گنج پن کی نئی دوا کے امید افزا نتائج برآمد

ویب ڈیسک  ہفتہ 28 مئ 2022
مختلف ادویہ ساز کمپنیاں بالوں کے گرنے سے بچنے کے لیے دواؤں کے تجربات کر رہے ہیں

مختلف ادویہ ساز کمپنیاں بالوں کے گرنے سے بچنے کے لیے دواؤں کے تجربات کر رہے ہیں

لیکسنگٹن: دنیا بھر میں بالچر کا شکار لاکھوں افراد عنقریب ایک دوا کے استعمال سے چند مہینوں میں تیزی سے کھوئے ہوئے بال دوبارہ حاصل کرسکیں گے۔ 

حال ہی میں دن میں دو بار استعمال کی جانے والی گولی پر کی جانے تحقیق میں معلوم ہوا کہ 10 میں سے چار افراد کے چھ ماہ میں تقریباً پورے سر پر دوبارہ بال اُگ آئے تھے۔

تاہم، اس ایجاد کے پشت پر موجود مرکزی سائنس دان کو یہ امید نہیں تھی کہ اس دوا سے ان لوگوں کو جنہوں نے بڑھتی عمر کی وجہ سے بال کھوئے ہیں، افاقہ ہوگا۔

بالوں کے گِرنے کے لیے ’ایلوپیشیا‘ کی طبی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تب پیش آتی ہے جب جسم اپنے صحت مند بالوں کے غدود پر حملہ کرتا ہے۔

امریکی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے بنائی گئی یہ دوا مدافعتی جوابی عمل کو کمزور کر کے کام کرتی ہے۔

اگرچہ دیگر ادویہ ساز کمپنیاں بھی بالوں کے گرنے سے بچنے کے لیے دواؤں کے تجربات کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال اس کا کوئی حتمی علاج موجود نہیں ہے۔

تیزی سے بال گرنے کی وجہ سے یہ بیماری لوگوں میں کم خود اعتمادی، ڈپریشن اور پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔

تازہ ترین آزمائنش میں امریکا، کینیڈا اور یورپ سے تعلق رکھنے والے 18 سے 65 برس کے درمیان بالچر کا شکار 706 افراد کو 24 ہفتوں تک دیکھا گیا۔

ان شرکاء کو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا جن میں ایک کو پلیسبو، دوسرے گروپ کو 8 ایم جی کی گولی دن میں دو بار دی گئی جبکہ تیسرے گروپ کو روزانہ 12 ایم جی کی خوراک دن میں دو بار دی گئی۔

اس دوا کا نام سی ٹی پی 543 رکھا گیا ہے جسے کنسرٹ فارمسیوٹیکل کمپنی نے بنایا ہے۔

محققین نے بتایا کہ 8 ملی گرام اور 12 ملی گرا کی خوارک والے گروپوں میں بالوں کی دوبارہ افزائش کی شرح پلیسبو(فرضی دوا) گروپ سے زیادہ دیکھی گئی۔

تحقیق کے آغاز میں شرکاء کے سر پر صرف 16 فی صد بال تھے۔ لیکن تحقیق کے آخر تک سب سے زیادہ طاقت کی خوراک پانے والے گروپ کے 41.5 فی صد افراد میں 80 فی صد سے زیادہ بال دوبارہ اگ چکے تھے۔

اس دوا کے منفی اثرات 5 فی صد سے بھی کم مریضوں میں دیکھے گئے جن میں سب سے عام اثرات میں سر درد، دانے اور انفیکشنز شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔