کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 8 مئ 2022
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

غزل
پہلے تو خود کا نام و نسب دیکھتا ہوں میں
پھر دل میں آپ ہی کی طلب دیکھتا ہوں میں
اب کون تجھ سے آ کے کہے میرا مدعا
وحشت سے خود کو مہر بلب دیکھتا ہوں میں
ورنہ تجھے بتاتا میں، کیا شے ہے بے رخی
افسوس دوست! حدِ ادب دیکھتا ہوں میں
جب کوئی مجھ کو حرفِ ملامت سے زخم دے
اِس ربطِ پائمال کو تب دیکھتا ہوں میں
دنیا! اسے پسند بہت ہے ترا طریق
ورنہ تیرے وجود کو کب دیکھتا ہوں میں
میں کب تک انتظار کی دہلیز چومتا
وہ شخص کہہ رہا تھا کہ اب دیکھتا ہوں میں
وحشت میں کوستا ہوں دلِ نامراد کو
جب اپنے دل میں اس کی طلب دیکھتا ہوں میں
شاید تمہارے ہجر کی زحمت قریب ہے
دل میں کسی فشار کی چھب دیکھتا ہوں میں
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)

۔۔۔
غزل
جہانِ فکر سے خاکِ وفا اڑاتے ہوئے
یہ کون گزرا مرے نقش تک مٹاتے ہوئے
انا کا تاج محل پاش پاش کرنا پڑا
اے شخص! خود کو ترے حکم پر چلاتے ہوئے
کسی کے پاؤں کی رہ منزلیں بھی تکتی ہیں
یہ کون سوچتا ہے بیڑیاں بناتے ہوئے
اجالے گی مری ہم جولیوں کی راہِ حیات
بھلے ہی بجھ گئی میں روشنی بناتے ہوئے
مرے مسیح! ترے تجربوں نے مار دیا
میں اپنی جاں سے گئی تجھ کو ازماتے ہوئے
ہزار تجھ سے رہے اختلاف پر بلقیسؔ
میں خوش کہاں ہوں تری زندگی سے جاتے ہوئے
(بلقیس خان۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل
سانسوں کے تنفس کو نہ دونیم کریں گے
ہم آپ کو تفریق نہ تقسیم کریں گے
ہر چھید رفو کر کے محبت کے بھرم سے
ہم ہجر کی پوشاک کی تعظیم کریں گے
ہر بام پہ رکھ آئے محبت کی گواہی
آخر تو کسی روز وہ تسلیم کریں گے
خود اپنے اصولوں سے لڑے تیرے لیے ہم
کچھ توڑ دیے، کچھ میں ترامیم کریں گے
اوڑھیں گے نہیں مانگ کے خوشیوں کا لبادہ
ہم درد کی جاگیر کو اقلیم کریں گے
مر جائیں گے جب ہم تو یہی سنگ صفت لوگ
مدفن پہ پڑی خاک کی تکریم کریں گے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
جو بات جتائی ہے جتانے کی نہیں تھی
پھر بات ہماری تھی زمانے کی نہیں تھی
ہر بات ہر اک شخص سمجھ ہی نہیں سکتا
ہر نظم سرِ بزم سنانے کی نہیں تھی
نقشہ بھی تھا، رستہ بھی تھا ،ہمت بھی تھی لیکن
کنجی ہی مرے پاس خزانے کی نہیں تھی
کیا جانیے کیا بات تھی اس شخص کے دل میں
یہ بات تو کچھ ایسی رلانے کی نہیں تھی
آج اس کی صدا پر کوئی لبیک نہ بولا
وہ جس کی نہیں ایک زمانے کی’نہیں‘ تھی
جو زخم لگایا ہے لگانے کا نہیں تھا
جو تیغ چلائی ہے چلانے کی نہیں تھی
جو دل میں بسایا ہے بسانے کا نہیں تھا
جو آگ لگائی ہے لگانے کی نہیں تھی
کرنے سے کوئی کام بھی ہو سکتا ہے لیکن
نیت ہی مری اس کو بھلانے کی نہیں تھی
جاتے ہوئے اس نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
خُو میری بھی آواز لگانے کی نہیں تھی
(اِمتیاز انجم۔ اوکاڑہ)

۔۔۔
غزل
آسمان و زمیں پہ باغ لگا
میں کہاں ہوں مِرا سراغ لگا
تاکہ تیری سمجھ میں آ جاؤں
مجھ کو پورا سمجھ،دماغ لگا
لَو کا صدقہ اتار دیں آنکھیں
مجھ کو آنکھیں نہیں چراغ لگا
صاف دامن تھما دیا ہے تجھے
اس پہ مَن مرضیوں کے داغ لگا
آبِ حیرت پلا مجھے ساجد
میرے منہ سے کوئی ایاغ لگا
(ساجد رضا خان۔ کوٹ بہادر)

۔۔۔
غزل
لذتِ گریہ ہے ہر یاد کی سرشاری میں
اشک سحری میں عزا داریاں افطاری میں
اڑتی پھرتی ہیں کتابیں مرے وجدان کے ساتھ
تہ بہ تہ خواب سجے رہتے ہیں الماری میں
اے مرے دوست تری ایک نظر کی خاطر
میں نے اک عمر گزاری ہے اداکاری میں
مری بنیاد میں شامل ہے لہو صدیوں کا
سوچ لو وقت لگے گا مری مسماری میں
ایسے بازارِ خریدار میں بیٹھے ہیں جہاں
وقت آسانی سے مل جاتا ہے دشواری میں
حسن کی ایک جھلک دیکھ کے اس بار بھی کیا
دل سلگتا ہوا ڈھل جائے گا چنگاری میں
ہم بچھڑ جائیں گے اس عید سے پہلے فرخ
وہ یہی سوچ کے مصروف ہیں تیاری میں
(عدنان فرخ۔ کوٹ ادو)

۔۔۔
غزل
بعد میں آنکھ کو تحریک ملی سونے کی
پہلی فرصت میں تو بنیاد رکھی رونے کی
وقت اچھا ہے مرے دوست کوئی فیصلہ کر
کل کو برداشت کہاں ہو گی تجھے کھونے کی
زنگ آسیب کا اترا تو ہوا راز عیاں
غار کے پیچھے کہیں کان ملی سونے کی
موت کے بعد دکھاؤں گا کہ ہونا کیا ہے
زندگی کوئی علامت ہے مرے ہونے کی
گیلری خالی پڑی رہتی تھی الحمراء کی
اس کی تصویر لگی مانگ بڑھی کونے کی
ورنہ اس شہر کا خوشحال جفاکش ہوتا
مجھ کو اجرت نہ ملی رنج و الم ڈھونے کی
لوگ کشکول بنانے میں لگے تھے ساجدؔ
جیسے موسم میں ضرورت تھی انا بونے کی
(لطیف ساجد ۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
اب زمانے میں یوں جیا جائے
راز دل کو بھی نہ دیاجائے
کچھ نہیں کہتا ہجر کا موسم
کام حکمت سے گر لیا جائے
اب اداسی بھی طعنہ دیتی ہے
تنہا کب تک بتا جیا جائے
میں نے سمجھا ہے درد پیڑوں کا
مجھ کو سولی چڑھا دیاجائے
شرط قاتل نے کیسی رکھی ہے
زہر اک سانس میں پیا جائے
(سید انعام عباس۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
جب بھی آنگن میں ترے چاند نکلتا ہوگا
میرے بارے میں کبھی تو نے بھی سوچا ہوگا
مشورہ ہے یہ کسی ایک سے مخلص رہنا
جانے والے یہ تمھارے لیے اچھا ہوگا
اس نے پھولوں کی نمائش میں کہاں جانا ہے
مسکراتے ہوئے جس نے تجھے دیکھا ہوگا
مدتوں بعد گزرنا ہے ترے گاؤں سے
مدتوں بعد کسی بات پہ رونا ہوگا
میری زلفوں کو بکھرنے سے بچا لے ورنہ
دیکھ اے شخص تجھے سارا بکھرنا ہوگا
تجھ کو تہمینہ ؔیہ اک بات سمجھنا ہوگی
عشق کرنا ہے تو اک روز بچھڑنا ہوگا
(تہمینہ راؤ۔ سڈنی، آسٹریلیا)

۔۔۔
غزل
یہ دل گلزار ہونے کی نشانی ہے
ترا دیدار ہونے کی نشانی ہے
گرے ہیں میرے جو اطراف میں پتھر
مرے پھل دار ہونے کی نشانی ہے
کسی کا بھوک میں چپ چاپ رہنا بھی
میاں خود دار ہونے کی نشانی ہے
اچانک صحن سے اشجار کا کٹنا
وہاں دیوار ہونے کی نشانی ہے
ہمارے شہر سے ہجرت پرندوں کی
برا کچھ یار، ہونے کی نشانی ہے
یہی سچ ہے ترا کوفے سے ہونا ہی
ترے غدار ہونے کی نشانی ہے
کسی کا خواب میں اکمل ؔبچھڑ جانا
سفر دشوار ہونے کی نشانی ہے
(اکمل حنیف۔لاہور)

۔۔۔
غزل
ایسا جنگل تو بیابان نہیں ہو سکتا
جس میں وحشت کا بھی سامان نہیں ہو سکتا
مجھ کو ماں باپ نے پالا ہے بڑے نازوں سے
تجھ پہ قربان مری جان نہیں ہو سکتا
اس محبت کے سبب جان سے جا سکتا ہوں
اس محبت سے پریشان نہیں ہو سکتا
جو کسی غیر کی ٹھوکر پہ پڑا ہو یارو
ایسا پتھر کبھی بھگوان نہیں ہو سکتا
(سید حمزہ شاہ۔ خانیوال)

۔۔۔
غزل
یار جی بخدا نہیں سمجھے
تم مرا مدعا نہیں سمجھے
وہ تو رسماً ہی مسکرا دیے تھے
اور ہم کیا سے کیا نہیں سمجھے
میں سمجھتا تھا یار سمجھیں گے
یار بھی تو ذرا نہیں سمجھے
اب نصیر ان کو کیا ہے سمجھانا
جو کسی کا کہا نہیں سمجھے
( نصیر حشمت گرواہ۔ چنیوٹ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔