ء سے لے کر2021 ء تک کی کا رکردگی پر مبنی رپورٹ کے مطا بق 1984ء میں یہاں 37697 شکا یات کا اندراج ہوا تھا، جو رفتہ رفتہ بڑ ھتے ہوئے2017ء میں 83457 تک جا پہنچیں۔2020ء میں وفاقی اداروں کے خلاف ایک لا کھ 33 ہزار 521 شکا یات درج ہو ئیں، جن میں سے ایک لا کھ 30 ہزار 112 شکایات کے فیصلے کئے گئے۔ وفاقی محتسب سیکرٹر یٹ کے قیام سے لے کر اب تک کی38 سالہ تا ریخ میں کسی ایک سال میں یہ سب سے زیا دہ شکایات اور سب سے زیا دہ فیصلے ہیں۔

٭کو ئی بھی شخص کسی بھی وفاقی ادارے کے خلاف اپنی شکا یت سادہ کا غذ پر اردو یا انگر یزی میں لکھ کر متعلقہ دستا ویزات کے ہمراہ آن لا ئن ویب سا ئٹ www.mohtasib.gov.pk یا مو با ئل ایپ یا ای میل mohtasib.registrar@gmail.com پر یاڈاک کے ذریعے وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ،36-Constitution Avenue ، سیکٹر G-5/2، اسلا م آ بادکے پتے پر ارسال کر سکتا ہے۔ ہیلپ لا ئن نمبر1055 پرصبح 8 بجے سے شام 10بجے تک فون کر کے رہنما ئی حا صل کر سکتا ہے۔

٭ کسی بھی وفاقی ادارے میں مو صول ہو نے والی شکا یت اگر30 دن کے اندر حل نہ ہو تو وہ ایک خود کار نظام کے تحت وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ کے سسٹم میں منتقل ہو جا تی ہے اور اس پر یہاں کارروائی شر وع ہو جا تی ہے۔

٭ زیا دہ ترشکایات بجلی تقسیم کر نے والی کمپنیوں اور سو ئی گیس کے علا وہ ، نادرا، پا کستان پوسٹ، علامہ اقبال اوپن یونیو رسٹی، پاکستان بیت المال، پا کستان ریلوے ، پا کستان پوسٹ ، اسٹیٹ لا ئف انشو رنس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام( احساس) اور ای او آئی بی کے خلا ف آتی ہیں۔

٭وفاقی محتسب سیکرٹر یٹ میں ’ سہو لیا تی کمشنر برا ئے اوورسیز پا کستا نیز ‘ کی زیر نگرا نی ایک شعبہ الگ سے کام کر رہا ہے جہاں پچھلے سال 54,349 شکایات کو نمٹایا گیا۔ تمام پا کستا نی مشنزمیں فوکل پر سنز مقرر کئے گئے ہیں اور مشنز کے سربراہان کو پا بند کیا گیا ہے کہ وہ ہفتے میں ایک دن خود پاکستانیوںکی شکایات سنیں ۔ پا کستان کے آ ٹھ بین الاقوا می ہوا ئی اڈوں پر ’ یکجا سہولیا تی ڈیسک ‘ قا ئم کئے گئے ہیں جہاں بیرون ملک پا کستا نیوں سے متعلق با رہ اداروں کے نمائند ے ہفتے کے سا توں دن چو بیس گھنٹے مو جود رہتے ہیں اور موقع پر ہی شکا یات کا ازالہ کر تے ہیں۔