قومی مکالمہ، بہترین راستہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 26 مئ 2022
سیاسی انتشار میں تشویشناک اضافہ دیکھا جارہا ہے، ملک میں عام آدمی لاوارث ہوگیا ہے، قومی قیادت باہم دست و گریبان ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

سیاسی انتشار میں تشویشناک اضافہ دیکھا جارہا ہے، ملک میں عام آدمی لاوارث ہوگیا ہے، قومی قیادت باہم دست و گریبان ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نئے الیکشن کا مطالبہ منوانے کے لیے تحریک انصاف سڑکوں پر آ چکی ہے، جب کہ حکومتی اتحاد نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملک کو لاحق معاشی اور سیاسی مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

سیاسی انتشار میں تشویشناک اضافہ دیکھا جارہا ہے، ملک میں عام آدمی لاوارث ہوگیا ہے، قومی قیادت باہم دست و گریبان ہے۔ قرضوں اور کرپشن ، نظام کی تباہ کاریوں نے ہر گھر کو متاثر کردیا ہے۔ انتظامی اداروں میں بے یقینی پائی جا رہی ہے۔ ریاست کے کام بند پڑے ہیں ، سماجی تقسیم گہری سے گہری  ہو رہی ہے۔ مسائل بہت سے ہیں جن سے فوری نجات کا راستہ عمران خان نئے انتخابات کے اعلان کی صورت میں بتا رہے ہیں۔

حکومت کے تیور دوسرے ہیں، وہ ریاستی قوت کے ساتھ مظاہرین کو روکنا چاہتی ہے۔ سیاسی تنازعات بڑھ جائیں تو ان کو کم کرنے کا نظام سماج میں فعال کر دیا جاتا ہے۔ ایک طرفہ تماشا ہے کہ تنازعات کو کم یا ختم کرنے کی بجائے پاکستانی سماج کا ہر قابل ذکر پرزہ اختلاف اور تنازع کو پھیلانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات کو ہی دیکھ لیں ہر زبان آگ اگل رہی ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے مفاہمت، میانہ روی اور صلح کی بات سننے کو نہیں مل رہی۔ سب اپنے اپنے سیاسی قائدین کے فلسفے کے مطابق بیانات جاری کر رہے ہیں۔

سب ہی ملک و قوم کی بھلائی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ مگر کوئی بھی دلیل اور منطق سے بات کرنے کے بجائے صرف یہی کہہ رہا ہے چونکہ اس نے ایسا کیا اس لیے ہم بھی ویسے ہی کریں گے، یہی مکافات عمل ہے۔ کوئی کسی کو معاف کر کے مکافات عمل کے اس سلسلے کو ختم نہیں کرنا چاہتا بلکہ سب بدلہ لینے اور سبق سکھانے کے جذبے سے سرشار ہیں، کوئی در گذر سے کام لینے کو تیار نہیں ہے۔ یہ سوچ کہیں نظر نہیں آتی کہ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کا نقصان صرف اور صرف ملک کو ہوتا ہے۔

وطن ہمارا ہے ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اس ملک کو نقصان پہنچانے والے ہر عمل سے دور رہنا ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا راستہ بھی اپنے ووٹ سے ہی روکنا ہے۔ پرتشدد اور انتقام کے دور میں صلح کا راستہ بھی ہم نے ہی پیدا کرنا ہے ۔

اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس عدم استحکام کا براہِ راست اثر زندگی کے تمام شعبوں پر منتقل ہو رہا ہے۔ ریاستی ادارے مختلف سطحوں پر ملک کا انتظام چلاتے ہیں، معیشت کی حالت، ملکی سلامتی اور ہر شہری کی فلاح و بہبود ان کے کام پر منحصر ہے۔ ایک مستحکم سیاسی صورت حال آپ کو معیشت میں توازن قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اس نظام کے ٹوٹنے سے تباہی ہوتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام بنیادی طور پر قومی کرنسی کی قدر میں کمی اور آبادی کے معیار زندگی میں بگاڑ کا باعث ہے۔

ملک میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے، مہنگائی کا طوفان سر پر کھڑا ہے۔ سیاستدان میوزیکل چیئر گیم کھیلنے میں مگن ہیں، اس عمل نے پاکستان کی ساکھ اور ملکی معیشت کو بھیانک دور میں داخل کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کب اس سیاسی بے ہنگم اور غیر یقینی کی صورت سے نکلے گا ؟ حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور اس کی بیشتر شرائط تسلیم کیے جانے کے باوجود سر دست پٹرولیم نرخ نہ بڑھانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

گزشتہ 9 ماہ جولائی سے مارچ کے دوران ملکی امپورٹس 49 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 58.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جب کہ ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر صرف 2 مہینے کے لیے کافی ہیں۔

پاکستان سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ نئی حکومت آنے کے بعد ڈالر182 سے بڑھ کر202 روپے تک پہنچ گیا ہے اور مزید بلندیوں کی طرف محو ِ پرواز ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف چین، سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے اپنے دیرینہ تعلقات استعمال کرکے ملک میں سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آٹو سیکٹر نے رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 53.8 فیصد ٹرکوں کی فروخت میں 66.4 فیصد جیپ پک اپ کی فروخت میں 45.8 فیصد اور ٹریکٹر کی فروخت میں 12.1 فیصد اضافے کے ساتھ ایک مضبوط کارکردگی ظاہر کی ہے۔

کاروں کی کل فروخت بڑھ کر ایک لاکھ 72 ہزار 612 یونٹس ہوگئی ہے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے لامحالہ ٹریفک بڑھے گی اور فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا تیل کی درآمد زیادہ کرنا پڑے گی۔ قرضے لینے کی وجہ پچھلے قرضوں کی سود سمیت واپسی ہے۔ ملک کا کل سرکاری قرضہ 42 ہزار ارب روپے ہے عمران خان نے چار سال قبل قرضوں کا حجم 28 ہزار ارب روپے بتایا تھا۔ قرضے امریکا اور جاپان پر بھی ہیں۔

ہمارا ٹیکسوں کا ناقص نظام درآمدات و برآمدات میں عدم توازن ، تیل ، گیس کی تلاش میں سنجیدہ کوششوں کا فقدان سرفہرست ہیں۔ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا 55 فیصد بنتا ہے۔ حکومت کو اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کوکم ، برآمدات میں اضافہ درآمدات میں کمی اور قومی آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے چاہئیں۔ اس وقت ڈیزل کی شدید قلت کے باعث بہت سے پیداواری مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن کا ملکی معیشت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ان حالات میں اگر نئے انتخابات کرا دیے جائیں تو بھی صورتحال جوں کی توں ہی رہے گی۔

ریاست کے قومی اور عوامی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے جس میں ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز شریک ہوں۔ مشاورت اور افہام و تفہیم کے ساتھ اگلے بیس سال کے لیے روڈ میپ اور پیکیج تیار کریں۔ تقلید اور جمود سے ہمیشہ ریاستیں برباد ہو جاتی ہیں، جو قومیں ماضی کے تجربات اور مشاہدات سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کا تعین کرتی ہیں تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں۔

اس بات پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی، معاشی، عدالتی نظام اور پولیس اور بیوروکریسی کے انتظامی ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ لازم ہے کہ ایک نیا سماجی معاہدہ تشکیل دیا جائے جو جوہری تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔

عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو یہ قومی ذمے داری پوری کرنی چاہیے مگر افسوس سرمائے اور جاگیروں کی بنیاد پر منتخب ہونے والے عوامی نمایندے چیلنجوں کا سامنا کرنے اور سیاسی و معاشی استحکام پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر دستور ساز اسمبلی کے انتخابات بھی کرا دیے جائیں تو پرانے مفاد پرست اور موقع پرست افراد ہی منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے جو بامقصد اور بامعنی تبدیلی پر کبھی متفق نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں گرینڈ قومی ڈائیلاگ ہی بہترین آپشن ہے۔

ملک کو ناکام سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان اور عوام سے لا زوال محبت کرنے والے افراد کو بیدار ہونا پڑے گا اور ریاست کو درست ٹریک پر ڈالنے کے لیے سرگرم اور پرعزم کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال ریاست بنایا جا سکے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ قومی کانفرنس طلب کی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر، عدلیہ، فوج، بیوروکریسی، میڈیا اور وکلا کے نمایندے شامل ہوں۔

کانفرنس کے لیے اتفاق رائے سے قومی ایجنڈا تیار کیا جائے جس پر تفصیلی مشاورت کی جائے اور اتفاق رائے سے قومی اعلامیہ جاری کیا جائے ، ہم سیکیورٹی کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک تجربہ کر چکے ہیں جو کامیاب رہا ہے۔ سیاسی، معاشی اور انتظامی مسائل کے حوالے سے بھی قومی ڈائیلاگ کے ذریعے اتفاق رائے ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔