میثاق پاکستان

اطہر قادر حسن  بدھ 25 مئ 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہیں پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاسی لانگ مارچ پشاور سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے اور اس مارچ کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں، جب کہ دوسرے صوبوں سے تحریک انصاف کے سر کردہ رہنماء اپنے اپنے قافلوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے علیحدگی کے بعد عمران خان ملک بھر میں مسلسل جلسے کر رہے تھے۔

وہ ملتان میں جلسے کے بعد پشاور پہنچ گئے ،ان کو خدشہ تھا کہ اسلام آباد میں انھیں نظر بند یا گرفتار کیا جا سکتا ہے لہٰذا وہ سیدھے پشاور جا پہنچے ہیں جہاں پر ان کی صوبائی حکومت ابھی تک قائم و دائم ہے، تادم تحریر اتحادی حکومت بھی مارچ کو ناکام بنانے کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کرچکی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مسلسل مشاورت کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی ۔ حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کی قیادت متفق ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کا مقابلہ کریں گے ۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ ہنگاموں اور تحریکوں سے بھری پڑی ہے ۔ ان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی جمہوری حکومت قائم ہوئی ، اس کے خلاف ہی مارچ ہوئے ہیں۔ ڈکٹیٹر کو اکثر سیاستدانوں نے خوش آمدید ہی کہا اور موقع ملتے ہی اس کی حکمرانی میں حصے دار بھی بن گئے۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے ماضی قریب میں پرویز مشرف کی حکومت اس کی ایک زندہ مثال ہے جب ہمارے نامور لیڈر حضرات نہ صرف اس کی حکومت کا حصہ تھے بلکہ وہ پرویز مشرف کی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے مزید تعاون پر بھی تیار تھے ۔ ماضی میں ایوب خان اور ضیاالحق کی حکومتوں کا سہارا بھی یہی سیاست دان بنے اور یہ آج بھی مقتدر حلقوں کی خوشنودی کے لیے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔

پاکستان میں جمہوریت ہمارے سیاسی رہنماؤں کی مجبوری اور ضرورت ہے اور وہ اپنی اس جمہوری ضرورت کی کسی بہتر شکل و صورت میں ہی اپنا مقام برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ماضی میں بھی سیاستدانوں کے مابین کوئی معاہدہ سرے نہیں چڑھ سکا اور آج کی سیاست میں بھی یہی کچھ نظر آرہا ہے۔ چونکہ پاکستانی نظریاتی سیاست بہت کمزور پڑ چکی ہے بلکہ اس جنس کا ملنا اب ناممکن ہو چکا ہے اور حکومت کے زیر سایہ رہنے میں ملنے والے آسائشوں کو نظریات پر قربان کیا جا چکا ہے۔

اس لیے آج کے سیاسی ماحول میںہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو ان آسائشوں تک پہنچنے کا آسان ترین ذریعہ ہو۔ ماضی میںپاکستان کی دو بڑی سیاسی قوتوں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک میثاق پر لندن میں شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے دستخط کیے تھے، اس میثاق کو بینظیر کی شہادت کے بعد کسی حد تک دونوں پارٹیوں نے نبھانے کی کوشش کی لیکن یہ میثاق اور تعلق بھی زیادہ مدت تک نہ نبھایا جا سکا اورایک وقت وہ بھی آیا کہ آصف زرداری یہ کہنے پر مجبورہو گئے کہ معاہدے کوئی حدیث تھوڑی ہوتے ہیں جن پر من و عن عمل کیا جائے ۔

آج ایک بار پھر اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک تاریخی میثاق کیاہے اوراس میثاق کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔عمران خان سڑکوں پر ہیں اور متحدہ اپوزیشن حکومت میں ہے، لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے معیشت نزع کے عالم میں ہے اوراس پر مستزاد یہ کہ حکومت اور عمران خان میں میچ پڑ چکا ہے ۔

آج عمران خان جس اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہیں کل تک وہ اسی اسلام آباد میں حکمران تھے قطع نظر اس بات کے کہ ان کی حکمرانی کا انداز کیسا تھا اور آج جب وہ تخت سے اتر چکے ہیں تو وہ دوبارہ اسی ڈولتے تخت پر قبضہ جمانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور بادی النظر میں وہ نئے الیکشن کے سوا کسی سمجھوتے پر تیار نظر نہیں آتے اور حکمران اس پر مصر ہیںکہ وہ حکومت کی مدت مکمل کر کے ہی الیکشن کرائیں گے لیکن ملک میں انتشار اور اضطراب کی کیفیت ہے۔

عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، تخت کے حصول کی لڑائی میں اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ عوام ہیں جن کے لیے روز مر ہ کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے ۔

روپے کے مقابلے میںڈالر اپنی انتہائی حدوں سے بھی آگے بڑھ چکا ہے ۔اس وقت کسی بھی سیاسی ڈرامے اور ہنگامہ آرائی سے زیادہ ملک کو معاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے اور یہ معاشی استحکام صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ ملکی قیادت ایک صفحے پر ہو جس میں ملک کے تما م اسٹیک ہولڈرز بشمول فوج بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرے ۔ سیاسی قیادت کو یہ استدعا کی جا سکتی ہے کہ اگر خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو گیا تو سیاسی قیادت کا مستقبل کیا ہو گا۔

لہٰذا اس وقت پاکستان کو ایک ایسے میثاق کی ضرورت ہے جس پرعوام کے رہنماء اور ملکی ادارے متفق ہوں اور یہ میثاق معیشت ہو جو پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ ایک دفعہ ملک صحیح ڈگر پر آجائے تو سیاست بھی یہیں ہے اور سیاستدان بھی یہیں ہیں۔قومی معاملات کو بند گلی میں نہ لے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔